عزیز سنگھور
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالخصوص کراچی میں بلوچ علاقے خصوصاً لیاری ایک بار پھر جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا جارہا ہے۔ علاقے میں سیاسی اور سماجی کلچر کو بندوق اور منشیات کے ذریعے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیاری، پراناگولیمار، جہانگیر روڈ، ملیر، گڈاپ، مواچھ، ماری پور سمیت ہاکس بے کے قدیم گوٹھوں میں جرائم پیشہ افراد منشیات فروشی کررہے ہیں۔ ہرمحلہ اور گلی میں منشیات فروشی کی جاری ہے۔ کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے آنکھیں بندکررکھی ہیں۔
سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ جب بھی لیاری میں بلوچستان کے حوالے سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر پہنچتی ہے۔ ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ بلوچستان کے عوام سے وابستگی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ تو جرائم پیشہ افراد کو آکسیجن دی جاتی ہے۔ لیاری کو غنڈوں اور بدمعاشوں کے حوالے کیا جاتا ہے۔ حال میں برمش یکجہتی ریلی سے لیکر لاپتہ افراد کی بازیابی کی آواز اٹھتی رہی ہے۔
اس سازش کو سمجھنے کے لئے ماضی کے محرکات کو سمجھنا ضروری ہے۔ کراچی کی قدیم آبادی لیاری نے جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد میں کبھی بھی مصلحت پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ آمریت کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا۔ لیاری نے بے شمار سیاسی ورکرز پیدا کیے۔ جنہوں نے ریاست کی غیر جمہوری پالیسوں اور ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان ورکروں نے جیل کی سلاخیں اور شہادتیں بھی دیکھیں۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے لیاری کو لٹل ماسکو بھی کہا جاتا ہے۔ جبکہ اسپورٹس خصوصافٹبال کے حوالے سے لٹل برازیل کالقب ملا ہے۔
لیاری کی سیاسی معاشرے کو غیر سیاسی بنانے کے لئے مختلف حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ ان کے نوجوانوں کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ اسحلہ تھمایاگیا۔ انہیں مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑاگیا۔ لوگوں کو یرغمال بنایاگیا۔ ایک سازش کے ذریعے علاقے میں منشیات فروشی کوفروغ دیاگیا۔ منشیات فروشوں کو منظم کیاگیا۔ جرائم کو ایک نیٹ ورک کا شکل دی گئی۔تمام جرائم پشہ افراد کو ایک منظم کمپنی (تنظیم) کی چھتری میں لایاگیا۔ تاکہ معاشرے کو کریمنالائزڈ کیاجائے۔ تاکہ ایک غیر سیاسی سماج کا جنم ہوسکے۔ جب معاشرہ غیرسیاسی ہوجاتا ہے تو حکومت کو مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہے۔ ان کے لیے اپنی حکمرانی کو مزید طول دیناآسان ہوجاتاہے۔
جرائم پیشہ افراد کے سربراہ کو سرداری کا لقب دیا گیا۔ عزیر بلوچ سے سردار عزیرجان بلوچ کا نام دیاگیا۔ بغیر قبیلہ کے سردار بننا ایک حیران کن بات تھی۔ اگراس کا پورا نام سردار عزیر جان ہیروئن زئی لکھتے تو مطلب سمجھ میں آتا۔ کیونکہ وہ ہیروئن فروخت کرنے والے جرائم پیشہ افراد کا سردار تھا۔وہ لیاری کے باشعور عوام کا سردار نہیں تھا۔ اور نہ ہی لیاری کے سیاسی عوام سرداری نظام کو مانتے ہیں۔
ہمارے نام نہاد قومی میڈیا نے جرائم پیشہ افراد کو ہیرو بنانے کے لئے ان کے لائیو انٹرویوز کئےگئے۔ تمام چینلز کے کرنٹ افیئر کے پروگرامز میں انہیں دیکھا گیا۔ یہ سارا معاملہ اسکرپٹیڈ تھا۔ یہ سب کو معلوم تھا کہ یہ اسکرپٹ کہاں سے تیار کیاگیا ہے؟ اور اس کے مقاصدکیا ہیں؟ لیاری کے جرائم کو میڈیا میں کوریج دی گئی۔ تاکہ علاقے کا امیج خراب کیا جائے۔ ایک پرامن علاقے کو پرتشدد علاقے میں تبدیل کیاگیا۔ نوجوانوں کے ہاتھوں میں اسلحہ دیاگیا۔ ان کی پشت پناہی کی گئی۔ تھانوں کے ایس ایچ او ان کی مرضی سے تعنیات ہوتے تھے۔ ایک منظم پالیسی کے تحت جرائم پیشہ افراد کی حکومت بنائی گئی۔
دوگروپ بنائے گئے انہیں لڑایاگیا۔ اس لڑائی میں دونوں طرف ہزاروں نوجوان مارے گئے۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے۔ ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مخالفین ایک دوسرے کے گھر اور املاک جلاتے رہے۔ پولیس تماشائی بنی ہوئی تھی۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ ہر طرف خوف کا سما تھا۔ سڑکوں پر لاشوں کا ملنا معمول کی بات تھی۔
یہ سارے معاملات صرف لیاری سے بدلہ لینا کا تھا۔ کراچی کی بلوچ آبادیوں نے بلوچستان میں جاری ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور آج بھی اٹھارہے ہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک کراچی کے بلوچوں نے بلوچ تحریک میں اپنا مثبت حصہ ڈالا۔ کراچی کے بلوچوں نے بلوچ قوم پرستی کے ارتقا میں پچاس فیصد اپنا حصہ ڈالا ہے۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے قیام بھی لیاری سے ہوا۔ نیشنل عوامی پارٹی(نعپ) کی سرگرمیوں کاگڑھ رہا۔ یہاں سے بلوچ بزرگ رہنما غوث بخش بزنجو رکن اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بے شمار سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت بھی یہیں ہوئی۔ لالہ لال بخش رند، لالہ صدیق بلوچ، لطیف بلوچ، رحیم بخش آزاد سمیت دیگر نعپ کے رہنماؤں نے بلوچ تحریک کی رہنمائی کی۔
بلوچستان اور لیاری کا قومی سیاسی رشتہ آج بھی اسی طرح ہے جس طرح ماضی میں رہا ہے۔
لیاری کی سیاسی تاریخ سے ہر ذی شعور شخص واقف ہے۔ لیاری کے عوام نے غیر جمہوری عناصر کے خلاف بھرپور تحریکیں چلائیں۔ بلوچستان کے مسائل کودنیا بھرمیں اجاگر کرنے کیلئے لیاری نے اہم کردارادا کیا جس کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ نے لیاری میں جرائم پیشہ افراد کو متحرک کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اپنی پوری قوت کے ساتھ ان تحریکوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ لیاری کو جرائم پیشہ افراد کے حوالے کیا۔ بلوچستان میں جب سیاسی تحریک شروع ہوئی تو لیاری میں گینگ گروپ تشکیل دیے گئے۔ اور لیاری کے سماجی ڈھانچے کو مکمل تباہ کردیاگیا جس کے بعد لیاری تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
گینگ وار کے کارندوں نے قوم پرست ترقی پسند سیاست کرنے والوں کو دھمکیاں دیں بعض لوگوں نے عزت نفس مجروع ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کی۔ حالانکہ بلوچ اتحاد تحریک سے سربراہ اور بانی شہید انور بھائی جان کی سربراہی میں لیاری میں امن قائم رکھنے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ یہ کمیٹی مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل تھی۔ جن میں انور بھائی جان، نبیل گبول، سابق وزیراعلیٰ سندھ، سید قائم علی شاہ، موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی سراج درانی، لطیف بلوچ، سعید سربازی، راقم (عزیز سنگھور)، ماما یونس بلوچ اور دیگر شامل تھے۔ کمیٹی کے ارکان نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے مرکزی صدر اختر مینگل سے الگ الگ ملاقاتیں کیں۔ ملاقاتوں میں لیاری میں امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے اور علاقے میں منشیات کے فروخت کے روک تھام پر تبادلہ خیال کیاگیا۔ مگر بدقسمتی سے کمیٹی کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لئے کمیٹی کے سربراہ انور بھائی جان کو شہید کیا گیا۔ جس کی وجہ سے کمیٹی اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ اور نادیدہ قوتیں کامیاب ہوگئیں۔
سیاسی قائدین اور سیاسی ورکرز کی شہادتوں کا سلسلہ یکے بعد دیگرے جاری رہا۔ جن میں سابق رکن قومی اسمبلی واجہ احمد کریم داد، لیاری ٹاؤن کے سابق نائب ناظم ملک محمدخان، اسلم بلوچ، عبدالخالق چاچا، عنایت، واجہ علی حیدر، شکوربلوچ، نذیر کونسلر اور دیگر شامل ہیں۔ انسان کا قتل انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔ جبکہ سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے قتل انسانیت سمیت معاشرے کا قتل ہوتا ہے۔ کیونکہ سیاسی لوگوں کا معاشرے اور سماج کے ساتھ ایک کمیٹمنٹ ہوتا ہے۔ اور وہ معاشرے میں اپنے مثبت کردار ادا کرتے ہیں۔ اس طرح لیاری کو ایک غیرسیاسی قیادت کے حوالے کرنے کی کوشش کی گئی۔
بدقسمتی سے لیاری میں جب گینگ وارگروپس خون کی ہولی کھیل رہے تھے۔ اس وقت بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کے قائدین خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ لیاری کے عوام نے بلوچستان کے عوام کے ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی مگر لیاری کی قربانیوں کے بدلے بلوچستان کے لیڈران نے بیگانگی اختیار کی جو کہ زیادتی تھی۔
آج ایک مرتبہ پھر لیاری میں ایک اور سردار عزیر جان ہیروئن زئی پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گلی محلوں میں جرائم پیشہ افراد سرعام گھوم رہے ہیں۔ منشیات کھلے عام فروخت ہورہی ہیں۔ لیاری کے سیاسی کلچر کو ایک مرتبہ پھر ضرب لگانے کی مکمل کوشش کی جارہی ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ سینیٹ اور تمام اسمبلیوں میں لیاری کی آواز بنیں اور کیونکہ آج لیاری کے عوام کو ان کی ضرورت ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے سول سوسائٹی کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔ تربت، گوادر، کوئٹہ، خضدار، پنجگور سمیت دیگر علاقوں میں لیاری کے عوام سے اظہار یکجہتی کی ضرورت ہے۔ کیونکہ لیاری اور ملیر بلوچستان کی آواز ہے۔ اگر یہ آواز دب گئی تو پورے بلوچستان کی آواز ہمیشہ کے لئے دب جائےگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ روزنامہ آزادی کوئٹہ
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ