مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

گریٹر بلوچستان اور گریٹر کردستان کی داستان۔۔۔عزیز سنگھور

ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ بھر سےلاکھوں ایکڑ اراضی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہیں۔

عزیز سنگھور

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جنوبی بلوچستان ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کے تحت بلوچستان کے عوام کو ذہنی طورپر تیار کیا جارہا ہے کہ مستقبل میں بلوچستان کو انتظامی امور کی بنیادوں پر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں جنوبی بلوچستان کا نام میڈیا کی زینت بنایا جارہا ہے۔ مکران اور جھالاوان ناموں کو مٹایا جارہا ہے۔ حالانکہ ان ناموں کے پیچھے ایک تاریخ وابستہ ہے۔۔ ریاست مکران کی اپنی تاریخ ہے۔ جبکہ جھالاوان ریاست قلات کا ایڈمنسٹریٹیو ڈویژن تھا۔ ایک پالیسی کے تحت اس تاریخ کو مسخ کیا جارہا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرنا قوموں کو مسخ کرنے کا مترادف ہوتاہے۔
یہ پلان برطانوی نوآبادیاتی نظام سے مماثلت رکھتا ہے۔ نو آبادیاتی نظام سے مراد کسی ایک علاقے کے لوگوں کا دوسرے علاقے میں جا کر اپنی نئی آبادیاں قائم کرنا اور اردگرد کے علاقوں پر قبضہ کر کے اسے توسیع دینا ہے۔ جہاں یہ نوآبادی قائم کی جاتی ہے وہاں کے اصل باشندوں پر قابض گروہ عموماً اپنے قوانین، معاشرت اور حکومت بھی مسلط کر دیتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ قابض گروہ اور نوآبادی کے اصل باشندوں کے درمیان نا انصافی اور جبر پر مبنی ایک تعلق ہے جس میں اصل باشندوں کا استحصال ہوتا ہے۔
ماضی میں عالمی قوتیں بلوچوں اور کردوں کی طاقت سے خائف تھی۔ کیونکہ دونوں اقوام نفسیاتی طورپر غلامی کو قبول نہیں کرتی۔ انگریزوں نے بلوچ قوم کے بارے میں کہا تھا کہ بلوچ قوم صرف عزت کی بھوکی ہے۔ عزت دوگے تو یہ تمہیں بدلے میں امن اور چین کی نیند دیں گے، اگر انکو عزت نہیں دوگے، تو اس خطے کا امن نہیں ہوگا اور آپکی راتوں کی نیند حرام ہوگی۔ اور کردوں کے بارے میں کہا تھا کہ کرد پیدائشی جنگجو ہوتے ہیں۔ ان سے لڑنا ممکن نہیں ہے۔
اس بنیاد پر دونوں اقوام کی طاقت کو کمزور کرنے کے لئے ان کی سرزمین کو جغرافیائی بنیادوں پر تقسیم کیاگیا۔ مختلف ممالک کے درمیان بانٹاگیا۔ جس سےان کی سیاسی اور عسکری طاقت تقسیم ہوگئی۔اس پالیسی کے تحت ماضی میں سامراجی قوتوں نے بلوچستان کو مختلف ممالک میں تقسیم کردیا۔ جس کے نتیجے میں آج گریٹر بلوچستان آپ کو ایران، پاکستان، اور افغانستان میں ملے گا۔ تقسیم در تقسیم کی پالیسی دراصل بلوچوں کو سیاسی و عسکری طورپر کمزور کرنا تھا۔ ان کی اکثریت کو توڑ کر اقلیت میں تبدیل کروانا تھا۔ ان کی طاقت کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم کرنا تھا۔ تاکہ بلوچ کمزور سے کمزور ہو سکیں اور حکمران ان پر حکمرانی کرتے رہیں۔
وہی کھیل کردوں کے ساتھ بھی کھیلا گیا۔ پہلی جنگ عظیم سے اب تک کردستان 4 ممالک میں تقسیم کیاگیاہے۔ جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام اہم ممالک ہیں۔کرد تین سو سال قبل مسیح سے ایران سے شام تک پھیلے ہوئے اس علاقہ میں آباد ہے۔ جسے کرد کردستان کہتے ہیں۔ اور انہی میں سے صلاح الدین ایوبی ابھرے تھے۔ جنہوں نے جنگوں میں اپنی فتوحات سے بڑا نام پیدا کیا۔
سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد مشرق وسطیٰ میں کئی نئی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں لیکن آزاد خودمختار مملکت کے بارے میں کردوں کو ایک سازش کے تحت مختلف ریاستوں کے حوالے کیاگیا۔ حالانکہ انیس سو بیس کے سیورے کے معاہدہ میں جس کے تحت عراق شام اور کویت کی آزاد مملکتیں وجود میں آئیں کردوں کی ایک آزاد مملکت کا وعدہ کیاگیا تھا۔لیکن ترکی میں مصطفیٰ کمال اتاترک کے برسرِاقتدار آنے کے بعد ترکی نے اور اس کے ساتھ ایران اور عراق نے کردوں کی آزاد مملکت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔
آج مکران اور جھالاوان کو نیا نام دیاگیا۔ ان دونوں تاریخی علاقوں کو جنوبی بلوچستان کا نام دیاگیا ہے۔ جس کے تحت موجودہ بلوچستان کو انتظامی طورپر دو حصوں میں تقسیم کرنا ہے۔ جبکہ سرکاری طورپر بلوچستان میں ایک اور نیا صوبہ بنانے کی نہ تصدیق کی جارہی ہے اور نہ ہی اس کی تردید ہورہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق ضلع پنجگور، ضلع کیچ، ضلع گوادر، ضلع لسبیلہ، ضلع آواران اور ضلع خضدار پر مشتمل انتظامی امور کی بنیاد پر ایک نیا صوبہ بنانے کی ذہن سازی کی جارہی ہے۔ جس کا دارالحکومت گوادر ہوگا۔
حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے بار بار جنوبی بلوچستان کا ذکر کیا۔ اور اس سلسلے میں انہوں نے وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی اسد عمر کو دورہ مکران کی ہدایت کی۔ اس ہدایت کے تحت انہوں نے مکران ڈویژن کا دورہ بھی کیا۔ جہاں انہوں نے مختلف وفود سے ملاقاتیں کیں۔ ایک اطلاع کے مطابق اس سیاسی اصطلاح کو پایہ تکمیل پہنچانے کے لئے 150 ارب روپے کے اسپیشل پیکج کا اعلان کیا جائیگا۔ یہ اعلان گوادر کے دورے کے دوران وزیراعظم عمران خان خود کریں گے۔
ظاہری طورپر مکران اور جھالاوان کے لئے 150 ارب کا یہ پیکج ایک ترقیاتی پیکج ہے۔ اور یہ باور کرانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے کہ وہ بلوچستان کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دیں گے۔ جہاں بڑے بڑے منصوبے بنائے جائیں گے۔ علاقے میں ترقی اور خوشحالی آئےگی لیکن اس اسپیشل پیکج کے پیچھے ایک ذہنیت کار فرماہے۔ اس ترقی کے ثمرات بلوچستان کے عوام کے لئے نہیں ہے۔ بلکہ یہ ثمرات باہر سے آنے والے لوگوں کے لئے ہونگے۔
بلوچستان کی ساحلی پٹی ساڑھے سات سو کلومیٹر طویل ہیں۔ یہ پٹی ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ کی حدود میں آتی ہے۔ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں رہائشی منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ لوگوں کو یہاں لاکر بسایا جارہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کی موجودہ آبادی سے دوگنی آبادی کو بسانے کا منصوبہ جاری ہے۔
ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھنے والے افراد گوادر پورٹ کی تعمیر کے دور میں آئے تھے۔ ریئل اسٹیٹ بزنس سے تعلق رکھے والوں کا اسلام آباد، لاہور، کراچی، فیصل آباد، پنڈی، دبئی سمیت دیگر ممالک سے تعلق ہیں۔
ضلع گوادر اور ضلع لسبیلہ بھر سےلاکھوں ایکڑ اراضی حاصل کی جارہی ہے۔ یہ اراضی مقامی افراد کی ملکیت ہیں۔ ان کے پاس مالکانہ حقوق بھی موجود ہیں۔ مقامی افراد کی زمینوں کی ملکیت ان کی مرضی اور علم کے بغیر تبدیل کی جارہی ہے اور انہیں ان کی ملکیت سے محروم کیا جارہا ہے۔
ایک اطلاع یہ ہے کہ گڈانی کے ساحل پر ایک پورٹ بنایا جائےگا۔ موجودہ گڈانی شہر کی آبادی تیس سے چالیس ہزار کے لگ بھگ ہیں۔ پوری آبادی ہٹادی جائے گی۔
تقسیم در تقسیم کے نتائج سے قوموں کے درمیان رابطہ کا خلا پیدا ہوجاتا ہے۔ جس کے نتائج بڑے گھمبیر ہوتے ہیں۔ ان کی آپس میں معاشرتی اور سماجی دوریاں پیدا ہونگیں۔ ماضی کی تقسیم ہمارے سامنے ہے۔ جس کی وجہ سے آج پاکستانی بلوچستان کے بلوچ قوم کی ایرانی اور افغانستان کے بلوچوں سے معاشرتی اور سماجی دوریاں پیدا ہوگئیں۔ جس سے وہ سیاسی طورپر کمزور ہوگئیں۔
انتظامی امور پر تقسیم خطے میں ایک اور نئی معاشی منڈی تشکیل پاتی ہے۔ موجودہ دنیا ایک مادی دنیا ہے۔ جس میں خونی رشتے کمزور پڑھ جاتے ہیںَ۔ سارے رشتے کاروبار، جائیداد اور ملکیت سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ معاشرے میں رشتے پیسوں کی بنیاد پر قائم ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جس سے قومی رشتے ختم ہوجاتے ہیں۔ یہ سارے ہتھکنڈے جنوبی بلوچستان کے نام سے عمل درآمد ہونگے ۔ کیا سیاسی جماعتیں ان سارے چیلنجز کے لئے تیار ہیں؟۔ کیا ان کے پاس کوئی سیاسی حکمت عملی موجود ہے؟۔ کیا وہ تقسیم در تقسیم والی پالیسی کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟ْ۔ میرے خیال میں سیاسی جماعتوں کے پاس جواب نفی میں ملے گا۔ شاید وہ بھی اس انتظامی تقسیم کو قبول کرینگے۔ کیونکہ ان کی سیاست بھی کاروبار اور پیسوں سے منحصر ہیں۔

%d bloggers like this: