دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

انتخابات کا بخار۔۔۔مبشرعلی زیدی

خوش قسمتی سے 2013 کے انتخابات کے موقع پر کراچی میں تھا۔ ایک ہوٹل میں جیونیوز نے عالی شان سیٹ لگایا۔
مبشرعلی زیدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ضیا الحق کے دور میں غیر جماعتی انتخابات ہوئے تو میں چھٹی جماعت میں پڑھتا تھا۔ سالانہ امتحانات ہونے والے تھے لیکن مجھ پر انتخابات کا بخار چڑھ گیا۔ راتوں کو جاگ کر ٹرانس مشن دیکھی اور کاغذ کے دستے پر نتائج لکھے۔
کراچی آنے کے بعد ایم کیو ایم کے ظہور اور پے در پے رنگارنگ انتخابات نے شوق کو مہمیز کیا۔ خانیوال کی نسبت کراچی میں اخبارات اور جرائد زیادہ پڑھنے کو ملے۔ ہیرلڈ نے 1988 میں الیکشن اسپیشل چھاپا جو آج بھی میرے پاس ہے۔ اس وقت میں میٹرک میں تھا اور قلیل پاکٹ منی بچاکر وہ شمارہ خریدا تھا۔
اس کے بعد ہر الیکشن کے خاص شمارے، اخبارات، کتابیں، جرنلزم میں آنے کے بعد الیکشن کمیشن کے شائع کردہ سرکاری اعدادوشمار کے گزٹ، پتا نہیں کیا کیا جمع کرلیا۔
کرکٹ کے اعدادوشمار کی ایک کتاب بیس بائیس سال کی عمر میں چھاپ لی تھی۔ انتخابی معلومات کی کتاب بھی مرتب کرسکتا تھا۔ لیکن اس کا موقع نہیں ملا۔ صحافت میں آنے کے بعد سوچا کہ اپنی معلومات اور ذخیرے کو یہاں کام میں لاؤں گا۔
پھر یوں ہوا کہ 1997 میں انتخابات ہوئے تو میں کھیلوں کے ایک ہفت روزہ میں کام کررہا تھا جہاں سیاست کی خبر تک نہیں چھپتی تھی۔
جنرل مشرف نے 2002 میں انتخابات کروائے تو میں جنگ لندن میں کام کررہا تھا۔
بینظیر کی شہادت کے بعد 2008 میں الیکشن کے وقت میں جیو کے دبئی اسٹیشن میں تعینات تھا۔
خوش قسمتی سے 2013 کے انتخابات کے موقع پر کراچی میں تھا۔ ایک ہوٹل میں جیونیوز نے عالی شان سیٹ لگایا۔ دنیا جہاں کے لوگ جمع کرلیے۔ ہر اسٹیشن سے کارکن آگئے۔ لیکن چند افراد کو دفتر سے نہ نکلنے کی ہدایت کی گئی کیونکہ الیکشن ٹرانس مشن کے دوران بلیٹن کی ذمے داری ان کی تھی۔ میں اور انصار بھائی ان میں شامل تھے۔ ہمارا موڈ آف ہوگیا۔ بعد میں انصار بھائی کو ٹرانس مشن کے اختتامی لمحات میں خآص طور پر بلاکر شامل کیا گیا۔
شاید جیونیوز کے باسز نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ مجھ سے بلیٹن کے علاوہ کوئی اور کام لیں۔ ایک بار ڈاکومنٹری اور کئی بار پروگرامز کے آئیڈیاز پیش کیے لیکن وہ ہمیشہ یہ کہہ کر رد کیے جاتے رہے کہ پھر بلیٹن کون کرے گا۔ یہ میری تحسین نہیں بلکہ بلیٹن ٹیم کی افرادی قوت کی کمی کا رونا تھا۔
پھر 2018 کے انتخابات آئے لیکن تب میں امریکا آچکا تھا۔
امریکا کے انتخابات کا بھی سن لیجیے۔ 2012 کے انتخابات کی کوریج کے لیے جیونیوز کی فوج ظفر موج امریکا آئی تھی۔ آٹھ دس رپورٹر اور ساتھ میں دوسرا عملہ بھی۔ کئی ایسے لوگ بھی، جنھوں نے صرف تفریح کی۔
میں نے 2016 کے انتخابات سے پہلے اظہر عباس صاحب سے درخواست کی کہ چار سال پرانی فوج کے بیشتر دوست دوسرے چینلوں میں جاچکے ہیں۔ اس بار کی ٹیم میں مجھے شامل کرلیں۔ انھوں نے میرا نام شامل کروادیا۔ ویزا لگ گیا۔
ان دنوں عمران خان نے اسلام آباد میں دوبارہ دھرنا دے دیا۔ ہمارے ایک سینئر نے مجھ سے کہا کہ اسلام آباد سے ٹرانس مشن کرنی ہے۔ ٹکٹ کروادیا ہے۔ فوراً پہنچو۔ میں نے بیگ اٹھایا اور اسلام آباد پہنچ گیا۔ دھرنا ختم ہوا اور کراچی پہنچے تو خبر ملی کہ امریکا والی ٹیم تو گئی۔ میں نے دل کو تسلی دی کہ بجٹ کم ہوگا۔ لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس بار بھی ایک دو حضرات سیر کے لیے گئے تھے۔
امریکا آنے کے بعد یہاں مستقل طور پر مقیم جیونیوز کے کیمرامین عظیم سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے پوچھا کہ آپ الیکشن کے دنوں میں کیوں نہیں آئے؟ میں نے کہا، اظہر صاحب نے آخری لمحات میں میرا نام کاٹ دیا شاید۔ عظیم نے کہا، ایسا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اظہر صاحب خود الیکشن سے پہلے واشنگٹن آئے تو پہلا سوال یہی پوچھا تھا کہ مبشر کہاں ہے؟ مجھے اس دن علم ہوا کہ وہ چالاکی سینئر صاحب نے کی تھی۔
تو جناب اب چار سال کا پھیر مکمل ہوا اور میں نے ایک سال پہلے سے امریکی انتخابات کے اعدادوشمار، اخبار اور کتابیں جمع کرنا شروع کردیں۔ سوچا کہ وائس آف امریکا کی الیکشن کوریج میں اپنے جوہر دکھاؤں گا۔ پاکستان میں ڈیٹا جمع کرنا مشکل ہے، یہاں سب آسانی سے دستیاب ہے۔ میں نے اعدادوشمار کی ایکسل فائلیں بنالیں، مضامین کے عنوان سوچ لیے اور پرپوزل تک بنالیا کہ الیکشن کی شاندار کوریج کیسے کرنی ہے۔
قدرت کا مذاق دیکھیں کہ الیکشن سے چند ماہ پہلے ایک انتخابی جلسے ہی کی خبر پر ہمیں وائس آف امریکا سے فارغ کردیا گیا اور اب گھر بیٹھے چنے پھانک رہے ہیں۔
چار سال پہلے امریکی انتخابات کی کوریج کے لیے جیو نے جن لوگوں کا ویزا لگوایا، میں ان میں شامل تھا۔ لیکن آخری لمحات میں مجھے روک کے اسلام آباد دھرنے کی کوریج کے لیے بھیج دیا گیا۔ میں نے امریکا کا فرضی سفرنامہ لکھنا شروع کردیا۔ چار سال پرانی ایک تحریر ملاحظہ کریں:
۔۔۔
امریکا میں صبح کے سات بجے ہیں۔ میں نیویارک میں اپنے ہوٹل کی کھڑکی سے لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہا ہوں۔ سوٹ بوٹ والے مرد تیز تیز قدم اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ لگتا ہے کہ کسی میٹنگ میں پہنچنے کی جلدی ہے۔ ہار سنگھار والی لڑکیاں بھاگم بھاگ کہیں جارہی ہیں۔ شاید ان کی ٹرین چھوٹنے والی ہے۔ کچھ سیاہ فام لڑکے پتوں سے محروم درختوں کے نیچے مستارہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں کسی مشروب کا ٹن ہے۔ ایک بڑے میاں اپنی چھڑی ٹیکتے ہوئے ٹہل رہے ہیں۔ انھیں کوئی جلدی نہیں ہے۔ کیا کوئی ان کا انتظار نہیں کررہا؟
یہ مین ہٹن ہے۔ شاید دنیا کا سب سے مہنگا علاقہ۔ ایک طرف منہ اٹھاکر چل پڑیں تو اقوام متحدہ کا صدر دفتر ہے جہاں دو ماہ بعد نیا سیکریٹری جنرل بان کی مون کی جگہ آجائے گا۔ دوسرے رخ پر نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی عمارت ہے۔ تیسری جانب ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ ہے۔ چار قدم کے فاصلے پر مشہور ٹائمز اسکوائر ہے۔ بیچ میں جانے کون کون سے سینما گھر اور چڑیا گھر اور عجائب گھر۔ میاں ہم جیسے دیہاتیوں کے لیے پورا امریکا ہی عجائب گھر ہے۔
مجھے سردی پسند بھی ہے لیکن اس سے ڈر بھی لگتا ہے۔ صبح سات بجے نیویارک کا درجہ حرارت چھ ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ لیکن امریکا میں سینٹی گریڈ کے بجائے فارن ہائیٹس کا سکہ چلتا ہے۔ اس کے مطابق درجہ حرارت 43 ڈگری ہے۔ میں دل کو تسلی دیتا ہوں اور نہانے چلا جاتا ہوں۔ گرم پانی آرہا ہے۔ خوف ختم ہوجاتا ہے۔
میرا جس ہوٹل میں قیام ہے، اس کا کمرا چھوٹا ہے اور باتھ روم بڑا ہے۔ کمرے میں سردی گھس رہی ہے اور باتھ روم گیزر کی وجہ سے گرم ہے۔ اس کا دروازہ کھلا رکھوں تو ٹی وی سامنے نظر اتا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ باتھ روم کا تخت طاؤس بیڈروم میں لے آتا ہوں اور بیڈ کو باتھ روم میں بچھا دیتا ہوں۔
اس ہوٹل کی بارہویں منزل پر شہد خانہ ہے۔ اسے دیکھ کر برسلز یاد آگیا۔ وہاں ہمارے دوست خالد حمید فاروقی ایک دن چاکلیٹ کے کارخانے میں لے گئے تھے۔ کارخانے کے منیجر نے چاکلیٹ کی تاریخ، بنانے کا طریقہ اور مارکیٹنگ کے اسرارورموز سے آگاہ کیا تھا۔ نیویارک کے شہد خانے میں ایک ہنرمند کاک ٹیل بنانے کا طریقہ بتارہا تھا۔ مجھے میٹھا پسند ہے لیکن یاد آیا کہ برسلز میں چاکلیٹ نہیں چکھی تھی۔ یہاں بھی شہد چاٹنے سے پرہیز کیا۔ میٹھے چہرے اور میٹھی باتیں ہی کافی ہیں۔
میں ہوٹل سے نکل آیا ہوں۔ دس بج رہے ہیں۔ ٹائمز اسکوائر جانے کا ارادہ ہے۔ تھوڑا فاصلہ ہے لیکن مجھے راستہ نہیں معلوم۔ زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ ایک مسافر راستہ بھٹک جائے گا۔ یہ مسافر بھٹکنے کا شوقین ہے۔ کوئی منزل طے نہ ہو تو پھر بھٹکنے کا کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ آپ کہیں نہ کہیں پہنچ ہی جاتے ہیں۔ مسافر جہاں پہنچ جائے، وہی منزل ہے۔
امریکا اس لیے سوپر پاور نہیں ہے کہ اس کے پاس سب سے زیادہ ہتھیار ہیں۔ وہ اس لیے سوپرپاور ہے کہ سب کے پاس مساوی مواقع ہیں۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے دولت حاصل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکتا ہے۔ کوئی بھی شخص محنت کرکے صدارت حاصل کرسکتا ہے۔ چاہے وہ کسی امیگرنٹ کا بیٹا، ٹوٹے ہوئے خاندان کا ٹکڑا اور سیاہ فام ہی کیوں نہ ہو۔
ایک دن میں امریکا کی تعریف کررہا تھا کہ وہاں ہر شخص کو مساوی مواقع ملتے ہیں۔ میری بیوی نے پوچھا، ’’اگر ہم امریکا منتقل ہوجائیں تو کیا ہمارا بیٹا حسین امریکا کا صدر بن سکتا ہے؟‘‘
میں نے کہا، ’’اتفاق سے اس وقت ایک حسین ہی امریکا کا صدر ہے۔‘‘
فون پر جیونیوز کے اینکر محمد جنید سے بات ہوئی ہے۔ جیونیوز نے امریکا کے انتخابات کی کوریج کے لیے بڑا انتظام کیا ہے۔ محمد جنید نیویارک میں ہیں، آصف علی بھٹی ہیوسٹن میں ہیں، واجد علی سید واشنگٹن میں ہیں، عظیم ایم میاں بھی ہیں، ان کے علاوہ محمود جان بابر ہیں، ذیشان بخش ہیں، ہدیٰ اکرام ہیں۔ نیوز کے علاوہ پروگرامنگ کی پروڈکشن ٹیم ہے، ان کے ساتھ سینئر تجزیہ کار ہیں، دونوں بڑی جماعتوں کے کارکن ہیں، امریکا میں مقیم پاکستانی ہیں۔ یعنی جیو کی الیکشن کوریج مثالی اور دوسروں سے بڑھ کر ہوگی۔
آج کا سب سے بڑا سوال ہے کہ الیکشن کون جیتے گا۔ کچھ لوگوں کو جواب معلوم ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ پوری دنیا میں وہ قوتیں جان پکڑرہی ہیں جو نفرت کا کاروبار کرتی ہیں۔ مشرق ہو یا مغرب، اب آپ نفرت پھیلائے بغیر انتخاب نہیں جیت سکتے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بزنس مین ہے۔ اسے معلوم ہے کہ کس بازار میں کیا بکتا ہے۔ اس نے بھی انتخابی مہم میں نفرت بیچی ہے۔ تو کیا وہ صدر بن جائے گا؟
میں چلتے چلتے پتا نہیں کون سی سڑک پر آن نکلا ہوں۔ سامنے دریا ہے۔ دور ایک مجسمہ نظر آرہا ہے۔ یہ ایک خاتون کا مجسمہ ہے۔ اس کے ایک ہاتھ میں تختی ہے جس پر کچھ تحریر ہے۔ دوسرے ہاتھ میں مشعل ہے۔ پیروں میں ٹوٹی ہوئی زنجیریں پڑی ہیں۔ تحریر کا تعلق حریت سے ہے۔ مشعل کا تعلق روشنی سے ہے۔ ٹوٹی ہوئی زنجیروں کا مطلب آزادی ہے۔ اسے مجسمہ آزادی کہتے ہیں۔
امریکا کو نفرت کی نہیں، آزادی کی علامت بننا چاہیے۔
امریکا میں 2016 کے انتخابات میں 13 کروڑ 80 لاکھ افراد نے ووٹ ڈالا تھا۔ اس بار الیکشن ڈے سے پہلے 10 کروڑ افراد ڈاک کے ذریعے اور ارلی ووٹنگ میں حق رائے دہی استعمال کرچکے ہیں۔
الیکشن کی چاند رات پر میرا اندازہ ہے کہ جو بائیڈن کو 305 اور صدر ٹرمپ کو 233 الیکٹورل ووٹ ملیں گے۔
اس وقت سینیٹ میں ری پبلکنز کی 53 اور ڈیموکریٹس کی 45 نشستیں ہیں۔ ان میں سے 35 نشستوں پر چناؤ ہورہا ہے۔ ری پبلکنز کی 23 اور ڈیموکریٹس کی 12 نشستیں داؤ پر لگی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ڈیموکریٹس کی ایک اور ری پبلکنز کی پانچ نشستیں چھن جائیں گی۔
اگر میرا حساب کتاب درست رہا تو دونوں کی انچاس انچاس نشستیں ہوجائیں گی۔ باقی دو سینیٹر آزاد ہیں لیکن ڈیموکریٹس کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان میں سے ایک کو سب جانتے ہیں جن کا نام برنی سینڈرز ہے۔
ایوان نمائندگان کی 435 نشستوں پر ہر دو سال بعد انتخابات ہوتے ہیں۔ اس وقت ڈیموکریٹس کی 232 اور ری پبلکنز کی 197 نشستیں ہیں۔ ایک رکن لبرٹیرین پارٹی کا ہے جبکہ پانچ نشستیں خالی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ڈیموکریٹس 245 اور ری پبلکنز 190 نشستیں حاصل کریں گے۔
پولنگ کسی ریاست میں چھ، کسی میں ساڑھے چھ اور کسی میں سات بجے شروع ہوگی۔ یہ سلسلہ کہیں شام چھ بجے، کہیں سات، کہیں آٹھ اور ایک دو مقامات پر رات نو بجے بند ہوگا۔ امریکا کی ریاستوں کے اوقات میں بھی کافی فرق ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح نو بجے تک الاسکا اور ہوائی کے سوا تمام مقامات پر ووٹ دینے کا وقت ختم ہوچکا ہوگا۔
عام طور پر امریکا میں نصف شب تک نتائج سامنے آجاتے ہیں لیکن اس بار بڑی تعداد میں ڈاک سے ووٹ ڈالے جانے کی وجہ سے اعلان میں تاخیر کا امکان ہے۔

About The Author