اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پشاور دھماکہ: کس سے فریاد کریں؟ ۔۔۔ عمار مسعود

اب دو قوتیں آمنے سامنے آ گئی ہیں۔ اب عمران خان نہ کسی کا ہدف ہیں، نا کوئی ان کو موضوع بنا رہا ہے۔ اس جمہوری سیٹ اپ کی قلعی کھل گئی ہے۔

عمار مسعود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پشاور میں ایک اور دھماکہ ہوا۔ ایک دفعہ پھر پھول جیسے بچے خون میں نہلا دیے گئے۔ ایک دفعہ پھر سارا شہر غم کی دھول میں ڈوب گیا۔ ایک دفعہ پھر سارا شہر آنسوؤں اور سسکیوں میں دھنس گیا۔ خوف اور خون ایک دفعہ پھر شہر کی فضا میں رچ گیا۔ ایک دفعہ پھر مذمت کے پیغامات ٹی وی سکرین پر چلنے لگے۔
خبر رساں ایجنسیاں بتاتی ہیں کہ آٹھ  لوگ ہلاک ہوئے، 132 زخمی ہسپتالوں میں داخل ہوئے۔ زخمیوں میں نوعمر بچے بھی تھے، ایک کی عمر تو تیرہ برس تھی۔ آٹھ ہلاک ہونے والوں کی عمریں بیس سے تیس سال کے درمیان تھیں۔
نیوز ایجنسیاں تو خبر دے کر اگلی خبر کی تلاش میں لگ گئیں لیکن وہ کیا کریں جنہوں نے جوان لاشے ابھی اٹھانے ہیں۔ جنہوں نے قران و حدیث کی تعلیم لیتے بچوں کے کٹے جسم سنبھالنے ہیں۔ 
پشاور کو پھولوں کا شہر کہنے والوں کو اب اس کے نام پر غور کرنا پڑے گا۔ یہاں کتنے ہی پھول خون سے نہلا دیے گئے۔ کتنے ہی جوان موت کی گھاٹ میں اتار دیے گئے۔ کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہو گئیں۔ کتنے معصوم یتیم ہو گئے۔ کتنی بہنوں کے بھائی بچھڑ گئے۔ کتنی خواتین کی مانگ اجڑ گئی۔ کتنی دفعہ یہ شہر خون میں نہلا دیا گیا۔ 
کہا جاتا ہے صبح ساڑھے آٹھ بجے دھماکہ ہوا۔ ظہر کی نماز تک مدرسے میں سارا شہر امڈ آیا۔ مسجد کی صفائی کی گئی۔ خون کے لوتھڑے ہٹائے گئے۔ مردہ جسم ایمبولینسوں میں منتقل کیے گئے۔ زخمیوں کو ہسپتالوں کی طرف روانہ کیا گیا۔
صحن مسجد کو دھویا گیا۔ ظہر کی اذان دی گئی۔ سارے شہر نے باجماعت ظہر کی نماز انہی صفوں پر ادا کی جہاں ابھی معصوم بچوں کے خون کے نشان دھڑکتے تھے۔ جہاں ان کے جسموں کے ٹکڑے بکھرے تھے۔ نماز کے بعد دعا کی گئی۔  
کبھی یہ شہر ایک حسین شہر کہلاتا تھا۔ پھر المیوں نے اس کا گھر دیکھ لیا۔ ایک زمانہ تھا جب آئے روز دھماکے ہوتے تھے۔ روز ٹی وی پر چیختی عورتوں کی فوٹیج چلتی تھی۔ روز ٹی وی ایمبولینسوں کے شور سے بھر جاتا تھا۔ پھر کچھ سکون ہوا۔ دھماکوں میں کمی ہوئی۔ لگتا تھا کہ واقعی  دہشتگردوں کی کمر بالاخر ٹوٹ گئی ہے۔
دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی عمریں 8 سے 30 سال تھیں۔ 
پھر اے پی ایس کا واقعہ ہوا۔ معصوم بچوں کو جیتے جی ذبح کر دیا گیا۔ سارے شہر کی مائیں ماتم کناں تھیں۔ بچوں کے بستے، کھلونے اور یونیفارم دیکھ دیکھ کر بین کرتی تھیں۔ اس دن شہر کے ہر محلے سے جنازہ اٹھا تھا۔ ہر گلی میں ماتم ہو اتھا۔ اس دن بھی ہم نے اپنے بچوں کے تحفظ کے لیے بہت دعائیں کی تھیں کیونکہ ہمارے تحفظ کے لیے صرف دعائیں ہیں۔  
اے پی ایس کے سانحے کو مدت گذر گئی۔ لیکن اس سانحے کو لوگ بھولے نہیں۔ اب دھماکوں میں کچھ کمی ہوئی تو ہم سمجھے کہ دعائیں ثمرمستجاب ہو گئی ہیں۔ قبولیت کی گھڑی آ گئی ہے۔
لیکن اب پھر پشاور میں ایک اور دھماکہ ہو گیا۔ خوفزدہ سے لوگ اور خوف زدہ ہوگئے۔ دلوں میں پھر دہشت قدم رکھنے لگی۔ المیہ یہ نہیں کہ ہم بے خبری میں مارے گئے۔ المیہ تو یہ ہے کہ دھماکے سے پہلے ایک وزیر پورے وثوق سے ہونے والے دھماکوں کے بارے میں ٹی وی پر بتا رہے تھے۔
اب اس وزیر کو کوئی شامل تفتیش نہیں کرے گا؟ اب کوئی یہ سوال نہیں پوچھے گا کہ آپ کو یہ خبر کیسے ملی؟ اب انھیں کوئی سکیورٹی رسک قرار نہیں دے گا؟ اب کوئی ان سے اس اطلاع کا ماخذ نہیں پوچھے گا؟ 
سمجھ نہیں آتا کہ ہم مدد مانگیں تو کس سے مانگیں۔ کس سے استدعا کر یں کس سے رحم کی درخواست کریں۔ کس کو اپنا الم سنائیں کس کے سامنے اپنا رونا روئیں۔دھماکہ کوہاٹ روڈ پر واقع دیر کالونی کے ایک مدرسے میں ہوا۔ فوٹو اے ایف پی
عجب بے بسی کی کیفیت ہے۔ آج تک سینکڑوں دھماکے ہو چکے نہ کوئی مجرم گرفتار ہوا نہ کسی کے خلاف کوئی مقدمہ شروع ہوا۔ نہ کوئی گرفتاری ہوئی نہ کوئی اپنے انجام کو پہنچا۔ بس یہ خبر ہماری منتظر رہتی ہے کہ ملزمان سرحد پار سے آئے تھے اور اس دفعہ دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
کیوں دہشت گرد دندناتے ہمارے ملک میں آ جاتے ہیں؟ کیوں ہم انکے ٹھکانے معلوم نہیں کر سکتے؟ ہر دھماکے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ ہم نے تو پہلے ہی الرٹ رہنے کو حکم دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ شہریوں کو’تھریٹ الرٹ‘ جاری کرنے والے خود کیوں نہیں ’الرٹ‘ رہتے؟ ہم سانحوں کے منتظر کیوں رہتے ہیں؟  
ایسے سانحوں کے موقعوں پر پوری قوم بے بسی کی تصویر بن جاتی ہے۔ کسی کو سمجھ نہیں آتا کیا کریں؟ ایسے موقعوں پر سیاست دانوں کے پاس مذمت کے الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ میڈیا کے چینل دھماکوں کی پوری تندہی سے کوریج کرتے ہیں مگر دھماکے روک نہیں سکتے۔
ایوانوں میں اظہار غم کے طور پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اس لیے کہ ہمارے پاس خاموشی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ لکھنے والے ان واقعات پر خونچکاں لفظ لکھتے ہیں لیکن ان کے پاس اس کے سوا کوئی حل نہیں ہے۔  
پانچ سے چھ کلوگرام دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا تھا۔
سانحے سے بڑا سانحہ یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کو یہ پتہ نہ ہو کہ کس کو مدد کے لیے پکارنا ہے۔ کس سے فریاد کرنی ہے، کس سے درخواست کرنی ہے۔ کس کو اپنے غم کا گواہ بنانا ہے۔
اس سانحے کے بعد ہم انصاف کا در اس لیے نہیں کھٹکھٹا سکتے کہ وہاں تو انصاف دینے والوں پر بے بنیاد مقدمے بن رہے ہیں، ان کی وڈیوز لیک ہو رہی ہیں، ان کو دھونس اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ہم صحافیوں سے آواز اٹھانے کا گلہ اس لیے نہیں کر سکتے کہ ان کے دن دیہاڑے اغوا کے باوجود اغواکندگان پکڑے نہیں جا رہے، نہ مجرموں کے چہرے شناخت ہو رہے ہیں نہ گاڑیوں کے نمبر معلوم ہو رہے ہیں، نہ ان کے حق میں کوئی گواہی دینے کو تیار ہے۔ رہا معاملہ پولیس کا، ان سے کیا گلہ کریں کہ ان کے تو اپنے آئی جی اغوا ہو رہے ہیں۔

%d bloggers like this: