اپریل 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چراغ تلے اندھیرا۔۔عامر حسینی

مسلم ممالک کے موجودہ اکثر وبیشتر سربراہان کو میں نے یہی کہتے سنا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں سے تعصب ترقی پر ہے-

عامرحسینی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وزیراعظم عمران خان جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سیشن سے خطاب میں یورپ میں اسلامو فوبیا کے بڑھ جانے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے یورپی حکومتوں سے اسلام کے بارے میں بڑھتے ہوئے تعصب کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کا زکر کررہے تھے تو اس وقت یورپ میں دو واقعات کی گونج سنائی دے رہی تھی اور دونوں واقعات فرانس میں ہوئے- پہلا واقعہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں ہوا- اس واقعے میں چار پاکستانی نژاد شہریوں نے ایک اخبار کے صحافیوں پر بغدے سے حملہ کرکے ان کو زخمی کردیا- ایک حملہ آور گرفتار ہوگیا جبکہ باقی کے تین مفرور ہیں- دوسرا واقعہ فرانس کے شہر استراس بورگ میں ہوا، جہاں ایک 19 سالہ طالبہ کو اسکرٹ پہننے پر تین نامعلوم لوگوں نے  پکڑا اور تشدد کا نشانہ بنایا- دو افراد نے لڑکی کے ہاتھ پکڑے جبکہ دوسرے نے اس کی آنکھ کے قریب پنچ مارا، جس سے لڑکی گی آنکھ کے گرد گہرا سیاہ نشان پڑگیا اور آنکھ سوج گئی- لڑکی کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے اس کے اسکرٹ پہننے پر اعتراض کیا، اسے ویشیا کہا اور پھر “کتیا” تک کہا- جب اس نے پوچھنا چاہا کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں تو جواب دینے کی بجائے اس پر حملہ آور ہوگئے-

 

یہ جو میں نے کہا کہ گونج پورے یورپ میں تھی- تو اس وقت اکثر مغربی ملکوں کے ٹی وی چینلز، ریڈیو اسٹیشن، ویب نیوز چینل اور ویب نیوز سائٹ کے ساتھ ساتھ ٹوئٹراور فیس بک  و وٹس ایپ گروپوں، ٹیلی گرام سمیت سوشل میڈیا پر یہ واقعات ڈسکس ہورہے تھے اور ہر دوسرا تیسرا تبصرہ نگار یہی کہنے میں مصروف تھا کہ تارکین وطن میں مسلم کمیونٹی نہ تو “ثقافتی تکثیری شناختوں” پر یقین رکھتی ہے اور نہ ہی یورپ کی ثقافتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی صلاحیت اس میں موجود ہے-

 

یورپ اور امریکہ میں اسلام ،مسلمانوں کے بارے میں تعصب اور نفرت انگیزی کے پھیلنے میں جہاں دائیں بازو کی یورپی نسل پرست سیاسی جماعتوں اور گروپوں کا کردار ہے،وہیں اس میں بہت زیادہ کردار ان مسلم مذہبی انتہا پسندوں کے گروپس کے اراکین کا بھی ہے جو ویسے ہی یورپ میں اپنا فہم مذہب مسلط کرنا چاہتے ہیں، جیسے ان گروپوں کا نظریہ ساز ریڈیکل سیاسی اسلام پسند طبقہ مسلم اکثریتی سماج میں مسلط کرتا آیا ہے- خود عمران خان نے 2019ء میں پاکستان کے نوجوانوں کو ایک ایسے مسلمان مصنف کی کتاب پڑھنے کا مشورہ دیا جس کی کتاب میں جابجا فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی گئی تھی اور ایک فرقے کو مسلمانوں کی آج کی ساری مصیبتوں کا سبب قرار دے ڈالا تھا- میں اب بھی عمران خان بارے حسن ظن رکھتا ہوں اور بس یہی کہوں گا کہ خود کتاب نہ پڑھنے اور کسی دوسرے سے تعریف سنکر اس کتاب کو قابل زکر و قابل مطالعہ مان کر سب کو پڑھنے کا مشورہ بعض اوقات بیک فائر کرجاتا ہے-

 

مسلم ممالک کے موجودہ اکثر وبیشتر سربراہان کو میں نے یہی کہتے سنا ہے کہ یورپ میں مسلمانوں سے تعصب ترقی پر ہے- اس کا تدارک ہو- لیکن اکٹر و بیشتر ممالک میں خود حکومتوں کا رویہ اور پالیسی یہ ہے کہ وہاں رہنے والی اکثر مذہبی برادریوں کے افراد خود مذہبی جبر کا شکار ہیں-

 

پاکستان کے کیس کو لے لیجئے – وزیراعظم یورپ میں مسلمانوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کا جب مطالبہ رکھتے ہیں تو نجانے وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ جس ملک کے وہ وزیراعظم ہیں، اس ملک میں اس وقت بڑے پیمانے پر مذہبی انتہا پسندی کا سماں ہے- مذہبی اقلیتیں سخت دباؤ کا سامنا کررہی ہیں- انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان، پاکستان بار کونسل اور کئی ایک سینٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کے پریس کو دیے گئے بیانات آن دا ریکارڈ آئے ہیں کہ سی ٹی ڈی، ایف آئی اے اور پولیس نے ایک خاص کمیونٹی کے خلاف بلاسفیمی قوانین سمیت ضابطہ فوجداری کی بہت سی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے ہیں اور اکثر مقدمات مذہبی فرقہ پرستوں کے دباؤ میں درج کیے گئے ہیں- بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظمیں اس عمل کو اس خاص کمیونٹی کی پرسیکوشن قرار دے رہی ہیں- پاکستان کے دارالحکومت سمیت ابتک بڑے بڑے شہروں میں ایسے بڑے اجتماعات اور ریلیان نکلیں جن میں ایک کمیونٹی کی تکفیر کی گئی اور فرقہ وارانہ نعرے لگائے گئے- جب پاکستان میں مذہبی جبر ترقی کررہا ہو اور فرقہ وارانہ سول جنگ کا خطرہ ہو اور حکومت اور اس کی مشینری نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کا دائرہ توڑنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہو یا اس کے بعض وزرا و مشیروں پر ملی بھگت کا الزام لگ رہا ہو تو ایسے میں دوسرے ممالک کو اسلامو فوبیا سے باہر نکلنے کا مشورہ دینا عبث ہے-

 

عمران خان ہندوستان میں آر ایس ایس کا نام لیتے ہیں- اسے فاشسٹ جماعت کہتے ہیں- بالکل درست کہتے ہیں- لیکن خود پاکستان میں آر ایس ایس کی طرز پرسپاہ صحابہ پاکستان/ اہلسنت والجماعت  موجود ہے- کاغذوں پر  یہ اور اس جیسی بہت سی تنظیمیں کالعدم ہیں- لیکن زمین پر ان تنظیموں کو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور کئی ایک مذہبی برادریوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے کی مکمل اجازت ہے- فورتھ شیڈول لسٹ میں شامل مذہبی انتہا پسند کھلے عام جلسے ،ریلیاں منعقد کرتے اور نفرت انگیز تقریریں کرتے ہیں اور کئی ایک مذہبی گروپوں کی مذہبی آزادی کو یا تو ختم کرچکے یا ختم کرنے کے درپے ہیں- ایسے عناصر جو ہندوستان کی آر ایس ایس کی طرح پاکستان میں مذہبی تکثریت کے خاتمے کے درپے ہیں کے خلاف کیا اقدامات اٹھائے گئے ہیں-

 

پاکستان میں شیعہ برادری کے جلوس ہائے عزاداری اور مجالس عزا کو چار دیواری کے اندر بند کرنے اور وہاں بھی بس حکومتی اجازت سے ایسے اجتماعات منعقد کرنے کی پابندی لگائے جانے کے مطالبات سنائی دے رہے ہیں- شیعہ برادری کے کئی ایک شعائر مذہبی اور مذہبی رسومات کو بھی توہین مذہب کے دائرے میں لانے کا مطالبہ ہورہا ہے- ایسے اعمال پر پہلی بار 295 اے اور 298 اے کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں- پہلی بار علم عباس باہر نصب کرنے اور اپنے گھر کی دیوار پر یاعلی مدد لکھنے پر بھی مقدمات کا اندراج دیکھنے کو مل رہا ہے- شیعہ برادری سے یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ وہ دوسرے فرقے کے مطابق اپنے مذہب کا پرچار کریں ناکہ اپنے مطابق اس کا پرچار کریں- یہ آئین پاکستان کی شق نمبر دو میں درج بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے-

 

اور سب سے خطرناک روش یہ ہے کہ جو صحافی یا سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کالعدم جماعتوں کی مذہبی منافرت انگیزی بارے رپورٹ فائل کرتا یا سوشل میڈیا پر اس بارے ثبوت مہیا کرنے میں سب سے آگے ہوتا ہے، اس پر مقدمہ درج ہوتا ہے اور وہ بھی نفرت انگیز تقریر کے الزام میں- اس کی واضح مثال ایکسپریس ٹرائبون کے صحافی بلال فاروقی ہیں- جن کی سوشل میڈیا پوسٹ پر ایک ایف آئی آر ڈیفینس تھانے میں ایک ایسے آدمی کی مدعیت میں درج کی گئی جو انگریزی جانتا نہیں لیکن اس نے ان انگریزی پوسٹوں سے اپنے جذبات مجروح ہونے اور منافرت انگیز تقریر سمجھ لی- شاید سونگھ لی ہو-

 

پاکستان میں مذہبی و نسلی جبر کا شکار گروہوں کے حق میں لکھنے والے صحافی ازحد غیر محفوظ ہیں- ریاستی ادارے  ایسے صحافیوں پر مقدمات کا اندراج کرنے کی شہرت رکھتے ہیں- جبکہ مذہبی و نسلی منافرت پھیلانے والے ایسے صحافیوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کرتے اور دھمکیاں دیتے ہیں- فریڈیم نیٹ ورک نے بتایا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ستمبر 2019 سے ستمبر 2020 تک کل 62 اجلاس کیے اور کسی ایک اجلاس کے ایجنڈے میں صحافیوں کے تحفظ کا ایشو شامل نہیں تھا- یہی معاملہ پاکستان میں اقلیتوں کا بھی ہے- انسانی حقوق کی وزرات، نیشنل انسانی حقوق کمیشن اور قومی اقلیتی کمیشن یہ سب کے سب مذہبی حبر اور عتاب کو روکنے میں غیر موثر ثابت ہورہے ہیں- عالمی برادری ہمارا مذاق بناتی ہے جب ہم فلسطین ، کشمیر، یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے تعصب اور امتیازی سلوک کے خلاف بین الاقوامی فورمز پر تقریریں کرتے ہیں-

%d bloggers like this: