نومبر 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یہ عبوری صوبہ کیا ہوتا ہے صاحب؟۔۔۔ حیدر جاوید سید

حیرانی ہوئی مادرملت کے طور پر احترام پانے والی خاتون کو غدار کیوں قرار دیا گیا۔ پھر حیرانی دور ہوگئی ساتھ ہی غداروں کی فہرست طویل ہوتی گئی۔

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غدار غدار کھیلنے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ لاہور میں تو غداری کے اعلانات والے پوسٹر وں کا ٹیسٹ میچ شروع ہوچکا۔

صحافت کے کوچھے میں قلم مزدوری کرتے ساڑھے چار دہائیوں سے دو برس اوپر ہوئے ہیں ہم نے سب سے پہلے محترمہ فاطمہ جناح کیلئے لفظ غدار سنا تھا، یہ کسی اور نے نہیں بلکہ اس وقت کے فوجی صدر ایوب خان نے کہا تھا۔

حیرانی ہوئی مادرملت کے طور پر احترام پانے والی خاتون کو غدار کیوں قرار دیا گیا۔ پھر حیرانی دور ہوگئی ساتھ ہی غداروں کی فہرست طویل ہوتی گئی۔

ہم عجیب سے لوگ ہیں سارے جہاں کے درد ہمارے دل میں ہیں تازہ مثال عرب اسرائیل تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہے۔ سوڈان جیسے ملک نے اسرائیل سے تعلقات استوار کر لئے ہیں، یہاں اس حوالے بات کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ہے۔

وزیراعظم گزشتہ روزگلگت میں تھے، وہاں انہوں نے ایک عالی شان خطاب پھڑکاتے ہوئے حب الوطنی، معیشت، قانون کی حاکمیت اور غداروں کے نئے لشکر بارے بہت کچھ کہا، گزشتہ روز ہی انہوں نے فرمایا وہ ملک میں چین جیسا نظام لانا چاہتے ہیں۔

بات ریاست مدینہ سے رہنمائی لے کر فلاحی مملکت بنانے سے شروع ہوئی تھی پھر ایرانی انقلاب تک گئی، اب ترکی کے عوامی معیار سے ہوتی ہوئی چینی نظام تک پہنچ چکی۔ آگے کا اللہ مالک ہے۔

فقیر راحموں کہتے ہیں نظام کے حوالے سے ابھی افغانستان اور یوگینڈا باقی ہیں۔

ایک ستم ظریف نے تبصرہ کیا خدا کیلئے ہمیں پرانا پاکستان ہی واپس دلا دیجئے۔

غداری کے طعنوں، پوسٹروں اور ”نبڑ” لینے کے اعلانات کے بیچوں بیچ نون لیگ میں شامل عسکری شعبہ کے چند سابقین پر پارٹی چھوڑنے کیلئے دباو ہے۔

تین دن اُدھر عرض کیا تھا کہ جنرل عبدالقادر بلوچ، جنرل عبدالقیوم اور جنرل ترمذی (تینوں سابقین جرنیل ہیں اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کا حصہ بھی) سے رابطہ کاروں نے رابطے کئے ہیں۔

جناب عبدالقادر بلوچ رابطہ کاروں کا دانہ چگ چکے، دیکھتے ہیں حب الوطنی کے درد بھرے درس کا باقی دو صاحبان پر کیا اثر پڑتا ہے۔

اسی دوران پنجاب سے مسلم لیگ (ن) کے 15ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سے بھی محب وطنوں نے صلاح مشورے کئے ۔دیکھتے جائیں ہوتا کیا ہے۔

ارے رُکئے گلگت بلتستان کے73ویں یوم آزادی پر بات کرلیتے ہیں،

73سال قبل گلگت بلتستان کے بے نوازمین زادوں نے کسی بیرونی امداد کے بغیر بے سروسامانی کی حالت میں ڈوگرہ راج کیخلاف جدوجہد کی، آزادی حاصل کی اور پاکستان سے الحاق کیا۔

73برسوں سے گلگت بلتستان والے درجہ دوئم کے شہری کے طور پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔

وزیراعظم نے گلگت بلتستان کے 73ویں یوم آزادی کے موقع پر گلگت کو عبوری صوبہ کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔

پہلا سوال یہ ہے کہ حضور یہ عبوری صوبہ کیا ہوتا ہے؟

اگر اس کا مطلب داخلی انتظامی ڈھانچہ ہے (بے اختیار قسم کا) تو وہ پہلے سے موجود ہے،

اس بے اختیار داخلی ڈھانچے میں تو اتنی سکت نہیں کہ جھوٹے مقدمے میں طویل المدتی سزائیں پانے والے مقامی عوامی رہنما کامریڈ بابا جان کی قید وبند پر نظرثانی کرسکے۔

دوسری اہم بات یہ ہے کہ کیا 73سال قبل جب گلگت وبلتستان کے زمین زادوں نے ڈوگرہ مہاراج کے سامراجی تسلط سے آزادی حاصل کی تھی تو جغرافیائی حدود یہی تھی؟

اس جغرافیائی حدود میں کمی کیسے ہوئی؟

یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا گلگت بلتستان بھی تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے؟

توپھر عبوری صوبے کا اعلان کیوں کیا گیا؟

جواب نفی میں ہے تو پھر مکمل صوبہ کادرجہ دے کر قومی اسمبلی اور سینیٹ میں نمائندگی دینے میں کیا امر مانع ہے؟

یہاں بھی عرض کردوں کہ مقامی آبادی کا بڑا حصہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے جعلسازی کے ذریعے افغان باشندوں کو پاکستانی پشتون کے طور پر پیش کر کے آباد کئے جانے کیخلاف سراپا احتجاج ہے۔

کیا پچھلی وفاقی حکومتوں کی طرح موجود حکومت بھی اس حساس مسئلے کو نظر انداز کر دے گی؟۔

کالم کے اس حصہ میں ایک بار پھر بڑھتی ہوئی بلکہ بے لگام مہنگائی سے ستائے ہوئے شہریوں کی حالت راز کی طرف حکومت کو متوجہ کرنا مقصود ہے۔

زرعی معیشت رکھنے والے ملک میں حالت یہ ہے کہ ناقص منصوبہ بندی سے گندم، ٹماٹر، پیاز اور ادراک و لہسن دیگر ممالک سے منگوانے پڑ رہے ہیں، قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں،

یہ بجا ہے کہ حکومت سے زیادہ قصور پرچون فروشوں کا ہے مگر ذمہ داری پھر بھی حکومت پر عائد ہوگی۔

قوانین کا اطلاق قیمتوں کو اعتدال پر رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے حالیہ دنوں میں ادویات کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دیتے وقت کہا تھا ان قیمتوں کا اطلاق تیار شدہ ادویات پر نہیں ہوگا یعنی میڈیکل سٹورز اسٹاکسٹوں اور فیکٹریوں میں پہلے سے موجود ذخیرے کو پرانی قیمتوں پر فروخت کرنا ہوگا۔

لیکن ایسا ہوا نہیں اور فیکٹری مالکان سے میڈیکل سٹورز مالکان تک سب عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں اور حکومت خاموش ہے۔

About The Author