عبدالرزاق کھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے اقتداری ڈھانچے کے دو ادوار ہیں۔ پہلے ڈھانچے میں بھارت کے اترپردیش سے آئی بیوروکریسی نے پنجاب کی بیوروکریسی سے اتحاد کیا، جاگیردار اور مذہبی قوتیں اس کی فطری اتحادی بن گئیں، پچاس کی دہائی میں فوج اس اتحاد کا حصہ بنی، جس نے تیزی سے اس پر کنٹرول حاصل کر لیا، بعد کے آنے والے برسوں میں شہری صنعت کار بھی اس گروہ کا حصہ بن گئے۔
دوسرا دور بھٹو کا دور تھا۔ ان کی حکومت صرف دو سال ہی اپنے اختیار کے تحت چلی، جس کے بعد پاکستان کی فوج نے خود ملکی معاملات کو سنبھالنا شروع کر دیا، اور اگلے چند سالوں میں مکمل طور پر واپس اسی قوت سے موجود نظر آتی ہے۔
وہ بیورو کریسی، مذہبی قوتیں، جاگیردار یا صنعت کار جو پاکستان کے اقتداری ڈھانچے میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ اب ان سے مشاورت کی زیادہ ضرورت نہیں تھی کیونکہ پاکستان کے حقیقی اقتدار کا منبع فوج ہی تھی۔ آنے والے دنوں میں جب سندھ میں ایم کیو ایم بنی تو وہ بھی ملک کی اسٹیبلشمنٹ کی اتحادی تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ مہاجر بیورو کریسی کا اثر ختم ہوتا رہا، لیکن ایم کیو ایم کسی نہ کسی شکل میں اسٹیبلشمنٹ کے اثر میں رہی۔
اس سارے عرصے میں پاکستان میں عوام کی سیاست کرنے والی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے زیر عتاب رہی ہیں۔ چور، کافر، غدار قرار دینے والی روایت آج کی نہیں، یہ اتنی ہی پرانی ہے۔ جتنی وطن عزیز کی عمر ہے لیکن ہر بار اس روایت کو نیا چوغہ پہنا کر نئے انداز میں پیش کر دیا جاتا ہے۔
اب پچیس کے پیٹے کی نوجوانوں کی اکثریت مکمل طور پر ملک کی اسٹیبلشمنٹ کے بیانئے کی پیروکار نظر آتی ہے۔ یہ ایسے ہی نہیں ہوا، انہیں ضیا الحق کے دور کا نصاب پڑھایا گیا۔ نسیم حجازی تو ان میں سے کسی نے پڑھا یا نہیں، لیکن ارطغرل جیسے ڈرامے نے ان کی ذہنی کایا ہی پلٹ دی ہے۔ آج کے نوجوان فخر سے بتاتے ہیں کہ ”کوویڈ کے دنوں میں انہوں نے ارطغرل کو فرصت سے دیکھا، لگتا ہے کہ ہم اندر سے تبدیل ہو گئے۔ ہمارا تو ایمان ہی تازہ ہو گیا“ ۔
اگر ایک ڈرامہ لوگوں کا ایمان تازہ کردے تو پھر کوئی پاگل ہے جو باقی شعبوں میں سرمایہ کاری کرے، سودا سستا تھا۔ تجربہ کامیاب رہا۔
عمران خان نے اس ڈرامے کو لوگوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا اور اب ایک اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان تلواروں اور گھوڑوں والا ہونا چاہیے، داڑھی والے سپاہی اور خوبصورت خواتین خوبصورت ترک لباس میں ملبوس ہوں، انہیں دوسرا ترکی نہیں دکھایا گیا جو آپ کی آنکھوں کو خیرہ کر دیتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ملک میں خلافت عثمانیہ کا دور پھر شروع ہو، اور ہر طرف امن ہو۔
یہ یک طرفہ بیانیہ ہے۔ اگر آپ آج کے نوجوان کو یہ بات بتائیں گے تو اسے آپ کے ایمان پر شک ہوگا، کیونکہ اسے اب اس بات کا یقین دلایا جا چکا ہے کہ پاکستان میں ان ہی لوگوں کو رہنے کا حق ہے جو ان کی طرح بولتے ہیں۔ سوچتے ہیں اور اپنا ایک یگانہ نظریہ رکھتے ہیں۔ اس سرزمین پاک پر باقیوں کی گنجائش نہیں، کیونکہ درسی کتابوں، میڈیا میں بیٹھے اوریاؤں، مبلغ جمیلوں نے اور اب ارطغرل نے ان کی ایمان کی پختگی میں اضافہ کیا ہے۔ اس سب ہونے کے بعد اب پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو کسی کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت نہیں۔ اب وہ ہی سب کی ضرورت ہے۔ سیاسی بصیرت سے مالامال، ایمان والے، دین اور دنیاوی دولت والے، دانشور، مفکر، سارے قطار میں کھڑے ہیں۔ خوشنودی مل جائے تو وہ اپنی خدمات ان کے نام کرنے کے لئے تیار ہیں!
ایک ایسے ملکی منظرنامے میں آپ تصور کر سکتے ہیں کہ کوئی پاگل اٹھے اور ملک کے جاگیرداروں کی زمینوں پر پولیس کو لے جائے اور وہاں غیر انسانی زندگی گزارنے والے کسانوں کو رہا کروا دے۔ ہمارے آج کے نوجوان شکیل پٹھان کے نام سے یقیناً واقف نہیں ہوں گے، انہیں شاید یہ ایک تصوراتی بات لگے، لیکن یہ سچ ہے۔
پاکستان میں بائیں بازو کے سیاسی رہنماؤں نے پاکستان کے سیاسی کلچر میں کوئی اہم کردار نہ ملنے کے باعث نوے کی دہائی میں انسانی حقوق کمیشن کی بنیاد ڈالی، تاکہ ملک کے استحصال زدہ لوگوں کی داد رسی کی جاسکے۔ نوے کی دہائی میں انسانی حقوق کمیشن ایک با اثر سیاسی ادارہ بن چکا تھا جس نے ملک کے بڑے زمینداروں اور جاگیرداروں کا جینا حرام کر دیا تھا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں قانون سازی کے ذریعے سیشن ججز کو انسانی حقوق کا ڈائریکٹر بنایا گیا اور ایک عام شہری کی درخواست پر سیشن ججز کی جانب سے اس پر ایکشن لینا ضروری تھا۔ سندھ میں انسانی حقوق کی ٹاسک فورس بنائی گئی جس کا کوآرڈینیٹر شکیل پٹھان کو بنایا گیا کیونکہ شکیل انسانی حقوق کمیشن کے بنیادی بیس ارکان میں شامل تھے۔
پاکستان میں جن لوگوں نے ایم آر ڈی کی تحریک کا دور دیکھا ہے۔ انہیں اندازہ ہے کہ سیاست کس رومانس کا نام تھا۔ سندھ سمیت ملک بھر میں نہتے لوگوں پر جس طریقے سے ضیا الحق کی حکومت نے مظالم ڈھائے، وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ شکیل پٹھان اس دور جبر میں ایم آر ڈی سندھ کا جنرل سیکریٹری رہا، اس کے بعد انہوں نے معراج محمد خان کی جانب سے بنائی گئی جماعت قومی محاذ آزادی میں کام کیا، پابند سلاسل رہے، لیکن بھوک اور مفلسی ان کے نظریات کے درمیان حائل نہ رہی۔ یہ وہ دور تھا جب سیاسی جدوجہد کے بدلے میں گھر کے لوگ طعنے نہیں دیا کرتے تھے۔ تب کرپٹ سے زیادہ خراب عوام دشمن حکومت کا طرفدار ہوا کرتا تھا۔ اب دور بدل چکا اور عوام دشمن قوتوں کے طرفدار ہی معتبر ٹھہرتے ہیں۔
شکیل پٹھان نے حیدرآباد سے اپنا کام شروع کیا، اور سندھ میں انسانی حقوق کے علمبردار کے طور پر جانے جانے لگے، عام کسانوں کے لئے وہ اس دور کا سپر ہیرو تھا کیونکہ وہ ان کی آزادی کی نوید تھا۔ سندھی میڈیا نے خصوصاً انسانی حقوق کمیشن اور ٹاسک فورس کے کام کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ شکیل پٹھان کی جدوجہد کے نتیجے میں نوجوانوں کا سندھ میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہوا جنہوں نے انسانی حقوق کے لئے کام کرنا شروع کیا، اب ان کی بات سنی جاتی تھی۔ کسان دھڑادھڑ آزاد ہونے لگے، ان کے گاؤں بن گئے جنہوں نے اپنی ایک آزاد زندگی کا آغاز کیا۔ انسانی حقوق ٹاسک فورس کے کام کے نتیجے میں سیاسی کلچر بھی تبدیل ہوا، وہ جاگیر دار اور بڑے زمیندار جن کی زمینوں پر چھاپے مارکر کسانوں کو آزاد کرا کے عدالت سے آزادی کے پروانے جاری کرائے جاتے تھے۔ سیاسی اثر و رسوخ کے باوجود جاگیردار یا بڑے زمیندار اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ کسانوں کی آزادی کی جدوجہد کرنے والے فورم کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتے۔
لیکن یہ دور زیادہ دیر نہ چل سکا، اس خطے کی کم نصیبی ہی کہا جائے کہ ایک تو عوام دوست لوگ پیدا کم ہوتے ہیں اور اگر پیدا ہو بھی جائیں تو یا تو جلد ختم کر دیے جاتے ہیں یا ختم ہو جاتے ہیں۔ شکیل پٹھان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، گیارہ اگست انیس سو اٹھانوے کو وہ سندھ کے ضلع عمر کوٹ سے ایک ورکشاپ کے بعد حیدرآباد کی طرف واپس آرہے تھے تو ایک حادثے کا شکار ہو گئے جس میں ان کی ریڑھ کی ہڈی شدید متاثر ہوئی، ڈیڑھ ماہ تک وہ بیماری سے لڑتے رہے، اور آخر کار ہار گئے۔ چوبیس ستمبر انیس سو اٹھانوے کو وہ اس جہاں سے کوچ کر گئے جس کے بے کس لوگوں کی زندگی کو بہتر کرنے کا انہوں نے خواب دیکھا، وہ آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئیں۔
اب ایسا نہیں کہ کسان، بڑے زمینداروں کے پاس ایک آزاد زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے بچے اچھے اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ ان کے لباس پر پیوند نہیں ہیں۔ ان کی بچی کی شادی وہ اپنی مرضی سے کرتے ہیں۔ ان بیٹے کے ہاتھ میں اب کھیتوں میں کام کرنے کے لئے کدال کے بجائے کتابیں ہیں۔ کسان کی بیوی کی تھکن اب اس کی پکائی ہوئی روٹی میں نہیں ہوتی، کسی رات من چاہے تو وہ میٹھے پیلے چاول بھی پکا لیتے ہیں۔ ایسا کچھ بھی نہیں، کسان اب بھی وہیں کھڑا ہے۔ جہاں پہلے تھا۔ شکیل ان کی آتش زدہ زندگی میں ایک ایک مختصر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی طرح آیا تھا اور عمر کوٹ کے قریب ایک حادثے میں اچانک گزر گیا۔
زندگی ویسی ہی آتش زدہ ہے لیکن اب اس کا اظہار کہیں نہیں ہوتا۔ کیوں کہ پاکستان میں سیاست نے اپنا انداز تبدیل کر لیا ہے جس ملک میں ایک طویل ریاضت کے بجائے ایک ڈرامہ لوگوں کے سیاسی فکر کا تعین کردے، وہاں شکیل پٹھان اور اس جیسوں کی کہاں گنجائش ہے۔ وہ بھرے میلے کو چھوڑ گئے۔ ان کی کمی تو ہمیشہ رہے گی لیکن باسٹھ برس کی عمر میں وہ آج زندہ ہوتے تو سیاست کو جس طرح اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بے بس اور رسوا کر دیا گیا ہے۔ وہ ان کے لئے زیادہ تکلیف دہ ہوتا۔ وہ بلاشبہ مزاحمت کی علامت تھے۔ ان کے خلاف فتوے بھی دیے گئے لیکن وہ جب تک زندہ رہے، اپنے موقف پر ڈٹے رہے، جینے کے لئے ضروری نہیں کہ انسان سو سال جیئے، ہر آنے والی سانس موت کو شکست دیتی ہے لیکن انسان اپنے عوام دوست نظریے پر ڈٹا رہے تو اسے کوئی بھی موت شکست نہیں دے سکتی، عوام اور اس کی عوام دوست سیاست جب تک زندہ ہے۔ شکیل پٹھان اپنے عمل کے ذریعے زندہ رہے گا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر