اپریل 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

یاد رکھنے والی بات نہ بھولئے صاحبان ۔۔۔ حیدر جاوید سید

کہا گیا پیپلز پارٹی نے خطاب کروانے سے انکار کر دیا۔ سازشی تھیوریاں دہی بھلوں سے زیادہ چسکے دار ہوتی ہیں ،

حیدر جاوید سید

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گیارہ جماعتی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کے جلسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اتوار کو پی ڈی ایم کا جلسہ کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم میں منعقد ہوا، سارا دن ٹی وی چینلوں پر وزراء ، مشیر اور ترجمانوں کے لشکر ڈٹے رہے۔ سبھی ایک ہی بات کہہ رہے تھے ۔

پی ڈی ایم ریاستی اداروں پر حملہ آور ہے ۔

جناب شبلی فراز نے کہا

”پی ڈی ایم ، بھارت اور اسرائیل ایک ہیں ۔”

اور بھی بہت کچھ کہا گیا جواب آں غزل (پی ڈی ایم کے رہنمائوں کی تقاریر) بھی سب نے سُنی۔

اسی دوران سوشل میڈیا پر دو قسم کی باتوں کا سیلاب

آ گیا ۔

ایک یہ کہ بلاول کی کوئٹہ جلسہ میں عدم شرکت (بلاول نے ویڈیو لنک کے ذریعے تقریر کی ) سودے بازی کا حصہ ہے ، اس الزام کو آگے بڑھانے میں پیپلز پارٹی کے چند اپنے بھی شامل باجہ ہوئے ، دوسری بات وہی جو اول دن سے ہو رہی ہے۔

”نواز شریف سودے بازی کے لیے سب کچھ کر رہے ہیں”

پھر چند یار لوگ مولانا فضل الرحمان کی اس بات کو لے اُڑے

”اسٹیبلشمنٹ حکومت کا ساتھ چھوڑ دے پلکوں پر بٹھائیں گے۔”

دوباتیں اہم ہیں

اولاً یہ کہ اگر پی ڈی ایم کے جلسے ناکام ہیں تو فیاض الحسن چوہان اسے لکی ایرانی سرکس کیوں کہہ رہے ہیں، ثانیاً یہ کہ وہ بھارت زدگی کا پرانا منجن فروخت کرنے کی ضرورت کیوں آن پڑی؟

کیا کسی چیز کی پردہ پوشی مقصد ہے؟

پی ڈی ایم والے کہتے ہیں پیچھے نہیں ہٹیں گے ، حکومت کہتی ہے یہ این آر او مانگ رہے ہیں ۔

نواز شریف نے کراچی کے جلسہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب نہیں کیا تھا۔

کہا گیا پیپلز پارٹی نے خطاب کروانے سے انکار کر دیا۔ سازشی تھیوریاں دہی بھلوں سے زیادہ چسکے دار ہوتی ہیں ،

بدقسمتی سے یہ سازشی تھیوریاں اجتماعی رزق ہیں بلکہ من پسند کھابھا بھی ۔

پی ڈی ایم کا فعال ہونا درست ہے یا غلط اس پر مکالمہ ہو سکتا ہے

البتہ ایک بات ہے کہ بنیادی جواز وہی ہے جو تحریک انصاف کے دھرنے کی وجہ تھا۔

تحریک انصاف کہتی تھی 4حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے اور وہ حکومت گرانے پر تل گئی تھی۔

اپوزیشن کہتی ہے 2018ء میں پورا انتخابی نظام چوری ہوا اور اب وہ احتجاج کے راستے پر ہے۔

کچھ شکوے بالادست اشرافیہ سے ہیں کچھ ایک دو محکموں سے۔

بہت ادب کے ساتھ یہ عرض کیا جا سکتا ہے کہ نواز شریف ان کی جماعت، بلاول اور پیپلزپارٹی یا پھر پی ڈی ایم کی قیادت اجتماعی طور پر کسی مرحلہ میں ”کسی” سے معاملات طے بھی کر لیتے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔

پچھلی کم از کم نصف صدی سے جو باتیں، شکایات اور تلخ نوائی کچھ زمین زادے کرتے لکھتے تھے اب وہی باتیں بالغ سیاسی قیادت بول رہی ہے ۔

زمین زادوں کا سچ عیاں ہو رہا ہے ‘ محکوموں کی ترجمانی ہو رہی ہے ، گُنگ دامی (خاموشی) ٹوٹ رہی ہے ۔

سوال اٹھائے جا رہے ہیں ، دستور میں طے شدہ حدود اور اختیارات کی باتیں کی جا رہی ہیں۔

ساعت بھر کے لیے رُکیئے ۔

میں عرض کر دوں پی ڈی ایم اگر کامیاب بھی ہوتا ہے تو کسی عوامی ،جمہوریت ، سیکولر نظام اور مساوات کا دروازہ نہیں کھلنے والا۔

ہاں ٹوٹی ہوئی خاموشی میں مزید آوازیں شامل ہوں گی ، قبرستان جیسی خاموشی کی بجائے زندہ معاشرے کے اطوار سامنے آئیں گے ۔

کوئی فرد یا جماعت یا پوری حزب اختلاف کہیں کسی موڑ پر سیاسی مفاہمت یا سودے بازی کی راہ اپناتی بھی ہے تو اس سے زبانیں تالو سے نہیں جا لگیں گی۔

چند درجن یا سینکڑوں زمین زادے نصف صدی سے درپیش مسائل ، غیر مساویانہ نظام ، طبقاتی استحصال اور دستور سے انحراف کے جن معاملات کی نشاندہی کرتے عذاب بھگتے اور فتوئوں کے نیزوں سے زخمی ہوتے آ رہے تھے اب وہ باتیں سب کہہ بول رہے ہیں۔

گُنگ دامی (خاموشی) کے خاتمے سے بنا ماحول زمین زادوں کو حوصلہ دے گا ۔

اُن زمین زادوں کو جو کہتے ہیں کہ پاکستانی فیڈریشن کثیر القومی فیڈریشن ہے دستور کے اندر رہتے ہوئے فیڈریشن اور اقوام کے درمیان نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے۔

قومیتوں کو ان کی قدیم تہذیب ، تاریخ اور جغرافیائی شناخت کا حق فیڈریشن کے اندر ملنا بلکہ دیا جانا بہت ضروری ہے تاکہ فیڈریشن اور اکائیوں (قوموں) کے درمیان اعتماد سازی کی فضا قائم ہو

جو بعض وجوہات اور اقدامات کی وجہ سے کم ہوئی ہے۔

یہ پاکستان ہم سب کا ملک ہے برصغیر کی تقسیم سے معرض وجود میں آئی مملکت ہی ہمارا عالمی تعارف ہے البتہ ہماری قدیم تاریخ قومی شناختیں تہذیب و تمدن اور روایات ہمارا ورثہ ہیں فیڈریشن کا فرض ہے ان سب کے ساتھ آگے بڑھے ۔

حکومت کا کھلا ناقد ہونے کے باوجود کم از کم میں اسے اسلام اور پاکستان کا دشمن نہیں سمجھتا ۔

اسی طرح پی ڈی ایم پر اسرائیلی و بھارتی حواری ہونے کی پھبتی کسنے والوں کی تائید بھی ممکن نہیں۔

یہ سیاسی عدم بلوغت کے سودے ہیں ، پچھلی نصف صدی میں یہ سودے بہت فروخت ہوئے۔ ہم ان کے تلخ نتائج بھگت کر یہاں تک آن پہنچے ہیں۔

سیاسی عمل میں دروازے بند کر کے بیٹھ جانا یا عامیانہ زبان میں بے سروپا الزامات لگانا کبھی کسی نے درست سمجھا نہ کہا۔

قومیتوں کو فیڈریشن اور پی ڈیم ایم کو نظام سے شکایات ہیں۔

نظام اگر حکومت چلا رہی ہے تو اسے بہتری کے لیے حوصلہ کر کے دو قدم آگے بڑھنا ہو گا ۔

نظام کی ڈور یں اگر کہیں اور سے ہلائی جا رہی ہیں تو ڈوروں کے سرے جن کے ہاتھوں میں ہیں انہیں سوچنا ہو گا کہ پاکستان کے مستقبل کے لیے کیا اہم اور ضروری ہے۔

فیڈریشن کو قومیتوں کی شکایات اور عدم توازن کے خاتمے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔

مکرر عرض کردوں ہمارے نزدیک عمران خان ، بلاول ، نواز شریف ، مولانا فضل الرحمان ، اسفند یار ولی ، اختر مینگل ، محمود اچکزئی ، محسن داوڑ سبھی اپنی اپنی قومی شناختوں کے ساتھ محب وطن پاکستانی ہیں ،ان کی حب الوطنی پر انگلی اٹھانے والوں کو اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ جب بھی کافر اور غدار کا کھیل کھیلا گیا سیاسی مخالفین کے ہاتھوں کچھ نہیں آیا۔ یوں اگر حکومت اور حزب اختلاف یہ ایک بات یاد رکھیں تو درمیانی راستہ نکل آئے گا۔

%d bloggers like this: