حیدر جاوید سید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جس شخص کی درخواست پر لاہور پولیس نے دوسابق وزرائے اعظم،آزاد کشمیر کے وزیراعظم اور قومی اسمبیلی کے سابق سپیکر سمیت49مسلم لیگی رہنمائوں کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا تھا اس کے خلاف لاہور کے مختلف تھانوں میں لگ بھگ سات مقدمات درج تھے۔
اس پر الزام تھا کارسرکار میں مداخلت منشیات فروشوں کی پشت پناہی لڑائی جھگڑے اور جائیدادوں پر قبضے
اب کراچی میں مزار قائد اعظم پر نعرہ بازی کو توہین مزار قرار دے کر کراچی پولیس نے جس شخص وقاص احمد کی درخواست پر مریم نواز ان کے شوہر اور مریم اورنگزیب سمیت200افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا وہ انسداد دہشت گردی کی عدالت سے مفرور ہے۔
کارسرکار میں مداخلت،قبضہ گیری اور دوسرے جرائم کا مقدمہ سپریم کورٹ کے اس حکم پر درج ہوا تھا جس میں سرکاری ونجی زمینوں پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی گئی تھی۔
یہ مقدمہ پچھلے سال تھانہ سپر ہائی وے میں درج ہوا تھا
وقاص احمد عدالتی مفرور ہے۔
کراچی پولیس نے باضابطہ اس کی تصدیق بھی کردی ہے۔
دلچسپ اتفاق یہ ہے کہ لاہور اور کراچی میں درج ہونے والے مقدمات کے دونوں مدعی صاحبان تحریک انصاف کی مقامی قیادت میں شامل ہیں۔
لاہور والے مقدمہ میں اب صرف میاں نوازشریف نامزد ملزم رہ گئے ہیں باقی خواتیں وحضرات کو ابتدائی تفتیش کے بعد مقدمہ سے نکال دیا گیا ہے۔
ان تمہیدی سطور کامقصد یہ عرض کرنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو دو کام بہر طور کرنے چاہیں
(اگر وہ سیاسی جماعتیں ہیں)
اولاً یہ کہ عام شہری سے بڑی شخصیت تک کسی کو بھی اپنی جماعت میں شامل کرتے وقت اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنی چاہیئے کون ہے کیا کرتا ہے، ماضی کیا ہے۔
ثانیاً یہ کہ اپنے کارکنوں کو مخالف جماعتوں کے خلاف مدعی مقدمہ اور گواہ بنانے یا بننے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیئے۔
ہم جس بد قسمت سماج میں جینے پر مجبور ہیں اس میں سیاسی کارکنوں کا مخالفین کے خلاف مدعی مقدمہ اور گواہ بنانے اور بننے کی بدعت کا آغاز جنرل ضیا ء الحق کے دور میں ہوا تھا۔
خود اس تحریر نویس کے خلاف ملتان کے تھانہ حرم گیٹ میں درج ہونے والے مارشل لاء کے ضابطوں کے تحت ایک مقدمہ کے مدعی کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے تھا اور دو گواہ ایک معروف اسلامی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے تھے ۔
تینوں نے خصوصی فوجی عدالت میں میرے خلاف گواہی دی جس پر خصوصی فوجی عدالت نے مجھے تین سال قید با مشقت کی سزا سنائی تھی۔
معذرت خواہ ہوں کہ ملکی تاریخ کے حوالہ جات عرض کرتے وقت خود پر بیتی لکھ دیتا ہوں لیکن یہ بھی تاریخ کا حصہ ہی ہے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں معروف اسلامی سیاسی جماعت ،جماعت اسلامی حکومت مخالف قوتوں کے خلاف فوجی حکومت کی بی ٹیم بنی نفع نقصان سب کے سامنے ہے۔
تحریک انصاف مختلف الخیال لوگوں کی پارٹی ہے کچھ جماعت اسلامی کے سابقین ہیں کچھ پرانے عاق شدہ یا چھوڑ گئے جیالے اور نون لیگی چند دانے ق لیگ کے بھی ہیں۔
اورجناب پرویزمشرف کی نرسری میں اُگنے والے بھی۔
ظاہر ہے یہ مختلف الخیال لوگ اپنی اپنی ضرورتوں کے ہاتھوں مجبورہو کر تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں۔
آپ وفاقی کابینہ کو دیکھ لیجئے بنیادی نظریاتی کارکنوں اور سیاسی مہاجرین کا تناسب کیا ہے؟۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ2018ء کے قومی انتخابات سے تین ماہ قبل تحریک انصاف میں آئے۔
قبل ازیں وہ نون لیگ میں تھے۔
تحریک انصاف کی قیادت اور سرگرم کارکنوں کے اولین چہرے آج کہاں ہیں؟
اس سوال پر ذہن کھپانے کی ضرورت نہیں۔
سنجیدہ سیاسی عمل اور جدوجہد سے تعمیر ہوئی سیاسی جماعت اور نظریات و مفادات پر متحد ہوئے طبقات سے بنی جماعت کے رویوں میں فرق ہوتا ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ میں جس طرح دو اہم مقدمات کے مدعیان کا تعلق تحریک انصاف سے نکلا یہ کوئی خوش ہونے والی بات ہے نا اعزاز ہے۔
تحریک انصاف کو سوچنا ہوگا کہ یہ سب کیوں ہورہا ہے۔
ہم آگے بڑھتے ہیں کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسہ پر تحریک انصاف اور اس کے اتحادی برہم ہیں۔
کیا سیاسی عمل پر پابندی ہے؟
ایسا ہے تو ایک صدارتی حکم نامہ جاری کروالیجئے۔
”تاحکم ثانی جلسہ جلوس بند انعقاد کرنے والوں کے خلاف ڈیفنس آف پاکستان رولز کی دفعہ49کے تحت کارروائی ہوگی”
یا پھر ٹھنڈے دل سے حزب مخالف کی سرگرمیاں برداشت کیجئے
اس جلسہ کے حوالے سے ایم کیو ایم”محب وطن گروپ”(ایم کیو ایم اب لندن اور محب وطن گروپ میں تقسیم ہے)کے رہنما خواجہ اظہارالحسن کا کہنا ہے کہ پی ڈی ایم کے جلسہ کے میزبان اور مہمان دونوں کراچی والے نہیں تھے۔حضرت خواجہ کی سیاست کا خمیر جس تعصب اور نفرت سے عبارت ہے انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے۔
مسلم تاریخ کے مہاجرین کا رویہ کبھی بھی مقامی آبادیوں کے ساتھ مناسب نہیں رہا ۔
زندہ ثبوت ایم کیو ایم ہے جس کے عام کارکن سے لیڈر تک سبھی خبط عظمت کا شکار ہیں ۔
خواجہ اظہار الحسن کے خیال میں صرف اردو بولنے والے مہاجرین کراچی والے ہیں(یہ خیال ہی نہیں بنیادی نظریہ بھی ہے ایم کیو ایم کا)
یہ باہر سے آنے اور غیر کراچی کا طعنہ بہت عجیب ہے۔
اس تحریر نویس سمیت ملک کی کل آبادی کے بڑے حصے کے بزرگ تاریخ کے مختلف ادوار میں انڈس ویلی میں آکر آباد ہوئے۔
انتقال آبادی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔
یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ جہاں اکثریت عصری مسائل مجبوریوں۔روزگار یا حکومت مخالف پالیسیوں سے محفوظ رہنے کے لئے ہجرت کرتی ہے وہیں ایک اقلیت(محدود طبقہ)مفادات کا اسیر ہو کر ہجرت کرتا ہے بدقسمتی سے اس محدود طبقے کا مقامی آبادیوں سے غیر مساویانہ برتاو اور حقارت بھر جملے مسائل پیدا کرتے ہیں۔
ایم کیو ایم محب وطن گروپ کو اس نفرت بھری فہم پر نظر ثانی کرنی چاہیئے اور اس امر کو بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اپنے علاوہ دیگر سب کو حقیر سمجھنے کی سوچ مزید تنہا کر دے گی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ