رضاعلی عابدی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیسا وقت آن لگا ہے، ذہنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے لوگوں کو مشورہ دیا جارہا ہے کہ وہ ٹیلی وژن پر خبریں دیکھنا بند کردیں۔ حالت یہ ہے کہ دماغی صحت کے ماہرین یہ مشورہ نہ دیتے تب بھی ہم خود یہ محسوس کرتے ہیں کہ آئے دن انسان پر ٹوٹنے والے مصائب دیکھ کر کڑھنے سے کہیں بہتر ہے کہ صبح شام خبریں دیکھنے کے بجائے کوئی دوسرا کام کریں۔قصہ یوں ہے کہ یہ بد بخت کوروناجس طرح تباہی مچا تے ہوئے آیا تھا اور ہم سمجھ بیٹھے تھے کہ اس کا زور ٹوٹ رہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ وہ اُسی دھوم دھڑلّے سے لوٹ لوٹ کر آرہا ہے۔ پہلی بار آیا تو کہا گیا کہ اچانک آیا، ہم اس کے لئے تیار نہ تھے۔ دوسری بار اس کے آنے کے آثار نظر آئے تو کہا گیا کہ ہم تجربہ کار ہوچکے ہیں، اس مرتبہ آسانی سے نمٹ لیں گے۔ مگر یہ خیال غلط نکلا۔ بس انسان نے اتنا ضرور سیکھ لیا ہے کہ اس کی دوا ، اس کا علاج کہیں نہیں، بس ایک ہی تدبیر ہے، احتیاط کرو، خود کو بچا کر رکھو ورنہ یہ لاشوں کا انبار لگا نے سے باز نہ آنے کا۔
اب یہی ہورہا ہے۔ اس مرتبہ سختی بڑھا دی گئی ہے۔ کہیں کرفیو لگ رہا ہے، کہیں بازار بند کئے جارہے ہیں۔ کہیں حکم ہے کہ لوگ اپنے گھروںمیں رہیں۔ ملنا جلنا، آنا جانا، ملاقاتیں اور ضیافتیں بالکل بند۔وہ سارے ہوٹل اور مے خانے بند کرکے ان پر موٹے موٹے تالے ڈال دئیے گئے ہیں جہاں ایک رونق کا عالم رہا کرتا تھا۔ غرض یہ کہ سب کچھ بند۔ اگر کچھ کھلا ہے تو کہیں تنہائی کا عالم، کہیں بے بسی کی کیفیت، کہیں حبس کا احساس اور کہیں گھٹن ہی گھٹن ۔ اس کا نتیجہ بڑا ہی تکلیف دہ نکلا ہے، لوگوں کو دماغی صحت کے مسائل کا سامنا ہے۔ گھبراہٹ ، بے چینی، الجھن، سراسیمگی اور خفقان جیسے احساسات نے ان لوگوں کی زندگی میں زہر گھول دیا ہے جو جان بچانے کے خیال سے اور سرکار کے حکم کے مطابق اپنے گھروں میں بند ہو کر بیٹھ رہے ہیں۔دماغی صحت کا مسئلہ اتنا سنگین ہوتا جارہا ہے کہ پچھلے دنوں برطانوی ٹیلی وژن پر سارا دن یہی بات زیر بحث رہی۔ ماہرین کی تقریریں سنی گئیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ اپنے لئے کوئی مشغلہ نکالیں، خود کو جیسے بھی بنے مصروف رکھیں۔اگر دوست احباب سے ملاقاتیں نہیں ہو سکتیں تو آج کے جدید ٹیلی فون پر آڈیو کال یا ویڈیو کال کے ذریعے رابطے رکھے جا سکتے ہیں۔ اور اسی گفتگو کے دوران یہ دل چسپ مشورہ دیا گیا کہ خبریں دیکھنا بند کردیں۔
ظاہر ہے میری عمر خبر رسانی میں گزری، اس مشورے نے مجھے چونکا دیا۔ نہیں۔ چونکایا نہیں، نہ حیران کیا بلکہ یوں محسوس ہوا کہ میں اس مشورے سے پوری طر ح متفق ہو رہا ہوں۔ میں ٹیلی وژن پر کورونا کے مریضوں پر طاری نزع کا عالم دیکھ رہا تھا کہ اچانک خبریں آنے لگیں کہ دنیا بھر کے لوگ انسانی اسمگلروں کے جال میں پھنس کر اور بھاری رقموں سے محروم ہوکر، ربڑ کی کشتوں میں بھر بھر کے سمندر کے راستے برطانیہ چلے آرہے ہیں اور یہ ہلکی پھلکی کشتیاں ان کا بوجھ اٹھا نہیں پارہی ہیں اور ڈوب رہی ہیں جن کے ساتھ پورے پورے کنبے، بے بس عورتیں، پھول جیسے بچے بھی غرقاب ہو رہے ہیں۔اسکرین پر یہ منظر جاری ہے اور دل میں ایک پھانس سی چبھے جارہی ہے۔جس کی چبھن دماغ میں کچوکے لگارہی ہے۔یہی ہے دماغی صحت کے لئے شدید خطرے کی گھنٹی۔کل میں اپنے ایک برطانوی دوست سے یہی باتیں کر رہا تھا ۔انگلستان کے ٹیلی وژن کی بات ہوتے ہوتے پاکستان کے خبرناموں کا ذکر آگیا۔ہم دونوں برطانوی اور پاکستانی خبر ناموں کا موازنہ کرنے لگے۔ مجھے پاکستانی ٹیلی وژن کی بات پر فیاض ہاشمی کا شعر یاد آیا:
عبث نادانیوں پر آپ اپنی ناز کرتے ہیں
ابھی دیکھی کہاں ہیں آپ نے نادانیاںمیری
ایک طر ف دیکھا تو صحت کا خیال رکھنے کی نصیحتیں ہور ہی ہیں۔ دوسر ی طرف دیکھا تو جوتم پیزار کا عالم تھا۔ وطن کے اندر ایک آزاد ملک قائم کرنے کی بات کررہے تھے کچھ خر دماغ لوگ۔دو دنیائیں کتنی جدا جدا ، کیسی مختلف، کتنی الگ الگ نظر آنے لگتی ہیں۔ یہاں کا عالم دیکھئے، وہاں کی کیفیت پر نگاہ ڈالئے، یہاں کل پرسوں سنجیدگی سے یہ بحث ہورہی تھی کہ جب اسکولوں میں موسم کی چھٹیاں ہوں گی تو غریب اور نادار گھرانوں کے بچوں کا کیا ہوگا جنہیں اسکول میں نہایت نفیس کھانا دیا جاتا ہے۔اور وہاں؟وہاں کی بات نہ پوچھو۔ وہاں یہ نعرہ لگ رہا تھا کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں دھاندلی کی تیاری ہورہی ہے ، اور اسی طرح کی واہی تباہی۔جو بات دکھ دیتی ہے اور کسی اذیت سے کم نہیں ، وہ ہےاپنی طرف کے ٹیلی وژن کا لب و لہجہ اور طرز عمل۔ یہاں مغرب میں بات کرتے ہیں تو آہستگی سے، دلیل دیتے ہیں تو نپی تلی، مباحثہ ہو تو ایک دوسرے کی بات نہیں کاٹتے۔(امریکی انتخابات کے دو امیدواروں کے درمیان مباحثہ ہو رہا تھا، ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حریف جو بائیڈن کی بات کو بہتّر مرتبہ کاٹا)یہ باتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان اور سچ تو یہ ہے کہ ہندوستان میں بھی وہ ہنگامہ اور وہ دھما چوکڑی ہوتی ہے کہ خدا کی پناہ۔حزب اختلاف کہاں کہاں کے قصے نکال کر لاتی ہے،دیکھنے والا سادہ لوح ہو تو ان کی بات پر یقین کرنے لگے، اسی طرح حکومت کے نمائندے یا ترجمان ایسی تصویر کھینچتے ہیں جیسے بس دو مہینوں کی بات ہے،سارے دکھ دور ہو جائیں گے۔ یہ جو آج کھانے پینے کی ہر شے اور دواؤںکی قیمتوں میں آگ لگی ہے ، بس یہ ٹھنڈی ہونے ہی والی ہے۔ سیدھے سادے سننے والے کچھ عرصے تو یقین کرلیں گے لیکن پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کب تک؟زندگی دشوار تھی، دشوار تر ہوتی جارہی ہے۔ مجھے حال ہی میں رحیم یار خان کے ایک پس ماندہ علاقے میں کچھ نادار خواتین کا علاج کرانے کا اتفاق ہوا۔جب اسپتالوں اور ڈاکٹروں کے بِل بن کر آئے تو احساس ہوا کہ ان کی مدد نہ کی جاتی تو غریب ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتے۔ وہ سارے نام نہاد ہیلتھ کارڈ، وہ احساس پروگرام ،وہ مفت علاج کے دعوے، وہ ٹائیگر فورس، سب فریب نکلے۔ ہر آپریشن کی قیمت لاکھوں میں چکانی پڑی تو سوچا کہ عابدی صاحب،اس سے تو موت سستی۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر