نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

فضائی آلودگی  سالانہ ایک لاکھ پاکستانیوں کی جان لیتی ہے۔۔۔ فہمیدہ یوسفی

ہر سال سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان  سموگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔  یہ سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے۔

فہمیدہ یوسفی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

 پانی،ترقیاتی اور اس سائینٹفک دور میں فضائی آلودگی اسقدر بڑھ گئی ہے کہ انسان کو اس کی عادت ہوگئی ہے جبکہ اس آلودہ زندگی سے انسان کو بے شمار بیماریاں کو سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ ایک فعال زندگی گزارنے کی بجائے ذہنی کوفت میں مبتلا ہو رہا ہے۔

فہمیدہ یوسفی

بڑھتی ہوئی ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ فضائی آلودگی ہے جو ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دینے میں بڑی رکاوٹ بن رہی ہے، فضائی آلودگی

کو عالمی سطح پر انسانی صحت کے لیے  چوتھا بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

فضائی آلودگی سے دُنیا بھر میں  کم از کم سالانہ سترلاکھ افراد موت  کے منہ میں چلے جاتے  ہیں جبکہ یہ جان کر حیرت ہوگی کہ پاکستان میں سالانہ ایک

لاکھ سے زیادہ لوگ اس فضائی آلودگی  کی وجہ سے مرجاتے ہیں جبکہ  پاکستان میں فضائی آلودگی کی بیماریوں سے نمٹنے کے لیے پانچ سوملین ڈالر خرچ

کیے جارہے ہیں ۔

ہر سال سردیوں کی آمد کے ساتھ ہی پاکستان  سموگ کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔  یہ سموگ دراصل فضائی آلودگی کی ایک قسم ہے۔

واضح رہے کہ یہ  سموگ سلفر ڈائی اکسائیڈ، کلورو فلورو کاربنز، کاربن مانو آکسائیڈ، گاڑیوں کے دھوئیں سے خارج ہونے والے آکسائیڈز، ہائیڈرو کاربنز

میٹلک کمپاونڈز، تابکار مادوں اور زیریلی گیسوں کے اخراج سے فضاء میں شامل ہونے والے پلوٹینٹس کی وجہ سے بنتی ہے۔ جبکہ  پچیس سے تیس ارب کلو

گرام فصلوں کی باقیات اور گھاس پھوس نذر آتش کرنے سے بھی فضاء میں کثیف تہہ جمع ہو جاتی ہے جو موسمِ سرما میں  منجمد ہو کر سموگ کی شکل

اختیار کر لیتی ہے۔

ماہرہن کو خدشہ ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان میں دو مسائل شدت اختیار کر جائیں گے پہلا ماحولیاتی آلودگی اور دوسرا پانی  کا مسئلہ۔ جس کی وجہ

سے  نہ صرف انسانی  زندگی بلکہ باقی حیاتیات کو بھی شدید خطرہ ہے ۔

یاد رہے کہ پاکستان فضائی آلودگی اور ماحولیاتی مسائل کے خطرات سے دوچار ممالک کی فہرست میں پہلے دس ممالک میں شامل ہیں۔

پاکستان  میں آلودگی سے سالانہ بیس ہزار افراد قبل از وقت ہلاک ہو جاتے ہیں۔ اور اگر شہر کراچی کی بات ہو تو کم از کم  نو ہزار سالانہ اموات رپورٹ

ہہورہی ہیں ۔

صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ اڑسٹھ ہزار نوزائیدہ بجے فضائی آلودگی کے باعث موت کا شکار

ہوتے ہیں۔ جب کہ دوسری جانب  16.28ملین افراد براہ راست فضائی آلودگی کے باعث صحت کے مسائل سے دوچار ہیں۔

پاکستان میں فضائی آلودگی سے سال میں اسی ہزار سے زائد افراد ہسپتال میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان میں سے آٹھ ہزارافراد پھپھڑوں اور سانس کے مستقل

مریض بن رہے ہیں۔ جب کہ پانچ لاکھ افراد سانس کے دیگر عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں

عالمی سطح پر گلوبل کلایمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دس سب سے زیادہ غیر محفوظ ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے۔

 جب کہ ورلڈ ریسورسز انسٹی ٹیوٹ کا ماننا ہے کہ اگلے پندرہ سالوں  میں پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی تعداد ستاءیس لاکھ سے زیادہ ہو جائے گی۔

کراچی شہر  سب سے زیادہ آلودہ ہوچکا ہے ۔ کراچی کی فضاؤں میں پی ایم 2.5ٗ فضائی آلودگی کی شرح 88مائیکروگرام فی مکعب میٹر ہے۔ جبکہ گزشتہ بیس

سالوں میں گاڑیوں کی تعداد بیس لاکھ سے بڑھ کرایک  کروڑ چھ لاکھ سے زیادہ ہو چکی ہیں۔

جنگلات کا رقبہ نوے کی دہائی میں 35لاکھ 90ہزار ہیکٹر پر مشتمل تھا جو کہ 2000کی دہائی میں 33لاکھ 20ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔ اس کے علاوہ ایک دن

میں 54ہزار ٹن سالڈ ویسٹ پیدا ہوتا ہے۔ یا پھر اسے جلایا جاتا ہے۔ کئی جگہوں کوڑا کرکٹ، آلودگی دریاؤں میں پھینک دی جاتی ہے جو نہ صرف آلودگی کا

باعث بلکہ آبی مخلوق کا قتل بھی ہے اور پھر اس سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا جوکہ انسانی زندگی کے لیے بھی خطرناک ہے جس سے نظر کی

خرابی، گلے کی خراش، پھیپڑوں، سینے کے امراض کا باعث  بنتی ہے۔ پلانٹس اور صنعتی یونٹس سے خارج ہونے والے زہریلے دھواں اور مواد سے ہر سال

تیس لاکھ سے زائد اموات ہو رہی ہیں

سڑکوں پر دھواں اڑاتی گاڑیاں، کارخانوسں کی دھواں اگلتی چمنیاں، کیمیکل پلانٹس سے خارج ہوتا زہریلا پانی گرین ہائوس گیسوں کے خاتمے کی وجہ سے بن

رہا ہے۔ علاوہ ازیں بڑے پیمانوں پر جنگلات کی کٹائی پاکستان میں ماحولیاتی  توازن میں بگاڑ کا باعث ہے۔

اگر عوام کی بات ہو تو ان کو  اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ ، پلاسٹک بیگ، کوڑا کرکٹ، گاڑیوں کا دھواں، جنگلات کا بے دریغ صفایا  ہمیں موت کے منہ میں

دکھیل رہے ہیں ماحول دشمن عناصر ہیں جو انسان ہی نہیں دیگر مخلوق کا جینا بھی اجیرن کر رہے ہیں۔

فضائی آلودگی کو کم کرنے اور ممکنہ خطرات سے بچاؤ کے لیے زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں ہمیں اس حوالہ سے سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ فضائی

آلودگی کے عوامل میں خاطر خواہ کمی لانا ہوگی۔ کیونکہ یہ کسی فردِ واحد کا نہیں، بلکہ اجتماعی مسئلہ ہے۔ فضائی آلودگی اور اس کے مضمرات کے متعلق

عام لوگوں تک معلومات کی برقت رسائی، شجر کاری کو ہر سطح پر فروغ دینے، اور ماحول کو گندہ کرنے کے منفی اثرات سے آگاہی سے بڑی حد تک قابو

پاکر انسانی زندگیوں کو بچایا جا سکتا ہے

About The Author