نومبر 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز

بے روزگار نوجوانوں کی اُمیدیں دَم توڑرہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کے رہنمائوں کو کیا خبر کہ آٹا مہنگا ہوتو غریب دیہاڑی دار کتنا پریشان ہوتا ہے؟
احمد اعجاز 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس وقت گیارہ سیاسی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم ، حکومت کو ایک امتحان میں ڈال چکا ہے۔پی ڈی ایم کا احتجاج اور جلسے جلوس ،ماضی کے سیاسی اتحادوں کے احتجاج اور جلسے جلوسوں سے مختلف ہیں،جبکہ حکومت اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات ختم کرنے اور بات چیت کرنے کے بجائے ،اُن کو اپنا اور قوم کا دُشمن تصور کرچکی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ حکومت ایسا کیوں کررہی ہے؟ اس ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کا مزاج ہی ایسا ہے،وہ لڑنا جانتے ہیں،’’مذاکرات کی میز‘‘ اُن کے لیے نہیں ہے،علاوہ ازیںوزیرِ اعظم عمران خان کے پاس اس وقت جہانگیرترین نہیں ہیں۔ ذراتوقف کریں،ہمیں جنوری دوہزار تیرہ کی طرف سفر کرنا ہوگا۔چودہ جنوری کا دِن تھا،سخت پالے پڑرہے تھے،ڈاکٹر طاہرالقادری لاہور سے اسلام آباد کے ڈی چوک پر آبراجمان ہوتے ہیں،خواتین ،بچوں ،نوجوانوں اور بزرگوں کی بڑی تعداد اُن کے ہمراہ ہے۔لاہور سے چلتے وقت اُنہوں نے جوشیلی تقریر کی اور اسلام آباد کو یزیدی تخت قرار دیتے ہوئے کہا تھا’’یزیدی تخت اُلٹ کر دَم لیں گے‘‘اُس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔یہ دھرنا چارروز جاری رہا،اُس وقت کی حکومت نے انتہائی حوصلے کا مظاہرہ کیا اور ایک ایسے شخص کے احتجاج کو نہ روکا،جو انتخابی عمل کا حصہ نہیں تھا اور اپنا حلقہ نہیں رکھتاتھا۔ مزیدبراں ،علامہ طاہرالقادری سے مذاکرات کرنے اور اُن کے تحفظات ختم کرنے کے لیے حکومتی کمیٹی قائم کی ،جو چودھری شجاعت حسین کی سربراہی میں تھی اورمجموعی طورپر دس ارکان پر مشتمل تھی ،جس میں مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندے شامل تھے۔آخرِ کار چار دِن بعد حکومتی کمیٹی نے علامہ طاہرالقادری کو راضی کرلیااور اُنہوں نے دھرنا ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ مئی دوہزار تیرہ میں انتخابات ہوتے ہیں اور پی ایم ایل این برسرِ اقتدار آتی ہے اور دوہزار چودہ میں پاکستان تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک لاہور سے اسلام آباد کی طرف مارچ کرتی ہے ،جس کو آزادی مارچ کہا جاتا ہے۔دونوں جماعتیں طویل دھرنا دیتی ہیں،کشمیر ہائی وے (موجودہ سری نگر ہائی وے)پر پڑائو ڈالا جاتا ہے ،بعدازاں ڈی چوک پر قبضہ کر لیاجاتا ہے۔سارے راستے بندہوجاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے معززجج صاحبان کو بھی اعلیٰ عدلیہ تک پہنچنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے ،قبریں کُھد جاتی ہیں ،کفن باندھ لیے جاتے ہیں ،اس سب کے باوجود اُس وقت کی پی ایم ایل این حکومت عمران خان اور طاہرالقادری سے بات چیت کو ترجیح دیتی ہے اور مسلسل کوشش بھی کرتی ہے۔بات چیت کے لیے سینئرز سیاست دانوں پر کمیٹیاں بنتی ہیں ،اُس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے میاں نوازشریف مدد مانگتے ہیں ،آرمی چیف ،دونوں رہنمائوں سے بات کرتے ہیں ،پھر ایک وقت آتا ہے ،حکومت مذاکرات کے ذریعے علامہ طاہر القادری کا دھرنا ختم کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے ،پاکستان تحریک انصاف سے مذاکرات جاری رکھتی ہے۔آصف علی زرداری ،جاتی اُمرا جاتے ہیں ،پارلیمنٹ کے مشترکہ سیشن ہوتے ہیں ،یوں حکومت کئی طرح سے اس سیاسی تعطل کو توڑنے کی جدوجہد کرتی ہے۔اے پی ایس پشاور سانحہ کے وقت پی ٹی آئی اپنا دھرنا ختم کردیتی ہے ،مگر پی ٹی آئی اپریل دوہزار پندرہ میں جس کو جعلی پارلیمنٹ کہتی رہی ،اُس میں واپس آجاتی ہے۔یہ فیصلہ پی ٹی آئی کی کورکمیٹی کرتی ہے ،جس میں جہانگیر ترین بھی شامل ہوتے ہیں۔انہی لمحوں میں جب حکومت اور تحریکِ انصاف کے مابین عدالتی کمیشن کی تشکیل کے بارے اتفاقِ رائے ہوجاتا ہے تو حکومت کی جانب سے اسحق ڈار اور پی ٹی آئی کی جانب سے جہانگیر خان ترین معاہدے پر دستخط کرتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے اپنے دورِ حکومت میں سیاسی تعطل کو کیسے ختم کرتے ہیں،اب لمحۂ موجود میں سیاسی جمود سے نمٹنے کے لیے تحریکِ انصاف کے طریقہ کارکا جائزہ سامنے رکھتے ہیں۔جب سے اپوزیشن جماعتوں کا سیاسی اتحاد قائم ہوا ہے ،حکومت کی جانب سے اپوزیشن رہنمائوں کی تضحیک کی جارہی ہے ،حکومتی نمائندے ،جو زیادہ تر اپنی Constituencyبھی نہیں رکھتے ،جلتی پر تیل چھڑکنے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔حکومت کے پاس جہانگیر ترین جیسی کوئی شخصیت نہیں ، جو معاملے کی سنجیدگی کو سمجھے اور جن کی سربراہی میں حکومتی کمیٹی قائم ہو اور جو اپوزیشن رہنمائوں سے بات چیت کرسکے۔مزید براں کوئی بھی پی ٹی آئی کا رہنما بات چیت کی طرف اشارہ بھی نہیں کررہا۔یہ حکومت اپنے سیاسی کردار کو خود ہی محدود کرتی چلی جارہی ہے،فوادچودھری سے زیادہ شہبازگِل بڑھ چڑھ کر بیان بازی کررہے ہیںجس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ جہاں اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف مزید طاقت ور ہوتا چلا جارہا ہے،وہاںپی ٹی آئی کے سیاسی جدوجہد رکھنے والے رہنمائوں کا کردار سکڑ رہا ہے۔یہ پی ٹی آئی کا سب سے بڑا بحران ہے.

About The Author