نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بریگیڈیئر اعجاز شاہ اور آسیب کا سایہ۔۔۔۔محمد حنیف

عمران خان کے پاس ٹیلنٹڈ نوجوانوں اور پرانے گرگوں کی کوئی کمی نہیں پھر عمران خان نے ماضی کے اس بھوت کو ہی اپنا وزیرِ داخلہ کیوں بنایا؟

محمد حنیف

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعجاز شاہ
اللہ تعالی نے پاکستان کو بہت نعمتوں سے نوازا ہے جن میں سے بارہ موسموں کا تذکرہ وزیراعظم عمران خان بھی کر چکے ہیں۔

اس کے علاوہ ریٹائرڈ انکل اور اپنی رگوں میں سبز خون بہنے کا دعویٰ کرنے والے بھی ہمیں یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس پہاڑ، دریا، سمندر، صحرا اور بلوچستان کے ویرانوں میں سونا بھی موجود ہے۔

ان نعمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمارے ملک نے انتہائی شاندار کارٹونسٹ پیدا کیے ہیں۔ وائی ایل سے لے کر صابر نزر تک ایک طویل فہرست ہے۔ جو بات ڈیڑھ سو کالم نگار مل کر نہیں سمجھا سکتے، ہمارے یہ فنکار چند لائنوں میں خاکہ کھینچ کر اور ساتھ ایک آدھا جملہ لکھ کر سمجھا دیتے ہیں۔ ان کارٹونسٹوں میں نسبتاً نیا اضافہ ریم خورشید ہیں جنھوں نے بہت کم عرصے میں ڈان اخبار میں کارٹون بنا کر اپنی پہچان بنائی ہے۔

بریگیڈیئر اعجاز شاہ نے جب اپنے پولے سے لہجے میں تازہ غداروں کو طالبان سے ڈرایا اور پختونخوا کے شہدا کی شہادت کی بابت بھی معنی خیز باتیں کیں تو ریم خورشید صاحبہ نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ایک آسیب زدہ گھر کی مانند لگتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت اعلیٰ پائے کے شاعروں سے بھی نوازا ہے۔ ان میں سے میرے پسندیدہ منیر نیازی ہیں جنھیں عام طور پر ایک خوبصورت مگر غیر سیاسی شاعر کہا جاتا ہے۔ ان کی غزل کا قطع آپ نے سنا ہوگا:

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

پنجابی کے سکالر ڈاکٹر منظور اعجاز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ اگرچہ منیر نیازی شہروں میں رہے لیکن ان کی شاعری میں آسیبوں، بلاؤں، اور ناگنوں کا تذکرہ اکثر اس لیے آتا ہے کہ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہم میں سے زیادہ تر کے آباؤ اجداد ساٹھ ستر برس تک یا تو جنگلوں میں یا جنگلوں کے آس پاس رہتے تھے اور اگرچہ خدا کو مانتے تھے لیکن ہمارے دلوں میں جنگلی بلاؤں اور مافوق الفطرت چیزوں کا خوف بھرا ہوا ہے۔ بریگیڈیئر اعجاز شاہ بھی اس دور کی یادگار ہیں جب ہم دہشتگردی کے جنگل میں گم تھے اور ہماری گلیاں اور ہماری عبادت گاہیں، ہمارے ہی خون سے رنگیں تھیں۔

کراچی میں امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا کے بعد جب پورے ملک کی پولیس اور خفیہ ادارے عمر شیخ کو تلاش کر رہے تھے تو اعجاز شاہ نے اسے اپنے ہی گھر سے برآمد کر لیا تھا۔ کسی آسیب زدہ دفتر میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہو پایا کہ کیا عمر شیخ ایک دہشتگرد تھا جس نے ہمیں پوری دنیا میں بدنام کیا یا ہمارا اثاثہ جس کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے۔

اسی طرح بے نظیر بھٹو بھی اپنے قتل سے پہلے یہ تحریر کر گئی تھیں کہ اگر ان کو کچھ ہوا تو بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا نام ملزمان میں شامل کیا جائے۔ کسی آسیب زدہ ادارے کے کسی دفتر میں شاید یہ بحث اب بھی جاری ہو کہ بے نظیر بھٹو غدار تھیں یا محب وطن۔

ہو سکتا ہے کہ بے نظیر کے کسی نے کان بھرے ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ایک معصوم انکل ہوں اور انھوں نے صرف ملک کی خاطر کئی قربانیاں دیں ہوں جن کی بابت وہ ہمیں بتاتے ہوئے شرماتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وزیرِ داخلہ کے طور پر ان کے فرائض میں شامل ہو کہ اپوزیشن رہنماؤں کو اس کے نتائج سے ڈراتے رہیں۔ لیکن بلور خاندان کی قربانیوں کو ان کی حرکتوں کا انجام دے کر انھوں نے ہمارے آسیب زدہ ماضی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اے این پی طالبان کے خلاف سیاسی لڑائی لڑ رہی تھی، فوج بھی طالبان سے برسرپیکار تھی تو ایسے وقت میں بریگیڈیئر اعجاز شاہ کس محاذ پر کس کے ساتھ کھڑا تھا۔

پاکستان میں چونکہ دفاع اور خارجہ امور فوج اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے، وزیر خزانہ ورلڈ بینک کا بندہ ہوتا ہے، تو ایک طاقتور محکمہ وزارتِ داخلہ ہی بنتا ہے جس پر کسی حد تک سویلین کنٹرول ہوتا ہے۔

عمران خان کے پاس ٹیلنٹڈ نوجوانوں اور پرانے گرگوں کی کوئی کمی نہیں پھر عمران خان نے ماضی کے اس بھوت کو ہی اپنا وزیرِ داخلہ کیوں بنایا؟ اس سوال کا جواب ہمیں شاید کبھی نہ مل سکے لیکن دعا یہی ہے کہ عمران خان ان آسیبوں، عفریتوں یا پھر ان بوڑھے فریبیوں سے ہماری جان چھڑوا دیں۔ اور اگر مشورہ نہیں سننا تو منیر نیازی کی باقی ماندہ غزل ہی سن لیں، اس یقین کے ساتھ کے یہ غیر سیاسی ہے۔

اگا سبزہ در و دیوار پر آہستہ آہستہ

ہوا خالی صداؤں سے نگر آہستہ آہستہ

گھرا بادل خموشی سے خزاں آثار باغوں پر

ہلے ٹھنڈی ہواؤں میں شجر آہستہ آہستہ

بہت ہی سست تھا منظر لہو کے رنگ لانے کا

نشاں آخر ہوا یہ سرخ تر آہستہ آہستہ

چمک زر کی اسے آخر مکان خاک میں لائی

بنایا ناگ نے جسموں میں گھر آہستہ آہستہ

مرے باہر فصیلیں تھیں غبار خاک و باراں کی

ملی مجھ کو ترے غم کی خبر آہستہ آہستہ

منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے

کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

About The Author