اپریل 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شناخت کا عذاب ۔۔۔عامر حسینی

وہ پنجاب کے ایک معروف علاقے میں ہائی اسکول میں استانی ہے- اینگزائٹی اور ڈپریشن کی مستقل مریض ہے- بائی پولر ڈس آڈر بھی ہے

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ پنجاب کے ایک معروف علاقے میں ہائی اسکول میں استانی ہے- اینگزائٹی اور ڈپریشن کی مستقل مریض ہے- بائی پولر ڈس آڈر بھی ہے- شاعرہ بھی بہت اچھی ہے- اور بہت تلخ بھی ہے اور شیریں بھی بہت ہے- موڈ بدلتے دیر نہیں لگتی- یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو ہمارے سماج میں ہر اس آدمی میں پائی جاتی ہیں جو تھوڑی سی بھی تخلیقیت کا حامل ہوتا ہے اور وہ کئی سطحوں پر زندگی گزارنے سے قاصر ہوتا ہے- کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص معاشرے میں فٹ نہیں ہے، اسی لیے بیگانگی کا شکار ہے- اور جو سماج میں مطابقت پذیری کے ہتھکنڈوں سے کام لینے میں عار نہیں سمجھتے، ان کو مختلف سطحوں پر زندگی گزارنے میں دقت نہیں ہوتی، وہ اس مطابقت پذیری سے کام نہ لینے والوں کو بعض اوقات بیوقوف کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے- میں بھی ایک عرصے تک یہ سمجھتا رہا کہ میں سماج میں کئی سطحوں پر،مختلف کرداروں کو بیک وقت نبھاتے ہوئے زندگی کو بسر کرلوں گا اور میں اس کوشش میں جب ادھ مرا ہوگیا تب مجھے سمجھ آئی کہ مطابقت پذیری اصل میں منافقت کا قدرے ہضم ہونے والا مترداف ہے- جب مجھے اس احساس سے واسطہ پڑا تو میں خود بھی اینگزائٹی، ڈپریشن، بائی پولر ڈس آڈر کی کیفیات سے نبردآزما ہوں- لیکھاں دے پوٹھڑےتوے ( قسمت کے پھیر ہی الٹے ہوا کرتے ہیں)- مجھے آج اسکی یاد اس لیے آئی، کہ اس نے آج سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر سٹیٹس لگایا، جسے “خدارا! میرے گھر مت آنا” کا عنوان دیا جاسکتا ہے- کہتی ہے کہ اس کی ایک کولیگ استانی سے فون پر بات ہورہی تھی تو اس کی آواز سے پریشانی مترشح تھی، ہماری دوست استانی نے اپنی کولیگ کو کہا کہ وہ اس کے گھر آجاتی ہے تو اس پہ کیا ہوا؟ دوست لکھتی ہے

 

ایک کولیگ،  میری بہت قربت بھی ہے اس سے،  مجھ سے اپنے دکھ سکھ شئیر کر لیتی ہے ۔

آج میں نے کہا، تم بہت پریشان ہو، چھٹی کے بعد  تمہاری طرف چکر لگاتی ہوں، کچھ بہتر محسوس کرو گی ۔ تو وہ گھبرا سی گئی،

نہیں، نہیں میری طرف نہ آنا، تم شیعہ ہو، میرے گھر میں تو میرے لئے مذید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ میں تو تمہیں فون بھی چھُپ کر  کرتی ہوں کہ اگر گھر میں زرا بھی کسی کو پتہ چلا کہ ہماری بہو کی شیعہ لڑکی سے دوستی ہے تو میری تو شامت آ جائے گی ۔

میرے میاں بھی مجھ سے MISBEHAVE کریں گے، وہ تو پہلے ہی منع کرتے رہتے ہیں کہ خبر دار کسی شیعہ سے دوستی نہیں بڑھانی۔

کال بند ہو گئی ۔ لیکن میری آنکھیں بھر آئیں ۔

اتنی نفرت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

نفرتیں پھیلانے کا پلان اتنا کامیاب ہو گیا۔ ۔ ۔

پیڑيے نئیں پیڑے

پیار ایسی تتلی ہے

جیڑھی سدا سول تے بویہے

پیار او محل ہئے نیں

جدے وچ پنکھواں دے

باجھ کجھ نہ رہوے

پیار ایسا آنگنا ہئے

جدے وچ وصلاں دا رتڑا پلنگ نہ ڈیوے

مجھے شیو کمار بٹالوی کے گیت کے یہ مصرعے کیوں یاد آئے؟ اس لیے یاد آئے کہ ہماری دوست کا نام “عابدہ حسینی ” ہے – ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے نام کے ساتھ “حسینی” میرے نام کے اگے لکھے ہونے کی وجہ سے لگایا ہے- حالانکہ یہ خود امام نقی علیہ السلام کی اولاد سے ہیں اور ان کا ایک بھائی اس لیے قتل ہوا کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے عشق میں مست رہا کرتا تھا- اس کی قبر بھی امام بارگاہ کے اندر ہے- تو یہ ہماری استانی دوست مجھ جیسے آدمی سے کہیں زیادہ اپنے نام کے ساتھ “حسینی” لگانے کی حقدار ہے- یہ اہل بیت کی محبت میں سرشار ہیں- اور جب جہاں ظالموں سے سامنا ہو تو یہ کردار زینب علیہ السلام میں ڈھل جاتی ہیں اور اور جرآت و بے باکی کی تجسیم بن جاتی ہیں- عشق زینب علیہ السلام میں سرشار یہ عین زینب ہیں- ان کے جب یہ الفاظ میں پڑھ رہا تھا

“اتنی نفرت۔۔۔۔۔؟”

تو مجھے اپنا گزرا کل یاد آرہا تھا، جن دنوں میں بےخوابی کی حالت میں اور ایک عجب سے وجدانی حالت میں کراچی یونیورسٹی میں جابجا سیدہ ھما علی جعفری کے پہلو میں پایا جاتا تھا تو بہت ساری زبانیں اپنے ذہن کی پراگندگی کے سبب یہ کہتی تھیں،”کامریڈ عامر حسینی ایک لڑکی کے عشق میں شیعہ ہوگیا ہے”، جبکہ میں اور ھما ایک اور ہی جہان میں رہ رہے تھے جہاں مادیت اور مثالیت کے سنگم ہورہے تھے اور ہم شخصی محبتوں سے بہت آگے کی طرف دیکھ رہےتھے- اور یہ شیعہ ،سنّی ، ملحد، لبرل، کمیونسٹ، اشتراکی یہ سارے لیبل تو کہیں بہت پیچھے رہ گئے تھے- ہم نے نہج البلاغہ کو کسی فرقے کی کتاب کے طور پر تو پڑھا ہی نہیں تھا اور نہ ہی ہم نے شناختوں کی سطحی سی جگہ پر ٹہرجانے کی کوشش کی تھی- اور محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ،علی، فاطمہ ، حسن، حسین، علی بن حسین، محمد الباقر، جعفر الصادق، اسماعیل و موسی کاظم الخ (علیھم السلام) ان سب کو دھرم و بھرم سے آگے جاکر دیکھنے کی سعی کی تھی- اور اس سفر میں مجھے تو کہیں بھی ایک پل کے لیے طبقاتی حقیقتیں اور تضادات بے کار یا ازکار رفتہ نہیں لگے تھے اور نہ میں مظلوموں،محکوموں، مجبوروں کی صفوں سے الگ ہوا تھا- ہم سب سوز محبت تھے، ایک قیامت تھے، گوہر یک جان تھے- وہ مجھے تشنہ کینسر سے لڑتے لڑتے یہاں چھوڑ گئی اور خود وادی حسین کراچی کے قبرستان میں بنی ایک قبر میں اترگئی تو بھی مجھ سے کبھی الگ نہ ہوئی- میں نے اس کے ناسوتی وجود کے غائب ہوجانے کے بعد اس کے لاہوتی وجود سے جڑا رہا اور اب کوئی ناہنجار اسے فرقہ وارانہ تنگنائیوں میں دیکھتا ہے تو اپنا ہی نقصان کرتا- ہمارا کیا بگاڑتا ہے- ہم تو شمع ہیں، ہمارا کام تو جلتے چلے جانا ہے اور سوزش ہجراں ہمارا رزق ہے- تو نفرتوں کے اس بازار میں گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے- ہم جب کسی کے عشق میں مقام فنا پہ پہنچتے ہیں تو ہماری زبان سے یہ نکلتا

 

تیریاں ہوندیاں سندیاں محبوبا

ترا مجرم ہاں جے میں ہوآں

سونہہ تری سونہیا تو یں ای ہے

ہووے شرک عیاں جے میں ہواں

 

 

 

%d bloggers like this: