مژدم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(دید کُھل گئی ھ، دید بند تھی گئی ھ،
دید ول آئی ھ، وغیرہ )
نظر کھل گئی ہے نظر بند ہو گئی ہے نطر واپس آ گئی ہے
نظر کیسے بند ہوئی تھی؟ کہاں بند ہوئی تھی ؟ کیوں بند ہوئی تھی ؟
کیا نظر کوئی ایسی چیز ہے جو اپنی اساس میں مادیت کی حامل ہے ؟ کیا ہمارے اندر کوئی زندان ہے ؟ جہاں نظر بند رہ سکتی ہے ؟ یا جہاں نظر کو بند کیا جا سکتا ہے ؟ کون بند کرتا ہے نظر کو؟ کون کھولتا ہے نظر کو ؟ کون واپس لاتا ہے نظر کو ؟ کیا نظر کوئی راہ بھٹکا مسافر ہے جسے کوئی رہمنا یا خواجہ خضر واپس لاتا ہے ؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیوں واپس لاتا ہے ؟ اور کیوں بند کرتا ہے ؟ کیوں کھولتا ہے ؟
مانتا (عقیدہ) یہ ہے کہ انسان کے اندر توانائی بہتی رہتی ہے جیسے پانی پانی تب بہنا بند ہو جاتا ہے جب اسکے سامنے کوئی رکاوٹ آ جائے کوئی بند آ جائے ۔۔
تصور یہ ہے کہ آنکھ اور نظر کے درمیان توانائی کی منتقلی جاری رہتی ہے جس وقت توانائی آنکھ کو ملنا بند ہو جاتی ہے تو وہ بند ہو جاتی ہے آدمی اندھا ہو جاتا ہے، اس بند کو کھولنے کے لئے قدیم وقتوں میں سونڑ کیے جاتے تھے جن میں مختلف اقسام کی مالشیں اور ورزشیں اور مراقبے شامل ہیں
جیسے آپ بند کو کھولتے ہیں تو نابینا کی بینائی لوٹ آتی ہے
سرائیکی میں جسے سوݨ کہا جاتا ہے اُسے سنسکرت میں ھوݨ کہا جاتا ہے
کچھ تغیر آیا ہے دونوں میں مگر بنیادی طور پر یہ ایک طریق تھا
جو کہ آج بھی اسی طرح جاری ہے بچے کی پیدائش کے بعد کی تمام تر رسوم اسی توانائی کے راستے میں جو بند ہوتے ہیں انہیں کھولنے کی ایک منظم کوشش ہوتی ہے ، اس بات سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ آیا پیدائش کی سٹیٹ پرفیکٹ سٹیٹ نہیں ہوتی ۔۔ تخلیق کا یہ تصور انتہائی نیا ہے جبکہ دوسری طرف تمام تر مذاہب انسان کو اشرف المخلوق کہتے ہیں تمام تر حالتوں کے تناظر میں مگر یہاں اشرف کی سٹیٹ عمر کی بڑھوتری سے جڑی ہوئی ہے فرد جیسے جیسے بڑا ہوتا جائے گا تو ویسے ویسے وہ چکرا دریافت کرتا چلا جائے گا، تمام تر چکروں کی دریافت کے بعد انسان اس نہج تک پہنچ جاتا ہے جسے اوتار کہا جاتا ہے
بدھ کے حوالے سے یہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے وہ تمام چکر دریافت کر لئے تھے جن سے وہ ایک اوتار بن گئے اور انہیں نروان حاصل ہو گیا
چکرا کے حوالے سے ایک بہت بنیادی نوعیت کا تصور یہ بھی ہے کہ اس کے بند ہونے کی وجہ نجس جذبات ہوتے ہیں
(خوف امدے ڈر لگدے) خوف آتا ہے کہاں سے آتا ہے ؟ ڈر لگتا ہے کہاں سے آ کر لگتا ہے؟ زمین چکرا، یا مول ادھارا چکرا یہ چکرا خوف کا چکرا ہے جو انسان کی ریڑھ کی ہڈی کی بنیاد سے شروع ہوتا ہے یہ چکرا انسان کے پیدائشی خوف کا نام ہے انسان دو چیزوں کے ساتھ پیدا ہوتا ہے خوف اور اندھیرے کے ساتھ یہ چکرا انسان کے لاشعوری خوف کو سامنے لاتا ہے (ہاں ڈل ویندے) دل پھٹا دینے والے دہلا دینے والے خوف یہ تب تک ختم نہیں ہوتا جب تک انسان مان نہ لے کہ اسے اسکی ریڑھ کی ہڈی میں بہنے کا مکمل اختیار ہے اور وہ اسی لئے پیدا ہوا ہے کہ یہ اسکے اندر بہتا رہے اور وہ بند کھولتا رہے جو نجس جذبات کے سبب بند ہو گئے
جاری ہے۔۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر