پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی فیڈرل ایگزیکٹو کونسل نے ملک میں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی پر مکمل پابندی پرتشویش کا اظہار کیا ہے جس کی ضمانت 1973ء میں دی گئی ہے پی ایف یو جے نے کہا کہ جب سے عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی کی حکومت برسراقتدارآئی ہے میڈیا اوراظہار رائے کی آزادی پر پابندی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے حکومت اور میڈیا دشمن طاقتیں آزادی اظہار کے خاتمے اور میڈیا ہاوسز کو سرکاری لائن پرچلنے پر مجبور کر رہی ہیں دوسری صورت میں انہیں حکومت کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس تشویش کا اظہار پی ایف یو جے کی ایف ای سی نے اپنے اجلاس کے اختتام پرجاری کردہ اعلامیہ میں کہی۔
یہ اجلاس پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر شہزادہ ذوالفقار کی صدارت میں 25سے 27ستمبر تک کوئٹہ میں منعقد ہوا جس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کی ایف ای سی کے منتخب ارکان کے علاوہ ملک بھر سے جرنلسٹس یونین کے صدراورسیکرٹریز نے شرکت کی اجلاس کی میزبانی بلوچستان یونین آف جرنلسٹس نے کی یہ اجلاس پی ایف یو جے کے جنرل سیکرٹری ناصرزیدی نے میڈیا انڈسٹری پر پابندیوں پر غور کیلئے طلب کیاتھا۔اجلاس میں کہا گیا کہ۔ آزاد میڈیا کی آواز کو دبانے کیلئے غیراعلانیہ سنسر شپ،مالکان کو ٹیلی فون پر دھمکیاں، صحافیوں کے اغوا اور مالکان کیلئے مالی مشکلات پیدا کرنے جیسے تمام حربے استعمال کئے جارہے ہیں پہلے قدم کے طور پر موجودہ حکومت نے میڈیا انڈسٹری کے مالی وسائل پر کٹ لگانے کیلئے میڈیا ہاؤسز کے واجبات پرسوال اٹھانے شروع کئے اور انکے واجبات کی ادائیگی روک دی جبکہ میڈیا کے مالکان نے اسکے جواب میں وسیع پیمانے پر ملازمین کی چھانٹی شروع کردی کئی اخبارات کے ایڈیشن بند کردیئے اور مہینوں کے حساب سے ملازمین کی تنخواہوں پر کٹوتی اور ادائیگی میں تاخیر کرنا شروع کردی ورکنگ جرنلسٹس نے ان اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل کر احتجاج شروع کیا لیکن حکومت نے انکے ساتھ ایک فوجی ڈکٹیٹر شپ کی طرح سے سلوک کیا حکومت کی اس پالیسی کے نتیجے میں اصل نشانہ ورکنگ جرنلسٹس بنے اور وہ ابھی تک اسکا سامنا کررہے ہیں اسی طرح مالی پابندیوں کے ساتھ ساتھ حکومت نے میڈیا کی مائیکرو مینجنگ شروع کردی اور میڈیا کو کھلم کھلا اور خفیہ کالز کے ذریعے ہدایات جاری کرنا شروع کردیں اور میڈیا کا بازو مروڑنے کیلئے گائیڈ لائنز کی فہرست میں بھی اضافہ کردیااور میڈیا کو سلف سنسر شپ پر مجبور کردیا جسکی نظیرماضی میں نہیں ملتی حتیٰ کہ فوجی حکومتوں میں بھی ایسی صورتحال نہیں تھی۔
اجلاس میں کہا گیا کہ ٹیبلشمنٹ نے جوحربے استعمال کئے ان میں غیراعلانیہ سنسرشپ،صحافیوں پر دباؤ ڈالنے اورانکی بات نہ ماننے والے صحافیوں کواغواء اورگرفتاریوں جیسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔اجلاس میں کہا گیا کہ ریاست کی طرف سے آئین کی شق 19کی خلاف ورزی معمول بن گئی ہے پی ایف یو جے کا یہ اجلاس وزیراعظم عمران خان کی سربراہی میں قائم تحریک انصاف کی حکومت کو براہ راست میڈیا پر قدغن اور موجودہ بحران کا ذمہ دار سمجھتا ہے ایف ای سی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ اپنی میڈیا دشمن پالیسی کو فوری طور پر ترک کرے اور میڈیا انڈسٹری کے نمائندوں پی ایف یو جے،سی پی این ای،اے پی این ایس،پی بی اے اورسول سوسائٹی جس میں ایچ آرسی پی اورپی بی سی کے ساتھ بیٹھ کر معاملات پر قابل فہم بات چیت اور سمجھوتہ کرے اور حکمران پارٹی اپنے منشور کے مطابق میڈیا کی آزادی کی ٹھوس ضمانت دے۔
پی ایف یو جے کے اجلاس میں اس بات پر زوردیا گیا پی سی پی اور پیمرا وزارت اطلاعات کو کنٹرول سے آزاد کیا جائے اوراسے سرکاری محکموں کے برعکس آزادی کے ساتھ کام کرنے دیا جائے اوراسے محض سرکاری ایجنڈے کو بڑھانے اوراپوزیشن پرکیچڑ اچھالنے کیلئے استعمال نہ کیاجائے بلکہ تمام طبقات کی یکساں نمائندگی کیلئے آزادانہ مواقع فراہم کئے جائیں۔ایف ای سی وفاقی دارالحکومت اور ملک کے دوسرے حصوں سے صحافیوں کے اغواء اور ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے چیف ایڈیٹر میر شکیل الرحمن کی کئی سال پرانے زمین کی خریداری کے کیس میں گرفتاری پر شدید تشویش کا اظہارکرتی ہے میرشکیل الرحمن ابھی تک نیب کی تحویل میں ہیں جس سے ریاستی اداروں کا اظہار رائے کی آزادی اور پریس فریڈم کی آئینی ضمانت کے بارے میں حکومت کے معاندانہ رویے کا اظہارہوتا ہے۔
ایف ای سی کا اجلاس حکومت کی جانب سے سوشل میڈیا کو کنٹرول میں لانے کیلئے متعلقہ قواعد و ضوابط میں تبدیلی اور نئے کالے قانون بنانے کی مسلسل کوششوں کی پرزورمذمت کرتا ہے۔اسکے ساتھ ساتھ یہ اجلاس مختلف ٹی وی چینلز سے وابستہ خواتین صحافیوں کونامعلوم ٹرولنگ گروپ کی طرف سے ہراساں کرنے اور ٹرولنگ کے بڑھتے ہوئے واقعات کی بھی سختی سے مذمت کرتا ہے اس طرح کے واقعات بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کے وژن کے بھی خلاف ہیں اس طرح کے واقعات اوررویے ان افراد کے لئے دل شکنی کا باعث ہیں جو پاکستان کو ایک ایسا جمہوری ملک دیکھنا چاہتے ہیں جس میں لوگوں کو بلاتفریق انسانی بنیادی حقوق میسر ہوں اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ پیمرا کی طرف سے جاری کی جانے والی میڈیاایڈوائس فوری طور پر واپس لی جائیں صحافیوں اور میڈیا ہاوسزپرحملے بند کئے جائیں۔یہ اجلاس مشکوک ریڈیو اسٹیشن اور ٹیلی وژن چینلز کوشروع کرنے کی بھی مذمت کرتا ہے اور سمجھتا ہے عوام اتنے سمجھدارضرور ہیں کہ وہ ان چینلوں سے نشر ہونے والے منفی پروپیگنڈے اور جھوٹی کہانیوں سے گمراہ نہیں ہونگے۔
یہ اجلاس صحافیوں،میڈیا کارکنوں اور صوبوں میں علاقائی میڈیا کے تحفظ اور سلامتی خاص طور پر بلوچستان،خیبر پختونخوا اورسندھ میں انکے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتا ہے کیونکہ صوبائی حکومتوں اور سرکاری مشینری کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے کے تمام طبقات کو تحفظ فراہم کرے۔یہ اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ مہنگائی کومد نظررکھتے ہوئے اشتہارات کے ریٹ کو معقول بنایا جائے اجلاس حکومت سے یہ مطالبہ بھی کرتا ہے کہ وہ وزارت اطلاعات پر واجب الادا 6ارب روپے کی ادائیگی کو بھی یقینی بنائے تاکہ میڈیا انڈسٹری اور صحافی برادری کے مالی مسائل دور ہوسکیں اور کارکنوں کی چھانٹی، میڈیا ہاوسنز کی بندش اور تنخواہوں کی تاخیر سے بچ سکیں۔ ایف ای سی یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت فریڈ م آف پریس اور میڈیاکی آزادی کو یقینی بنائے تاکہ شفافیت،گڈگورننس،جمہوریت کے استحکام اورجمہوری روایات کو فروغ حاصل ہو۔ایف ای سی اس عزم کا اظہارکرتی ہے کہ وہ پریس اوراظہاررائے کی آزادی جسے آئین کے آرٹیکل 19میں ضمانت دی گئی ہے کے لئے جدوجہد جاری رکھے گی اور ملک بھر میں صحافی برادری کے آئینی حقوق کے لئے ہمیشہ کی طرح اپنا کردارادا کریگی۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور