نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹیپ ریکارڈر اور کچھ آوازیں ۔۔۔عامر حسینی

آج صبح سو کر اٹھا تو میرے ساتھ وہ نہیں ہوا جو کافکا کے کردار گریگر سامسا کے ساتھ ہوا تھا اگرچہ میں بھی پریشاں خواب ہوکر ہی اٹھا تھا-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج صبح سو کر اٹھا تو میرے ساتھ وہ نہیں ہوا جو کافکا کے کردار گریگر سامسا کے ساتھ ہوا تھا اگرچہ میں بھی پریشاں خواب ہوکر ہی اٹھا تھا-

As Gregor Samsa awoke one morning from uneasy dreams he found himself transformed in his bed into a gigantic insect.
تو سوچا رہا تھا کہ سب سے پہلے اپنے شاہ جی کی مرتضی بھٹو کے قتل پر لکھی کتاب کی اشاعت نو جلدی سے ایک مضمون لکھ دوں لیکن ابھی سوچ عمل کا روپ دھار ہی رہی تھی کہ سائیڈ بار پر ایک پیغام جھلمل کرنے لگا

Happy Birthday, Dear Aamir hussaini
میں نے لیٹ ٹاپ کے ساتھ پڑے موبائل فون کو جھٹ سے کھول کر تاریخ دیکھی تو 24 اکتوبر 2020 میرے سامنے جگ مگ کررہی تھی- اور میں وہاں سے اٹھا اور ایک الماری کی طرف بڑھا، اس کے ایک خانے کے تالے میں چابی گھمائی اور اسےکھولا اور اس خانے میں بہت پیچھے پڑے سونی کمپنی کے چھوٹے سے ٹیپ ریکاڈر کو اٹھایا اور اس کے آن بٹن کو دبایا تو پتا چلا کہ سیل ختم ہیں- اب ادھر ادھر تلاش کیے نہ ملے تو پاؤں میں چپل ڈالے میں سیڑھیاں اترا اور بھاگم بھاگ نزدیک بنے ایک بیکری اسٹور تک پہنچا اور وہاں سے ایک پیکٹ توشیبا سیل کا لیا اور واپس آیا اور اپنے ریڈنگ روم میں آکر ٹیپ ریکاڈر میں سیل ڈالے اور ایک بار پھر آن بٹن کو دبایا تو وہاں سے آوازیں آنے لگیں- یہ آوازیں مجھے ماضی کے ایک دھندلکے میں لپیٹ کر لیجانے لگیں اور میں بے اختیار جانے لگا- ماضی کھلتی فضا کی طرح ہوتا ہے- اور اس کے چاروں ابعاد آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں- طربیہ اور المیہ دونوں کی پکڑ ایک جیسی ہوتی ہے-

یہ ٹیپ ریکاڈر بہت قیمتی ہے اور اس میں جب سے یہ مجھے ملا ایک ہی کیسٹ ہے اور اس کیسٹ میں 20 منٹ کی ریکارڈنگ ہے اور بس چار آوازیں ہیں جو کبھی اکیلے اکیلے سنائی دیتی ہیں تو کبھی سب مل کر سنائی دیتی ہیں- اس دن کی آوازیں، جب میں پریشان خواب تھا اور بظاہر سورہا تھا اور کئی آوازوں نے مجھے اٹھادیا تھا لیکن میری ظاہری جون نہیں بدلی تھی-

پہلی آواز: عامی! جنم دن مبارک ہو

(پس منظر میں دو اور آوازیں مبارکباد دیتی ہوئی سنائی دیتی ہیں اور تھوڑا ہلا گلا ہوتا ہے)

دوسری آواز:کیا ہے، ابھی تک بستر میں گھسے ہوئے ہو؟ اٹھو بھئی، تمہاری آمد کو سیلی بریٹ کرنا ہے

تیسری آواز: یہ دیکھو، کیا لایا ہوں، تمہارے لیے؟ اپنا وعدہ پورا کردیا

چوتھی آواز: واؤ۔۔۔۔۔۔ کمال کردیا یار۔۔۔۔۔۔ یہ تم نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے، یہ پانا میرا خواب تھا۔۔۔۔۔۔

پہلی آواز: عامی! خود غرض مت بنو، میری وش کا جواب تو دو

دوسری آواز: اور ہاں میری وش کا بھی
چوتھی آواز: تمہاری خالی وشز کا میں اچار ڈالوں کیا؟

(دھماچوکڑی کی آوازیں۔۔۔۔۔۔ ٹھہرو تمہاری ایسی کی تیسی ۔۔۔۔(دوسری آواز)۔۔۔۔۔۔ تو کیا وش کرنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔۔۔۔ ساری رات جاگے ہیں اور تاریخ بدلتے ہی تمہارے گھر آن دھمکے ۔۔۔۔۔۔(پہلی آواز) کیا ہوا گھر کی ایکسٹرا چابی تو ہے تمہارے پاس ، جیسے اب آئے، رات زرا جلدی آجاتے- (چوتھی آواز) اورسرپرائز تمہارے باپ کو جاتا کیا؟(تیسری آواز)، کیا یار تم بھی؟(چوتھی آواز) ہاں ہاں کہہ دو “یو بروٹس”(تیسری آواز) ،”چور کی داڑھی میں تنکا”(چوتھی آواز) کون بروٹس ہے؟ کون سیزر؟ اس کا فیصلہ تو تلوار پیٹھ میں گھونپ دیے جانے کے بعد ہوتا ہے اور لہجے میں جو حیرت کی ٹون ہوتی ہے، اسے مصنوعی طور پر پیدا نہیں کیا جاسکتا(پہلی آواز)، اچھا بابا! اب یہیں میرے سر پر فلسفے کی گٹھڑی کھول کر مت بیٹھ جانا(چوتھی آواز)
(قدموں کی آوازیں اور پھر دروازہ کی چوں چراہٹ کے ساتھ کھلنے کی آوازیں اور کچھ آوازیں، سمجھ نہیں آرہی کیا باتیں ہورہی ہیں)، تیز شور

HAPPY Birthday to Aami
Happy Birthday to You
Long Live Comradeeeeeee( Laughter)
Long Live Revolution( again loud laughter)
My Karantikari Yaar Aami( Zoordar Awazien)
” مجھے سچ میں اندازہ نہیں تھا، اتنا سب کچھ تم نے آج کے لیے اکٹھا کررکھا ہوگا۔۔۔۔۔ یہ کیک، غبارے ۔۔۔۔۔۔موم بتیاں”(چوتھی آواز)
“ہمیں پتا تھا کہ موصوف کو اس بار بھی اپنا جنم دن کہاں یاد رہے گا اور جناب نے گھوڑے بیچ کے سوجانا ہے یا رات سگریٹ پھونکتے گزار دینی ہے اور جب کسی کو پتا چلے گا اس وقت تک اگلی تاریخ کلینڈر پر نمودار ہوچکی ہوگی”(پہلی آواز)
“چلو آؤ تھوڑا سا اپنے یار کے گرد جھوم لیتے ہیں”(تیسری آواز)
فرش پر قدم پٹکے جانے کی آوازیں اور ہیپی ہرے کی آوازیں

ٹیپ ریکاڈر میں اور بھی بہت کچھ ہے لیکن میں فارورڈ کا بٹن داب دیتا ہوں اور پھر آن بٹن دباتا ہوں تو ٹیپ ریکاڈر سے آواز ابھرتی ہے۔۔۔۔۔

“میں نے سب کچھ آج کی تاریخ میں اس وقت ریکارڈ کرلیا ہے- یہ نیا ٹیپ ریکاڈر اور اس میں موجود کیسٹ تمہاری سالگرہ کا تحفہ ہے- یہ تمہیں اس دن کی یاد دلاتا رہے گا”{پہلی آواز}،(کلک کی آواز اور خاموشی چھاجاتی ہے اور چلتا ٹیپ ریکاڈر بھی خاموش ہوجاتا ہے)

ٹیپ ریکاڈر میں نے اپنی ریڈنگ ٹیبل کے سامنے رکھ دیا ہے- میں نے اس ٹیپ ریکاڈر سے اس کیسٹ کو کبھی جدا نہیں کیا اور نہ ہی اس ٹیپ ریکاڈر کو کسی شئے ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کیا اور نہ ہی کیسٹ میں کچھ اور بھرا- آج ٹیپ ریکاڈر کا زمانہ نہیں ہے- اور کیسٹ بھی اب آثار قدیمہ میں شمار ہوتی ہے- بلکہ اب تو اپنے پیاروں کی یاد کو سنبھال کر رکھنے کو گمراہ کن محبت میں مبتلا ہونا سمجھا جاتا ہے – تنوع اور تکثریت کا زمانہ ہے تو تعلق میں بھی اس کا مطالبہ کیا جاتا ہے- جب میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں تو میرے گھر کی نزدیکی مسجد میں جشن عید میلاد النبی کا جلسہ ہورہا ہے اور پڑھنے والا،جادو بھری آواز میں پڑھ رہا ہے

اٹھادو پردہ،دکھا دو چہرہ کہ نور باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے

وجد میں بشر بے اختیار ہوتا ہے، جہاں چاہے معانی کے مصداق کو لے جائے، اگرچہ الفاظ کا حقیقی مصداق اپنی جگہ برقرار رہتا ہے- لیکن صوفیا کہتے ہیں کہ رمز کی بات کو کھولا نہیں کرتے وگرنہ گردن کٹ جاتی ہے- تو میں بھی “کف لسان” کرتا ہوں(ویسے کي بورڈ پر انگلیاں روکی جاتی ہیں تو کف انگشت کی ترکیب ٹھیک رہے گی)
مجھے ایک صوفی کی بات یاد آرہی ہے، اس نے کہا تھا کہ

موتوا قبل موتکم
مرنے سے پہلے مرجاؤ
اور میں اس وقت خوشگوار حیرت کا شکار ہوا تھا جب میں نے کافکا کی زبانی یہ سنا

One of the first signs of the beginning of understanding is the wish to die.

فہم(حقیقت) کی پہلی نشانی مرجانے کی آرزو ہوا کرتی ہے

صوفی کے ہاں بھی آزاد ہونے کے لیے گم ہونا شرط ہوتا ہے اور وہ فنا کہتا ہے گم ہونے کو اور ہمارا کافکا بھی ایک جگہ کہتا ہے

You are free, and that is why you are lost.

تم (فرد) حر ہو اور اسی لیے(دریائے حقیقت میں) فنا ہوجاتے ہو

لیکن ہم آج ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، جہاں آزادی کا استعمال جبری گمشدہ ہوجانا ہے – سوچتا ہوں کل کے صوفی اور کافکا جیسے لوگ آج اگر سانس لیتے ہوتے تو نجانے وہ “گم ہونے” “فنا فی بحر الحقیقۃ” ہونے کے کیا معانی ایجاد کرتے- مجھے یاد آرہا ہے ٹیپ ریکاڈر کی پہلی آواز نے مجھ سے کہا تھا کہ

اگر موتوا قبل موتکم کی مصداق اسلامی روایت میں تلاش کرنی ہو تو مجھے بتانا،میں تمہیں فاطمہ بنت محمد(سلام اللہ علیھا) سے ملواؤں گی اور اس راستے سے تمہیں علی ابن ابی طالب سے حسن ابن علی و حسین ابن علی و علی ابن حسین و زینب بنت محمد تک لیکر جاؤں گی اور تم ان کے گریہ و مناجات میں “موتوا قبل موتکم” کی کیفیت پالوگے-

اور میں کہتا ہوں
پہلی آواز آج جہاں ہے وہ مقام اطمینان پر فائز ہے اور اسے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے کوئی سروکار نہیں ہے- لیکن جب میں اس پہلی آواز کی بازگشت کو “موت سے پہلے مرنے سے گریزاں” لوگوں کو سنانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ شناختوں کی تنگنائیوں میں مجھے قید کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی شناختوں کے ٹھپے میرے ماتھے پر لگاتے ہیں اور اسے میرا جوہر بتاتے ہیں جبکہ میں تو ان تنگنائیوں سے کہیں آگے نکل چکا ہوں- ایک بار “پہلی آواز” نے مجھے کہا
“عامی! کیا تمہیں پتا ہے مرنے سے ڈر کن لوگوں کو لگتا ہے؟ کیونکہ وہ ابھی تک جینے کا پھل چکھے ہی نہیں ہیں، وہ تو بس سانس کے آنے جانے کو جینا سمجھتے ہیں اور جنھوں پا زنجیر شام تک کا سفر کیا تھا وہ موت سے ڈرنے والے نہ تھے کیونکہ زندگی کو جی کر انھوں نے ہی دیکھا تھا”
مجھے “پہلی آواز” کی بازگشت بار بار اس وقت سنائی دیتی رہی جب میں عباس زیدی کے ناول”کفار مکّہ” کا ترجمہ کررہا تھا- مجھے افغانستان میں ہزارہ قوم کے گاؤں کے سردار، اس کے بیٹے اور اس کی بیٹی میں مرنے سے پہلے مرجانے کی روح سرایت ہوئی نظر آئی- شہر بانو ، دارا شکوہ، لالین، لیاقت باغ کے باہر فٹ پاتھ پر بیٹھے پامسٹ، حلاجیوں کے استاد پروفیسر عمر، پروفیسر سام سین، علی اکبر، پروفیسر عمر کی بیوی حمیدہ سب کے اندر مجھے شام کے مسافر نظر آئے تھے- اور وہ جو 27 دسمبر کو عین لیاقت باغ کے سامنے اپنی گاڑی کے ٹاپ میں سرنکال کر کھڑی ہوئی اور ایک گولی اور خودکش بم دھماکے کے زریعے اسے مارنے کی کوشش ہوئی وہ تو پہلے ہی مرچکے تھے اور ایسی مرنی مرن والے پھر کبھی نہیں مرتے اور جو ان کی مرنی کا واقعہ سنتا ہے،وہ روتا ہے اور واہ و آہ کی صدائیں بلند کرتا ہے- اور ہاں 12 بج کر ایک منٹ پر جس شخص نے آج مجھے جنم دن کی بدھائی دی وہ کوئی اور نہیں عباس زیدی صاحب تھے اور انھوں نے میرے تخلیقی وفور کے اور شدید ہونے کی دعا دی تو میں نے چاہا کہ ان کو جواب میں لکھوں کہ کیا وہ میرے نصیبے میں اور “ہمزاد کے دکھ” لکھے جانے کی دعا کررہے ہیں، کیونکہ اس کے بغیر تخلیقی وفور تو شدید ہونے کا نہیں ہے- میں نے کل جب انھیں اپنے وی لاگ میں یہ کہتے سناکہ وہ 27 دسمبر کو ہوئے ظلم کو دیکھ کر ٹھٹھکے ضرور تھے اور پھر اس المناک حادثے سے بھی مووآن ہوگئے تھے تو مجھے لگا جیسے انھوں نے اس جھوٹ کو کہنے کے لیے کافی پریکٹس کی ہوگی، پہلے تو کافی دن کی بڑھی ہوئی شیو کی ہوگی اور پھر خود سے اپنی نظروں کو چرانے کی کوشش کی ہوگی کیونکہ وہ تو مجھے 60ھجری سے 61ھ سے مووآن ہونے کو تیار نہیں تو وہ کیسے چار اپریل 1979ء اور 27 دسمبر سے کیسے مووآن کرسکتے ہیں- ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ اپنا درد دوسرا ناول مکمل کرکے منعکس کرسکتے ہیں اور اسے مووآن ہونا کہیں تو ان کی مرضی ہے- ڈاکٹر شہر بانو مرحوم نے مجھے ایک بار کہا تھا کہ “حسین اور ان کے معاصرین میں سے دیگر لوگوں کے درمیان فرق یہ تھا کہ ان کے معاصرین کیا بات قابل قبول ہے سے آغاز کرتے تھے اور حسین “جو ٹھیک ہے” اس سے آغاز کرتے تھے اور “قابل قبول” کسی نہ کسی معنی میں ذلت کی زندگی کے لیے راستا نکال لیتی ہے لیکن جو ٹھیک ہے سے آغاز کرے وہ حریت اور آزادی کی معراج سے کم پہ گزارا نہیں کرتا

میں بھی کہاں سے چلا کہاں پہنچ گیا- آج جن احباب نے جنم دن پہ مجھے وش کیا اور جو کررہے ہیں اورکرینگے ، سب کا بہت بہت شکریہ – آپ سب لوگ میرا سرمایہ حیات ہیں

 

About The Author