ملک جان کے ڈی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وجودیت کی اختتام ہورہا ہو تو وہاں کوئی چیز معانی نہیں رکھتی۔ نہ وہاں احساسات ، اور نہ کہ محبتوں کی دیوی جلتی ہیں ۔ بس ایک چراغ ہے جو اپنی روشنی سے دور کھنڈرات نما
داس ایک عہد کا نام تھا ۔
ملک جان کے ڈی
اگر یہ مردہ پرستی ہے تو میں اس سے اختلاف نہیں رکھتا اور مانتا ہوں کہ میں ایک مردہ پرست ہو۔ لیکن ہم روایت کی ان منزلوں سے گزررہے ہیں ۔ جہاں دوسرے لوگ سر اٹھ کر مر رہے ہیں ، داس صاحب آپ انتی جلدی میں کیوں تھے، اس درتی کو آپ جسے استاد کی شدید ضرورت ہے، آپ کیوں اتنے میں خاموش رہے، یہ زندگی آپ اکیلے نہیں جی رہے تھے آپ کے ساتھ اور لوگ بھی آپ کی وجہ سے اس منزل سے سفر کررہے تھے ، آپ انہوں کو اکیلے چھوڈ کر کہاں گئے ہو۔ کاش کہ اس سفر میں آپ ابدی ہمارے جیسے طالبعلموں کے ساتھ سفر میں ہوتے تو کیا ہوتا۔ لیکن آفسوس۔۔۔۔
داس آپ کو پتہ ہوگا کہ میں آٹھوں جماعت میں پڑھ رہا تھا تو ان دوراں میں اپنا تعلیم کراچی میں جاری رکھنے کی کوشش میں جہد و جد کررہا تھا ،تو آپ کی فون مجھے موصول ہوئی تو آپ کہہ رہے تھے کہ ملک بیٹا آپ کیوں ہم کو چھوڑ رہے ہو۔ ؟ یہاں کیا کمی آپ نے محسوس کی ہے جو آپ یہاں سے دل پروش ہیں۔ جب آپ کی نرم لہجے اور معصومیت سی آواز نے مجھے اپنے چانگل میں دبوج کر رکھ دیا، تو میں مجبور ہو کر واپس پسنی میں آیا تو یہاں، گورنمنٹ مستانی ریک بازار پسنی میں میڑک پاس کرکے گورنمنٹ انٹر کالج میں داخلہ لیا۔
میں داس صاحب کیا بتاؤ جب میری آنکھ کھلی تو موبائل کے اسکرین پر ایک میسج طاری ہورہی تھی ، جب ہاتھ موبائل کی طرف دخیل دیا تو میسج کو کھول کر دیکھا تو ،بریکنگ نیوز تھی ، اس نیوز میں لکھا تھا کہ ” ماسٹر فقیر داس کراچی میں انتقال کرگیا ہے” اس نیوز کو پڑھتے ہی ہاتھ کامپنے لگے ، اور آنکھوں پر بروسہ بھی نہیں ہوئی کہ یاراً اس نیوز میں ایسا لکھا ہے ؟ اس دوراں وٹس آپ میں ایک اور میسج آئی اس میں بھی یہی درج تھے۔ تو بہت آفسوس ہوا ، اور حیرانی بھی کہ داس ہم کو اکیلے چھوڑ کر خود چل بھسے ، دوسری بات اس میسج کی تھی کہ فوتگی کے حال بھی بریکنگ نیوز میں آتے ہیں ۔بلے خیر میں کیا کرسکتا تھا میری وہاں پہنچ نہیں تھی کہ کچھ کرسکو ۔۔ اُسی دوراں داس صاحب کے یادیں میری زندگی کو تنگ کر رہے تھے۔ ایک طرف اس کی یادیں تو دوسری طرف آنسو جو دریا کی شکل میں بہہ رہا تھا۔
آٹھ سے لے کر دسواں تک یہ سفر میں نے بہت ہمدا احساسات سے گزارا ہے۔ کیونکہ جب دل پسند کے استاد مل جاتے ہیں تو زندگی پرسکون گزر جاتی ہے۔ فقیر داس صاحب ، مجھے پتہ نہیں آپ مجھے اب بھول گئے ہو یا نہ لیکن آپ سے جھوڑی ہوئی یادیں ابھی تک میری جبین سے اور دل سے ریشم سے باندی ہوئی ہیں ۔
اگر کسی بھی انسان سے اس کے پہلے آئیڈیل کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ یقیناً اپنے استاد کو ہی اپنا آئیڈیل تصور کرتا ہے۔ کسی بچے سے پوچھیں کہ بیٹا بڑے ہو کے کیا بنو گے؟ زیادہ تر بچوں کا جواب ہوتا ہے کہ ٹیچر بنوں گا۔ جب تک طالبعلمی کا دور چلتا ہے زیادہ تر گفتگو میں استاد محترم کا ذکر ضرور شامل رہتا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو درسگاہ میں اس لئے داخل کراتے ہیں کہ وہ استاد پہ بھروسہ کرتے ہیں کہ ان کے بچے کی بھرپور تربیت کی جائے گی اور اس کو زندگی گزارنے کے بہترین اصول سیکھائے جائیں گے۔ یہ استاد ہی ہوتا ہے جس کے کاندھوں پہ ان سب کی تربیت کی ذمہ داری ہوتی ہے جو اس کو سونپے جاتے ہیں۔ ایک اچھا استاد بے غرض ہو کے اپنے پیشے کے ساتھ وفا داری کرتا ہے اور حق ادا کرتا ہے۔ اس ہی لئے استاد کو روحانی ماں اور باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ تمام پیشوں میں استاد کا رتبہ سب سے معتبر ہے۔ استاد کا ادب کسی جج سے بھی زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔
درحقیقت یہ اساتذہ کی محنت اور ان کے خلوص کا ثمر ہے جو ہم پا رہے ہیں۔یوں تو بہت سی درسگاہیں،کالجز اور اداروں سے تعلیم حاصل کی،اساتذہ بھی بہت سے ملے اور چند اک تو ایسے جن کے نام تک نہیں یاد،چہرے و نقوش تک پردہِ یادداشت سے محو ہو چکے،لیکن استاد فقیر داس صاحب ہمیں یاد رہے اور ان کا پڑھایا سبق اک ”منجوداڈو” ہمیشہ کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں وردِ زباں رہی،یہ سب ان کے جداگانہ طریقہ تدریس کا کمال ہے،یہ سب ان کی ہمارے لئے پُرخلوص و مشفقانہ محنت ہے جو ہمیں آج یہاں تک لے آئی..
داس صاحب ، اللہ میاہ سے بس یہی دعا ہے کہ جنت و فردوس میں اعلیٰ مقام دیں اور پشپداں صبر و جمیل عطا فرمائے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر