اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وتایو فقیر کے قصے اور ہنسوڑ دانائی ۔۔۔رانا محبوب اختر

وتایو کا عہد فقیروں اور درویشوں کا عہد تھا۔کئی فقیر اور فقیر منش لوگ ان کے دوست تھے!بگھتوں، صوفیوں اور سنتوں سے وتایو "کچہری" کرتے تھے۔

رانامحبوب اختر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جان ڈیوی کا خیال ہے کہ سماج میں فرد کے طرزِعمل اور رویوں پر روایات اور قصے کہانیوں کا اثر اس فرد کی زبان کے ذخیرہء الفاظ کے برابر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس فرد، رسوم و روایات کے سرمائے میں بچپن میں بولے جانے والے توتلے الفاظ برابر اضافہ کرتا ہے۔ وتایو سندھی کلچر کو امیر تر کرتے ہیں۔اس کی حکایتیں سدا بہار دانش پارے ہیں۔ ہنسوڑ دانائی سے بھری ہیں۔ سندھ کے vibrant لوک کلچر کا حصہ ہیں۔ سماج کی جکڑ بندیوں اور طاقتور حکمرانوں کے لئے مزاح تلوار سے زیادہ مہلک ہوتا ہے۔مغرور حکمرانوں کی انا کا غبارہ مزاح کا نشتر پنکچر کرتا ہے۔وتایو سندھی آدمی کی دھنک رنگ geniusکا خوبصورت عکس ہے۔جب زمانہ فرسودہ روایات اوربے وقعت یا tin pot حکمرانوں کے قہر کے سامنے لیٹ جاتا ہے تو سندھی مانڑو اس مضحکہ خیزی پر ہنستا ہے۔ناانصافی بڑھ جائے تو دودو سومرو یا دولہا دریا خاں بن جاتا ہے یا بھٹو کی صورت مقتل سجاتا ہے۔وتایو کے قصوں سے قتل گاہ تک کے جادوئی سفر میں قہرمان حکمران مگر مسخرے بن جاتے ہیں۔سندھ وادی کا کاک محل witاور بہادری کے طلسم میں بندھا ہے۔اسی سے کلفتیں ہیں، اسی سے راحتیں ہیں!!فقیر کا عہد سندھی زبان کے عروج کا زمانہ ہے۔زبان ، تاریخ اور جغرافیہ ہوتی ہے۔مادری زبانوں کے باغ میں رنگا رنگ پھول کھلتے ہیں اور ہر پھول خوب صورت ہوتا ہے۔ وتایو کی کچھ کہانیاں ڈاکٹر اسحق سمیجو نے بھیجی ہیں۔محبت کی محنت کے ساتھ وہ کہانیاں سندھی میں پڑھیں۔پھر یار_ من شمس الزماں شاہ اور اکبر سوہو نے کچھ کہانیاں ترجمہ کرنے میں مدد کی اور ایک کہانی علی دوست نے بھیجی۔ترجمے میں سندھی زبان سا لطف تو نہیں ہے مگر معنویت بر قرار رکھنے کی کوشش کی ہے۔چند یادگار حکایتیں دیکھئے۔
ایک دن ماں نے وتایو سے کہا، اَبا کہیں سے ٹانڈو یعنی انگارہ یا آگ لے آ ، روٹی پکانی ہے ۔وتایو انگارہ (آگ )لینے باہر گیا کہ ہمسایوں سے آگ جلانے کے لئے انگارہ یا "لمبی” لگانے کا رواج تھا۔ خواجہ فرید رح نے کہا:
عشق فرید آ لمبی لائی
جل گیم مفت وچارا
کچھ دیر بعد واپس آ کر وتایو نے ماں سے کہا” اماں انگارہ کہیں سے نہیں ملا۔” یہ سن کر ماں کو غصہ آگیا اور اس نے وتایو سے کہا ” کہ اگر آگ اور کہیں سے نہیں ملی تو ایک انگارہ دوزخ سے لے آ۔” وتایو باہر چلا گیا اور کچھ دیر بعد آ کر کہا”اماں دوزخ میں بھی آگ نہیں ہے۔”ماں نے حیران ہو کر پوچھا ” اَبا اگر دوزخ میں آگ نہیں ہے تو گنہگار آگ میں کیسے جلتے ہیں؟” وتایو نے کہا”وہاں ہر کوئی انگارہ یا آگ خود لاتا ہے اور اپنی ہی آگ میں جلتا ہے۔”اس طرح کی بات جان ملٹن نے کہی تھی کہ ہر شخص اپنی جہنم اور جنت خود بناتا ہے۔غلاموں کے حافظے میں ملٹن بولتا ہے، سندھی فقیر کی آواز نہیں آتی! لسانی سامراجیت نے کیسے کھلواڑ کئے ہیں!!
جاگیردار مردانہ سماج وتایو کے طنز کا نشانہ بنتا ہے۔ایک بار وتایو کہیں جا رہا تھا کہ اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ جنازہ اٹھائے جا رہے ہیں۔وتایو نے ان کے پاس جا کر سوال کیا کہ جنازہ کسی بزرگ کا ہے یا بچے کا؟ ایک کاندھی نے جواب دیا "یہ بچے کی نہیں بڑے کی میت ہے”۔فقیر نے پوچھا کہ میت عورت کی ہے یا مرد کی؟ کاندھی نے پیچھے مڑ کر جواب دیا :” عورت کی”۔فقیر نے پوچھا کہ وہ کنواری تھی یا شادی شدہ؟ جواب ملا”کنواری”۔ فقیر نے کہا” موت برداشت کر لی ہے پر کسی کو بیاہ کر نہیں دی۔” جاگیردارانہ سماج میں جہاں جائیداد کے لئے قرآن سے شادیاں ہوتی ہوں اس طرح کے خوفناک طنز سے وتایو پسماندہ جنسی اخلاقیات کا مذاق اڑاتا ہے!
وتایو سے منسوب ایک اور کہانی،زندگی کی بے ثباتی کو آشکار کرتی ہے۔ ظالم اور جاہل انسان فانی زندگی کو گناہ اور جرم سے آلودہ کرتا ہے۔فانی زندگی کی مضحکہ خیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ ایک دفعہ بستی میں ایک چوری ہو گئی۔پیراٹھو یا کھوجی (ٹریکر) قدموں کے نشانوں سے چور ڈھونڈتے تھے۔وتایو بھاگ کر قبرستان جا بیٹھا۔لوگوں نے پوچھا وتایو یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ فقیر نے کہا” چور کے راستے پہ بیٹھا ہوں۔آخر اس نے یہیں آنا ہے۔”آدمی موت کی منزل کا راہی ہے۔فنا کا استعارہ ہے۔اگر اسے زندگی کی بے ثباتی کا ادراک ہو تو کبھی جرم نہ کرے، چوری نہ کرے اور لوگوں کو تکلیف نہ پہنچائے!

ایک دفعہ وتایو دوستوں کے ساتھ باتیں کر رہے تھا کہ عشق کی بات چل نکلی۔فقیر نے پوچھا” عشق کیا ہے”۔ جواب آیا ” فقیر ، عشق دل کا بہلانا اور روح کی راحت ہے”۔اس پر فقیر نے پوچھا” عشق کس سے کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں؟” ایک دوست نے جواب دیا” مرد ہمیشہ عورت سے عشق کرتا ہے اور اس کو متوجہ کرنے کے کئی طریقے ہیں۔آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر اکیلی عورت دیکھو تو چھوٹا سا کنکر پیچھے سے مارو۔وہ اگر مسکرا کر دیکھے تو جان لو کہ بات بن گئی”۔ کچھ دن بعد وتایو نے ایک اکیلی عورت دیکھی تو ایک بڑا پتھر اٹھا کر اس نے عورت کو دے مارا۔پتھر اس کی کن پٹی پر لگا اور وہ بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ بے ہوشی کے عالم میں اس کے دانت نکلے ہوئے تھے۔وتایو اس کے قریب گیا اور بولا” میں نے تمھیں عشق کرنے کو پتھر مارا تھا کہ تم مسکرا دو گی مگر تم تو دانت نکال کر پڑی ہو”۔ سوجھ بوجھ اور توازن زندگی میں اہم ہوتا ہے۔دانش مندی، توازن اور تناظر سے ہے!

رمضان کے مہینے میں وتایو افطاری کے وقت مسجد گیا۔روزہ دار افطار کے لئے جمع تھے۔ان میں سے ایک نے کہا” فقیر تیرا روزہ تو نہیں تھا کہ تم تو دوپہر کو کھانا کھا رہے تھے؟”وتایو نے کہا” روزہ نہیں تھا لیکن روزہ کھولنے کا ثواب تو ضائع نہ ہو”۔روزے کا سارا فلسفہ رزق کی تعظیم اور نعمتوں کے شکر سے جڑا ہوا ہے۔ لوگوں کی نیکی اور بدی کا فیصلہ کرنا انسانوں کا کام نہیں ہے۔البتہ بھوکے کو کھانا کھلانا ثواب ہے!
ایک بار وتایو ایک جانور خرید کر جا رہا تھا۔ایک راہگیر نے پوچھا، ” فقیر یہ جانور کتنے میں خریدا ہے” فقیر نے کہا” چار روپے میں” گوٹھ تک جاتے جاتے کئی لوگوں نے یہی سوال کیا تو فقیر تنگ آگیا اور بستی کے باہر درخت پر چڑھ کر چیخنے لگا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے تو وتایو نے کہا” آپ سب سن لو یہ جانور میں نے چار روپے میں خریدا ہے۔اور جو یہاں پر نہیں ہیں ان کو بھی بتا دینا”۔سبق یہ ہے کہ دخل در معقولات اور بلا وجہ nosy ہونا بری بات ہے ۔لوگوں کی پرائیویسی کا احترام کرنا چاہئیے اور لوگوں سے ان کی پرائیویٹ زندگی اور لین دین کے بارے سوالات بد تمیزی کے زمرے میں آتے ہیں۔
وتایو ایک بار کسی گوٹھ گیا اور لوگوں سے کہا کہ میرے لئے کھانے کا بندوبست کرو ورنہ تمھارے ساتھ بھی وہی سلوک کروں گا جو پچھلے گاوں والوں سے کیا تھا!وتایو کی دھمکی میں لوگوں نے اس کے لئے عمدہ کھانے کا اہتمام کیا۔وتایو نے کھانا کھایا اور خوش ہوا۔کھانے کے بعد گاوں والوں نے تجسس دور کرنے کے لئے سوال کیا کہ پچھلے گاوں والوں سے آپ نے کیا سلوک کیا تھا۔ جس پر فقیر نے اطمینان سے کہا” انھوں نے کھانا دینے سے انکار کیا تو میں چپ چاپ چلا آیا۔آپ اگر کھانا نہ کھلاتے تو بھی میں یہاں سے چپ چاپ چلا جاتا۔”یہ وہ فقیرانہ رویہ ہے جو زندگی میں آسانیاں پیدا کرتا ہے !میر صاحب نے کہا:
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے!
ایک بار فقیر کو نہر پار کرنا تھی۔وہ ملاح کو بلاتے رہے مگر ملاح فقیر کا حلیہ دیکھ کر نہیں آیا۔وتایو کے پاس ایک روپیہ تھا جو اس نے دور سے ملاح کو دکھایا تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور اسے نہر پار کرا دی جس پر فقیر نے کہا” پیسہ نر کو بھی جھکا دیتا ہے”۔صدیوں کی دانش کا نچوڑ یہ ہے کہ زر خدا تو نہیں، حاجت روا ہے اور لوگ انسان کی قدر نہیں کرتے، پیسے کو پوجتے ہیں۔!
وتایو کا عہد فقیروں اور درویشوں کا عہد تھا۔کئی فقیر اور فقیر منش لوگ ان کے دوست تھے!بگھتوں، صوفیوں اور سنتوں سے وتایو "کچہری” کرتے تھے۔ پارسائی کی تمکنت ان میں نہ تھی۔ وہ فقیر بن دانش پارے بانٹتے اور مسکراہٹیں بکھیرتے تھے!حدیثِ پاک ہے کہ مسکراہٹیں بانٹنا خیرات ہے۔سندھی فقیر کی حکایتیں پڑھ کر جو "ہنسوڑ دانائی”آپ کے چہرے پہ کِھلتی ہے وہ ہر زمانے کے لئے فقیر کی "ڈات”ہے !

یہ بھی پڑھیں:وتایو فقیر۔۔۔رانا محبوب اختر

%d bloggers like this: