نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مزید صحافتی حجام۔۔ شکریہ چوہدری صاحب۔۔۔ شہریارخان

اس کے دفتر میں اس کے شر سے کم لوگ ہی محفوظ رہتے ہیں۔ ایک معروف بلڈر نے اخبار شروع کیا تو وہاں اپنے ورکرز کے لیے مفت کھانا رکھا

شہریارخان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

ابھی تو کامران خان کے پروگرام کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ حضرت چوہدری غلام حسین کے مزاح سے بھرپور انٹرویو نے اہل صحافت کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ سب صحافیوں کا سوال اب بھی یہ ہے کہ انٹرویو وزیر اعظم کر رہے تھے یا چوہدری صاحب۔

یقین مانیں آفتاب اقبال تو مفت میں بدنام ہے کہ وہ کامیڈین حضرات کو ساتھ بٹھا کر جگتیں مارتا ہے حالانکہ اس سے زیادہ تو ایسے پروگرام ہٹ ہوتے ہیں جس میں چوہدری غلام حسین جیسے فنکار اپنی فنکاریاںدکھاتے ہیں۔ ایسے جید صحافی جو اپنا نام بھی درست نہیں بتا سکتے۔

چوہدری صاحب کے اپنے تلفظ میں ان کا نام لیا جائے تو چوری صاحب بنتا ہے۔ پنجابی، اردو اور گلابی انگریزی کی تکون بنائیں تو چوری صاحب کا جملہ مکمل ہوتا ہے۔ تعریف و توصیف کرنے کی اعلیٰ صلاحیت ایسی کہ مغلیہ دور کے قصیدہ خوان بھی شرما جائیں۔

بہت سے لوگ ناواقف ہوں گے کہ اپنے چوری صاحب اسی، نوے کی دہائی میں اور اس سے بھی غالباً پہلے ایک ہفت روزہ نکالا کرتے تھے، پنجابی کے اس ہفت روزہ کے لیے موجودہ دور کے ایک انقلابی راہنما مکمل طور پر سہولت کاری کیا کرتے جو آج کل خود چوری صاحب کے نشانہ پر ہیں۔

میری یادداشت اگر درست کام کر رہی ہے تو اس ہفت روزہ کا نام سیاسی لوگ تھا۔ سیاست تو اس میں کم ہوا کرتی تھی بس گالم گلوچ ہی سمجھیں اور اس وقت جس تنقید کا سامنا نواز شریف کو ٹی وی چینل پہ کرنا پڑتا ہے اس سے بھی زیادہ گالم گلوچ اور الزامات کا سامنا اس ہفت روزہ میں محترمہ بے نظیر بھٹو کو کرنا پڑتا تھا۔

ایسے افراد کا علاج اظہر سہیل کے ذمہ تھا۔۔ جی ہاں، وہ اظہر سہیل جنہیں عینک والا جن کا لقب دیا گیا تھا لیکن درحقیقت اس سے زیادہ خطرناک اپنے چوری صاحب واقع ہوئے ہیں جو اپنے کیے پہ کامران خان کی طرح بالکلشرمندہ نہیں ہوتے۔

یقین مانیں کہ کامران خان اور چوہدری غلام حسین کے ان انٹرویوز کو دیکھ کے بالکل سمجھ نہیں آتا کہ انٹرویو دے کون رہا ہے اور لے کون رہا ہے لیکن انٹرٹینمینٹ سے بھرپور انٹرویو سے لطف پوری قوم نے لیا ہو گا لیکن صحافی منہ چھپا رہے تھے کہ ہمارا فیس کون لوگ بن چکے ہیں؟۔

وزیر اعظم اور حکومت کی تعریف ایسی کی کہ خود وزیر اعظم بھی سوچ میں پڑ گئے ہوں گے کہ یہ طنز کر رہا ہے یا واقعی تعریف کر رہا ہے؟۔ بھارت کو منہ توڑ جواب میں نے کب دیا؟، میں نے تو پوچھا تھا کہ کیا انڈیا پہ حملہ کر دوں؟۔ میں نے تو ابھی نندن کو بھی چھوڑ دیا تھا۔ میں نے تو صرف دو جمعہ پندرہ پندرہ منٹ تک احتجاج کیا تھا، کیا اس سے مودی کی چیخیں نکل گئیں؟۔

کیا چین کا لداخ پہ بھارت سے جھگڑا میری تجویز پہ ہوا؟۔ پھر میری تعریف کیوں؟۔ اس کے علاوہ جب چوری صاحب پانچ منٹ کے تعریف و توصیف کی پیکنگ میں لپٹے سوال نما ڈائیلاگ کے ہر بیس سیکنڈ کے بعد اپنے ہی تلفظ میں ہیونگ سیڈ دز (Having Said This) بولتے تو عمران بھی بمشکل اپنی ہنسی روک پاتے۔

یار لوگوں کی فرمائش تھی کہ صحافت کے مقدس پیشے کو بدنام کرنے والے منجن فروش، ہومیوپیتھ ڈاکٹرز، ناکام وکیل، دبڑ دھوس دندان ساز، فیشن ڈیزائنر، فلم پروڈیوسرز اور جعلی دانشوروں کے مختلف واقعات کی مزید قسط شائع کی جائے۔

چوہدری غلام حسین کا انٹرویو دیکھا تو ہانسا ہی نکل گیااور سوچا کہ آغاز ان سے کرتے ہوئے ایسے صحافتی حجام سے ملوائیں جو ایک نہیں کئی روپ دھار سکتا ہے۔ ایک ہی وقت میں وہ مومن دکھائی دیتا ہے جب وہ احادیث سنا رہا ہو لیکن دوسرے ہی لمحے کسی خاتون کو دیکھ کر اس کے منہ سے رال ٹپکنے لگتی ہے۔

وہ ویسے تو ایک ہی رنگ کی شلوار قمیض پہن کر پھرتا ہے تو لگتا ہے بہت درویشانہ شخصیت ہے لیکن جب گفتگو کریں تو وہ اپنی امارت بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ اسلام آباد کلب کی ممبر شپ اس نے بیس لاکھ روپے کے عوض خریدی۔

یہ اپنے ہر ملنے والے کو اپنی مہنگی گاڑی بھی ضروردکھاتا ہے۔ مہنگی گھڑی بھی دکھائے اور پھر اس بات پہ شاکی بھی دکھائی دے کہ مشتاق منہاس نے اسے میڈیا ٹاﺅن میں پلاٹ نہیں لینے دیا، دوسرے ہی لمحے میں یہ بھی بتائے گا کہ اسے ویسے میڈیا ٹاﺅن کے پلاٹ کی ضرورت نہیں وہ چاہتا تو چوہدری پرویز الہٰی سے کہہ کر دو پلاٹ بھی لے سکتا تھا۔

اس کے دفتر میں اس کے شر سے کم لوگ ہی محفوظ رہتے ہیں۔ ایک معروف بلڈر نے اخبار شروع کیا تو وہاں اپنے ورکرز کے لیے مفت کھانا رکھا، موصوف نے زور لگایا کہ مفت کھانا نہ دیا جائے بلکہ اس کے رعایتی نرخ مقرر کیے جائیں، اس بلڈر نے کہا فکر نہ کریں آپ کی تنخواہ کم نہیں کروں گا لیکن کھانا ضرور دوں گا۔

اس بلڈر کی اچھی عادت یہ تھی کہ کوئی ورکر بھی اپنی مجبوری بتا کر رقم مانگ لیتا تھا وہ بغیر کسی حساب کتاب کے دے دیتا، ایک مرتبہ یہ موصوف وہاں تشریف فرما تھے جب اس بلڈر نے کسی ورکر کی ضرورت پوری کی تو انہوں نے باقاعدہ اس پہ احتجاج کرتے ہوئے کہا اس سے ان صحافیوں کی عادات بگڑ جاتی ہیں۔

موصوف حجام ایڈیٹر صاحب، اپنی عمر کے حساب سے قبر کے کتبے دیکھنے کے بجائے جوان لڑکیوں کے ساتھ وقت بتانے کو اہم سمجھتے ہیں۔ ایک دوست نے کل ہی فون کر کے بتایا کہ محترم راولپنڈی میں ان کے ایک دوست کے پاس تشریف لے گئے جو روحانی عملیات کے حوالہ سے شہرہ رکھتے ہیں۔

ان سے جا کر انہوں نے ایک خاتون اینکر کو راغب کرنے کے لیے تعویذ مانگا،ان عامل نے کہا کہ اگر آپ عقد کرنا چاہتے ہیں تو میں کچھ کرتا ہوں تو محترم کہنے لگے شادی کا کیا کرنا ہے بس چند روز کی رفاقت چاہیے۔ انہوں نے لاحول ولا قوة پڑھا تو موصوف غائب ہو گئے۔الحمد للہ جس اخبار میں بھی گئے اسے تالہ لگوا کے باہر آئے یا باہر آ کر تالہ لگانے کی کوشش کی۔

بہرحال کیا کیا بتایا جائے؟۔ آج کل یہاں اکثریت ان ہی حجاموں کی ہے جن کے ہاتھ میں بندر کی طرح استرا آیا ہوا ہے اور یہ سب کی گردن کاٹنے پہ تلے ہیں، اپنے چوری صاحب کو ہی دیکھ لیں۔ کیا کیا جائے کہ دنیا بھی ان ہی کو صحافی سمجھتی ہے کیونکہ یہ ہر جگہ نمایاں ہوتے ہیں اور ان کی زبان کی پالش دکھائی نہیں دیتی۔رب کریم ان کے استرے کی دھار کو کند کر دے ورنہ اب تو یہ ہماری گردنیں ہی اتار لیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قلم درازیاں بشکریہ روزنامہ کسوٹی پشاور

About The Author