نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ماروی کا عمر کوٹ یا اَمرکوٹ!۔۔۔رانامحبوب اختر

وتایو کا عہد فقیروں اور درویشوں کا عہد تھا۔کئی فقیر اور فقیر منش لوگ ان کے دوست تھے!بگھتوں، صوفیوں اور سنتوں سے وتایو "کچہری" کرتے تھے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری منزل عمر کوٹ ہے۔عمر سومرو یا رانا امر سنگھ کے نام پر یہ شہر رومانس اور تاریخ میں گندھا ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ بستی امیر لوگوں کی تھی اس لئے امیر کوٹ سے امر کوٹ ہو گئی! ماروی عمر سومرو اور مومل میندھرو کی داستانیں شہر کو الف لیلی کی طرح کا اسرار عطا کرتی ہیں۔یہ شہر ایک طرف اکبرِاعظم کی جنم بھومی ہے تو دوسری طرف خلیل کمبھار کی شاعری کے localeکا در کھولتا ہے۔تھر کے سر پر سوڈھا راجپوتوں کی رنگین پگڑی ہے۔کہتے ہیں کہ راجپوت راجہ کرتویہ نے رشی جمداگنی کی "کامدھینو”گائے چرائی اور رشی کو قتل کر دیا۔ جمداگنی کے بڑے بیٹے رشی پرسرام نے راجپوت نسل مٹا دی تو رعیت اور پنڈت لٹنے لگے۔راجپوتوں کے دوسرے جنم کا وقت تھا۔دیوتاؤں نے آبو کے پاس ایک بڑی یگیہ یا قربانی کی اور آگ جلائی۔اندر دیوتا نے خوف کا پتلا جلایا اور دعا کی تو آگ سے ایک طاقتور مرد ” مار مار ” کرتا ہوا نکلا۔تو اسے پرمار کہا گیا۔سنسکرت میں پرمار کا مطلب دشمن کو مارنے والا ہے۔اگنی ونشی پرماروں کی پینتیس شاخیں ہیں۔راجپوتوں کا سگھڑ کرنل جیمز ٹاڈ کہتا ہے کہ مارو تھل میں نو ریاستوں میں پرمار حکمران تھے۔اروڑ میں راجپوتوں نے سکندرِاعظم کا مقابلہ کیا تھا۔ملتان میں ملی یا ملانی راجپوتوں کے تیر سے دنیا کا فاتح گھائل ہوا تھا۔Omursاور Soomrasبھی پرمارراجپوتوں کی "پھلیاں”ہیں اور عمر کوٹ راجپوتوں کا قلعہ ہے۔سارے حوالے مگر شاہ لطیف کی سورمیون کے سامنے ماند ہیں۔محبت کا امرت دھارا عمر کوٹ کا مٹی گارا ہے ۔
وتایو کے مزار سے عمر کوٹ کے راستے میں میر پور خاص پڑتا ہے۔رفعت عباس ملتان شہر سے بھرا آدمی ہے۔ "لُونی” کا کاتھی ہے۔تھر میں "لُونی” عمر کوٹ کے شرق میں بہتا تھا۔رفعت کا "لُونی”ایک شہر ہے۔لونی نام کا ایک دریا عمر کوٹ کے مشرق میں بہتا تھا۔یاتری رفعت سے شہروں کی صدا سنتا ہے۔منظروں کو دل میں اتارتا ہے اور فگار انگلیوں پر قلم کرتا ہے! وتایو کے مزار سے میرپور خاص کوئی تیس کلو میٹر ہے۔شہر میں سڑکوں پر پانی تھا۔موئن جو دڑو کے نکاسء آب کے نظام سے شہر کا رشتہ سامراج نے کاٹ دیا تھا۔ محمدی سویٹس پر جانے کے لئے ایک رکشے والا خضرِراہ تھا۔ادھیڑ عمر کے سانولے بھاٹ کے کھچڑی بال اور چاندی سے دانت تھے۔پورا منہ کھول کر ہنستا تھا۔جبڑے کے دونوں طرف کے اوپری دانش دانتوں پر plaqueکا پیتل باقی دانتوں کی چاندی واضح کرتا تھا۔موٹی آنکھوں میں اداسی تھی ۔چہرے پر جھریاں تھیں۔جھریوں میں تہذیب کے تھپیڑے تھے۔میر پور خاص ہزار سال سے آباد ہے۔کاہو جو دڑو بدھوں کی یاد دلاتا ہے۔آموں کا بڑا مرکز ہے۔ہم جی پی او کے قریب محمدی مٹھائی والے کی دوکان پر پہنچ گئے تھے۔پکوڑے، سموسے، ماوا اور پستے کا حلوہ کھاتے ہوئے میر پور ہمارے تالو سے کلام کرتا تھا۔شہر عورت کی طرح مطبخ سے معدے اور پھر دل میں اترتے ہیں! ٹی ایس ایلیٹ کا خیال ہے کہ کسی شخص کے مہذب ہونے کا اندازہ اس کے کھانے کی میز سے ہوتا ہے۔آفتاب میمن نے ماما ہوٹل اور چاچا عیسی کے ماوا کا قصہ سنایا تھا۔ مٹھائی ، مٹھاس اور آموں کی خوشبو سے یاتری تازہ دم اور تیزگام ہو نکلے تھے!
میر پور خاص سے چون کلو میٹر کے فاصلے پر صوفی فقیر کا مزار ہے۔فقیر کا سجادہ نشیں ایک سعادت مند، سعادت حسن منتظر تھا۔وہ مدثر بھارا کا دوست اور ہمارا محسن ہے۔ وجیہہ نوجوان نے شوخ رنگ کی شلوار قمیص پہنی تھی۔ترشی ہوئی مختصر کالی داڑھی اس کے گورے چہرے پر سجتی تھی۔صوفی فقیر کے وارث ساتھ فقیر کے قدموں میں کھڑے ہم فاتحہ پڑھتے تھے۔دربار کے ساتھ ایک چھتی ہوئی مختصر گیلری دونوں طرف کھلتی ہے۔فاتحہ کے بعد ہم سعادت کے ساتھ بیٹھ گیلری کے فرش پر گرم چائے پیتے اور شاعری پر بات کرتے تھے۔گرمی تھی۔گیلری سے گزرتی ہوا اچھی لگ رہی تھی۔اتنے میں ایک بچہ فقیر کا دیوان لے آیا۔سعادت نے کچھ اشعار دیوان میں سے سنائے اور ان کے مطالب بھی سمجھائے۔ دیوان پھر اس نے دان کیا۔ایک شعر کا ترجمہ دیکھئے:
اللہ کا نام جو جپتے ہیں،ہم ان کو نہیں مانتے
ہم وہ عاشق ہیں جو اپنے محبوب کا نام نہیں لیتے!
ملیر کی ماروی، ملیر کا نام لیتی تھی۔کھیت کو پکارتی تھی۔قبیلہ کسان تھا۔شاہ بھٹائی کے سر ماروی میں ایک بیت کا ترجمہ شیخ ایاز نے کیا ہے:
تن پہ کپڑا نہیں تو کیا غم ہے
مقصدِجسم و جاں سمجھتے ہیں
ہم بیاباں نورد ڈھٹ والے
تھر کو جنت نشاں سمجھتے ہیں
ماروی کا قبیلہ قائد ِاعظم اور مہاتما گاندھی کے جنم گھر گجرات سے ہجرت کر کے آیا تھا۔ماروی "پالنے”نام کے باپ اور "ماڈوئی”نام کی ماں کے گھر طلوع ہوئی تھی۔یہ لگ بھگ چھ سو سال پہلے کا قصہ ہے۔نصف النہار پر پہنچنے سے پہلے ہی اس کے حسن کا چرچا تھا۔مارو قبیلے والے جنگلی پھل پھول کھاتے تھے۔پھولوں کی خوشبو ان کے جسموں میں رچی تھی۔ ماروی کی منگنی کھیت سین سے ہوئی تھی۔ پھوگ، ماروی کے باپ کے ساتھ کھیتی باڑی کرتا تھا۔ ماروی پر مرتا تھا۔ اس نے ماروی کا رشتہ مانگا لیکن ماروی کھیت کی محبت میں کھیت تھی ۔ پھوگ ، ہیر کے کیدو سے پہلے کیدو ہوا!وہ عمر کوٹ گیا اور عمر سومرو کے سامنے ماروی کے حسن کا قصیدہ کیا۔عمر سومرو 1355 سے 1390 عیسوی تک علاقے کا حکمران تھا۔عمر ماروی کو دیکھنے ملیر آیا اور پانی بھرتی ماروی کو اٹھا کر عمر کوٹ لے گیا۔ماروی نے عمر سے شادی کرنے سے انکار کر دیا کہ اسے وطن، قبیلے اور کھیت سے محبت تھی۔محبت کی ملکہ کو بادشاہی ہیچ تھی۔ انکار پر عمر نے قید کر دیا اور وہ ایک سال عمر کوٹ کے قلعے میں قید رہی، دل نہیں دیا۔وہ ملیر کو یاد کر روتی تھی۔صدیوں بعد سندھ وادی کی بے نظیر جلا وطن ہوئی۔ وہ بھی ملک ملیر کو یاد کر روتی تھی۔21جون 2003 کو اس نے ” Benazir’ s Story”کے نام سے ایک نظم لکھی:
ابتداء سے بھی پہلے جب آدم بھی نہیں تھے
میں نے ایک الہامی آواز سنی
ایک صاف اور مدھر آواز
پھر میں نے دل سے ہاں کی
اور اپنی زمین سے رشتہ جوڑا
جب ہم سب ایک تھے میں تب سے تمھاری ہوں
وطن سے رشتہ آدمی کو اس سچ سے جوڑتا ہے جس کا نام محبت ہے۔اسی نظم میں بے نظیر کہتی ہیں :
ملتان اور ملیر سے دور
مکران اور مردان سے دور
کتنے ناشاد ہیں یہ دن
میرے ہم وطن مجھ سے دور ہیں
مگر کوئی ان پر طنز زن نہ ہو
کہ وہ پختہ عزم ہیں
ماروی بچ گئی تھی ۔بے نظیر ماری گئیں کہ اس کا زمانہ عمر سومرو کا زمانہ نہ تھا!عمر ،ماروی کے رویے اور مارو قبیلے کے لوگوں کی سفارت کے بعد ماروی کو واپس ملیر بھیجنے پر راضی ہو گیا۔ ہوس ، حسن سے ہار گئی تھی۔ بادشاہ نے ماروی کو ملیر واپس بھیج دیا۔ملیر میں ماروی کی آمد کے بعد سیتا اور رام کی کہانی دہرانے کا وقت تھا۔کھیت کو وفا کی سند درکار تھی اور ماروی کو آگ سے گزرنا تھا۔ماروی نے محبت کی انگلی پکڑ کر یہ پل صراط پار کی اور سندھی آدمی کی اپنی زمین اور لوگوں سے محبت کا استعارہ بن کر امر ہو گئی!
ہم عمر کوٹ آ گئے تھے اور قلعے کی دیوار کے ساتھ چلتے خلیل کمبھار کے گھر کو جاتے تھے۔یہ وہ قلعہ ہے جہاں ماروی، عمر سومرو کی قید میں اپنے محبوب کھیت اور پیارے وطن ملیر کو یاد کرروتی تھی۔27دسمبر،2007کی ایک اداس شام راولپنڈی کی ایک سڑک پر ملیر کی دوسری ملکہ زندگی کی قید سے رہا ہوئی تھی۔سندھ وادی کی عورت نے وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے۔ قلعے کی دیوار کے پیچھے ماروی کا قید خانہ تھا اور ہم ایک خستہ حال راستے پر ماروں ، پرماروں اور مارویوں کی محبت کے طلسم میں بندھے جاتے تھے :
ہوتی ہے شام آنکھ سے آنسو رواں ہوئے
یہ وقت قیدیوں کی رہائی کا وقت ہے
مارو تھل، اراولی سے عمر کوٹ تک پھیلا ہوا دنیا کا سترھواں بڑا صحرا ہے۔عمر کوٹ اس صحرا کا دہانہ ہے۔ماروی، مومل اور میرا بائی جہاں موت کا منہ چڑاتی ہیں۔پدر سری سماج کی یہ عورتیں شاہ لطیف کی سورمائیں ہیں۔شاعری کے امر کوٹ "شاہ جو رسالو” میں ماروی ، سسی ، سورٹھ ، سوہنی ، مومل ، لیلا اور نوری کی وفا اور محبت سے ایک بے مثال سلطنت آباد ہے۔عمر کوٹ محبت کی اس سلطنت کا دارالخلافہ ہے!

About The Author