قلعہ کہنہ
ملتان کی قدامت کی ایک نشانی قلعہ کہنہ ہے. جسے اب باغ قاسم بھی کہتے ہیں.
یہ قلعہ تاریخی, مذہبی, روحانی اور ثقافتی حوالوں سے اپنے اندر وی خزینے لیے ہوئے ہمیں کا احاطہ کرنا مشکل ہے
.
تاریخ یہ بتانے سے قاصر ہے کہ یہ قلعہ کب اور کس نے تعمیر کرایا. البتہ اس کا پیٹ چاک کر کے اندر جھانکنے والے سر الیگزینڈر کنگھم ٹھوس کی تحہ سے جو آثارات پائے ہیں وہ سات ہزار سال قبل کے ہیں.. انہوں نے چالیس فٹ تک گھدائی کی تھی
جبکہ ملتان کے ابن حنیف نے 60 فٹ گہرائی سے ایسی بے شمار چیزین دریافت کیں جن کو دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہنا پڑتا ہے کے ملتان کا قلعہ ہڑپہ کے قلعہ سے کہیں زیادہ قدیم ہے. اس کی قدامت کے 7,8 ہزار سال کے شواہد دستیاب ہیں.
قلعہ کے اندر اسٹیڈیم قیام پاکستان کے بعد تعمیر ہوا جب اس میں دراڑیں آنا شروع ہوئیں تو فیصلہ ہوا اس کے ستون اور گہرائی سے بنائے جائیں. اس مقصد کے لیے 94 فٹ تک کہتے ٹور کئے گئے. حسین آگاہی چوک سے قلعہ کی بلندی 50 تا 55 فٹ ہے.
اس طرح مذکورہ ٹور سطح زمین سے 35 فٹ گہرے تھے. ان سوراخوں سے مندرجہ ذیل اشیا برآمد ہوئیں دھات کے سکے,ھڈی کی چوڑیاں,
پتھروں کی مختلف اشیا, مٹی کے کھلونے, پکی مٹی کے ظروف, مختلف شکل و حجم کی اینٹیں, مٹی کے چراغ, تمباکو کی چلم, دھات کے برتن, گھونگھے, جلی ہوئی لکڑی کے ٹکڑے وغیرہ
ابتدا میں قلعہ ڈیڑھ میل کے گھیرے میں ہشت پہلو بنا ہوا تھا. جس کی باقاعدہ فصیل تھی جو اب منہدم ہوچکی ہے 1947 تک کے آثار باقی تھے. فصیل اتنی چوڑی تھی جس پر کئی گھڑ سوار برابر دوڑ سکتے تھے. اس پر 26 برج تھے
قلعہ پر گولہ باری یا تیر اندازی دوران جنگ تین دمدمہ تھے. جن میں سے ایک موجود ہے. جس کو ملتان کے سید یوسف رضا گیلانی نے دوبارہ تعمیر کرایا ہے.
اس میں کوئی شک نہیں کے سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان کو اس کی اصلی حالت میں بحال کیا بلکہ ایک بین الاقوامی شہر بنا دیا ہے.
دوسرا دمدمہ حسین آگاہی کی جانب تھا اور تیسرا پرہلاد بھگت مندر کے مشرقی سمت تھا. بیرونی لشکر ہمیشہ مشرق و جنوب سے حملہ آور ہوتے رہے
اس لئے مغربی دمدمہ ان کی یلغار سے محفوظ رہا. قلعہ ملتان کے چار دروازے تھے. ہر دروازہ پر علیحدہ علیحدہ برج بنا ہوا تھا
.
دیہہ دروازہ
یہ مغربی سمت واقع تھا اب یہ باب القاسم کہلاتا ہے. دیہہ دروازہ آدیتہ دیوتا کے مندر سے منسوب تھا.لوہاری دروازہ کی طرف کھلتا تھا. ملتان قلعہ کے دروازہ دیکھنے میں اپنی مثال آپ تھے
.
خضری دروازہ
.
یہ شمال مشرق کی سمت عید گاہ کی طرف کھلتا تھا. یہ سید خضر خان ملتانی کے نام سے منسوب تھا. جو تیمور کے حملے کے وقت ملتان کا گورنر تھا
.
سکی دروازہ
.
یہ جنوب مشرق کی جانب قلعہ سکہ کی طرف کھلتا تھا جو سیتل ماڑی کے قریب ملتان سے دنیا پور جانے والی پرانی سڑک پر واقع ہے
.
ریڑی دروازہ. یہ بھی حسین آگاہی کی طرف کھلتا تھا یہاں غالبا ڈھلان تھی. اس کی وجہ سے اس کا نام ریڑھی دروازہ تھا
.
بعض مورخین کا خیال ہے کے قلعہ میں داخل ہونے کے لیے ریڑھ دروازہ سے اندروں شہر راستہ مسقف تھا. جس کے ذریعے قلعہ اور شہر میں عوام و خواص بحفاظت آ جاسکتے تھے.
غربی دروازہ اس کا پھاٹک اور فوجیوں کی بارکین 1925 تک قلعہ پر موجود تھیں قلعہ پر سے ایک سرنگ چوک شاہ مجید سے ہوتے ہوئے
دربار پیر صاحب تک جاتی تھی سکھوں کے حملے کے وقت اسی سرنگ کے راستہ بعض خواتین نے روپ بدل کر اپنی جانیں اور عصمتیں بچائیں.
انگریز مؤرخین کی رائے میں ایسا زبردست, مستحکم قلعہ تمام برصغیر و پاک و ہند میں نا تھا. اس کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ
یہ قلعہ بہت اونچے پشتہ پر تعمیر کیا گیا تھا. جہاں سے میلوں دور اردگرد کا علاقہ نظر آتا تھا.
اس قلعہ کے دو حصار تھے. جبکہ عام طور پر ایک ہی حصار کافی سمجھا جاتا تھا. اس قلعہ پر ایک حصار جو اندرونی تھا پختہ اینٹوں کا بنا ہوا تھا. اور 40 فٹ تک بیرونی حصار سے اونچا تھا.
اس طرح یہ پشتہ اندرونی پشتے کو گولہ باری سے محفوظ رکھنے کے کام آتا تھا.
قلعہ کی حفاظت کے لئے ڈھور کوٹ پشتہ کے بنا بریں ایک گہری خندق بھی تھی
جو قلعوں کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے اپنی لپیٹ میں لی ہوئی تھی. جس میں ہر وقت پانی بھرا رہتا تھا. یہ پانی دریائے راوی سے
ایک نہر کے ذریعے لایا جاتا تھا. اس قلعہ کا اندرونی محیط چھ ہزار دو فٹ تھا. قلعہ کی اندرونی فصیل پر چالیس برج تھے. جس پر ہر وقت چاق و چوبند فوجی کھڑے پہرہ دیتے تھے.
اس قلعہ کا چپہ چپہ اپنے اندر یادوں کا خزانہ لئے ہوئے ہے.
جہان اس وقت انگریزون کی فتح کی یادگار ہے یہاں کبھی ہندوؤں کا عظیم سورج مندر تھا جسے قرامطیون نے زمیں بوس کر دیا تھا. اس پر مسجد تعمیر کرائی. جس کو بعد میں محمود غزنوی نے گرادیا.
اس قلعہ پر حضرت بہاؤالدین زکریا ملتانی, حضرت صدرالدین, شاہ رکن عالم, چھپ سائیں, مولانا حامد علی خان, نواب مظفر خان شہید کے مزارات ہیں
.
یہان پر ہندوؤں کی قدیم عبادت گاہ پرہلاد مندر ہے. بعض روایات کے مطابق ہندوؤں کا مشہور تہوار ہولی کا موجد یہین مندر ہے. یہ مندر ظلم کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دیتا ہے
.
یہان پر میں یہ ذکر لازمی سمجھتا ہوں کہ ولی عہد مراد نے سولہویں صدی میں ملتان کی فصیل کی از نو تعمیر کی.اس کے سید یوسف رضا گیلانی نے ملتان قلعہ اور ملتان کے تاریخی مقامات کے لئے فنڈ دیے جس سے
ملتان دیکھنے کے لیے لوگوں کی سیر و سیاحت میں اضافہ ہوا. آپ نے ملتان کے لئے بہ بہا فنڈ مختص کئے جس سے ملتان نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کی. ملتان کے لوگ دوبارہ سید یوسف رضا گیلانی کے وقت کے انتظار میں ہیں تاکہ ملتان کو اس کی اصلی حالت میں بحال کیا جا سکے
.
ضرورت اس بات کی ہے کہ قلعہ ملتان اور اس کی ثقافت کو محفوظ کیا جائے تاکہ ملتان کو انٹرنیشنل ٹورسٹ سٹی بنایا جاسکے
.
ملتان اور دمشق اتنے پرانے ہین جن کی تاریخ دان کوشش کرنے کے باوجود تاریخ کا پتا نہیں لگا سکے
.
قلعہ کو از سر نو اس کی قدیمی حالت میں بحال کیا جائے یہ ہر ملتانی اور سرائیکی وسیب میں رہنے والے کی خواہش ہے
.
تحریر و تحقیق سلطان کلاچی
اے وی پڑھو
چوکیل بانڈہ: فطرت کے دلفریب رنگوں کی جادونگری||اکمل خان
ڈیرہ کی گمشدہ نیلی کوٹھی !!||رمیض حبیب
سوات میں سیلاب متاثرین کے مسائل کی درست عکاسی ہو رہی ہے؟||اکمل خان