مئی 11, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

آل پارٹیز کانفرنس کے اثرات ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

ن لیگ کو گو مگو کی کیفیت سے نکلنا ہو گا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی کو ترک کر کے خلوص نیت سے یکسو ہو کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہو گا

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے زیراہتمام ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس نے پاکستانی سیاست پر عرصہ دراز سے چھائے ہوئے جمود کو ختم کر کے سیاسی میدان میں ایک ہلچل سی پیدا کر دی ہے۔ آل پارٹیز کانفرنس سے سیاسی میدان میں پیدا ہونے والا ارتعاش تھمنے میں نہیں آرہا۔ حکومت کی جانب سے بظاہر یہ کہا جا رہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے فیصلوں سے حکومت کو ذرا برابر بھی فرق نہیں پڑا لیکن وزرا اور ترجمانوں کی پریس کانفرنسوں، جواب در جواب اور وضاحتوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔ کبھی حکومت کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ سب فیصلے وزیراعظم کر رہے ہیں تو کبھی ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ عسکری قیادت کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت اور اداروں کی جانب سے کی جانے والی وضاحتوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے۔ حکومت کچھ بھی کہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں بکھری ہوئی اپوزیشن ایک متفقہ پلیٹ فارم پیپلز ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی یم) کے سائے تلے ایک مضبوط حکومت مخالف اتحاد قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔

چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کافی عرصہ سے آل پارٹیز کانفرنس کے لئے کوششیں کر رہے تھے جس میں بالا آخر وہ اپنے تدبر اور فہم و فراست کے سبب کامیاب رہے۔ زرداری صاحب نے بھی اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ یہ اے پی سی بہت عرصہ پہلے ہو جانی چاہیے تھی۔ لیکن چلیں دیر آئد درست آئد۰ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو ایک قومی جمہوری ایجنڈے پر اکٹھا کرنا پیپلزپارٹی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ اے پی سی کی صورت میں ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کو بھی طویل سیاسی خاموشی کے بعد ایک ایسا پلیٹ فارم میسر آیا جہاں انہوں نے کھل کر اپنے سیاسی موقف اور ارادوں کا برملا اظہار کیا۔ میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں واضح طور پر ن لیگ کی آئیندہ کی سیاست کا رخ متعین کر دیا ہے۔ اگرچہ میاں نواز شریف کی جارحانہ تقریر کو ن لیگ کے محمد زبیر کی چیف آف آرمی سٹاف سے کی جانے والی دو ملاقاتوں کی خبر نے بہت حد تک گہنا دیا ہے لیکن اس کے باوجود امید ہے کہ ماضی کی غلطیوں کو دہرایا نہیں جائے گا اور بلاول بھٹو زرداری جس نئے میثاقِ جمہوریت کی بات کر رہے ہیں اس کی جانب تیز رفتاری سے پیش رفت کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اے پی سی کے فیصلوں پر بھی من و عن عمل کیا جائے گا۔

چونکہ اے پی سی کے اعلامیے میں اپوزیشن کی تحریک کا پورا روڈ میپ دیا گیا ہے جس میں جلسے جلوس کے ذریعے عوام کو متحرک کرنے کے علاوہ جنوری میں حکومت کے خلاف فیصلہ کن ملک گیر لانگ مارچ کی کال بھی شامل ہے۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی تنظیم کا جلد از جلد اعلان کیا جائے تاکہ متحدہ اپوزیشن اپنے اعلان کردہ روڈ میپ کی طرف بغیر کسی تاخیر کے پیش قدمی شروع کر سکے۔

ن لیگ کی طرف سے آرمی چیف کے ساتھ بیک ڈور رابطوں کی خبریں آنے کے بعد ن لیگ پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسری جماعتوں سے ایک قدم آگے بڑھ کر مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے کام کرے تاکہ ن لیگ کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطوں کا تاثر زائل ہو سکے۔ ن لیگ کا ٹریک ریکارڈ اس سلسلے میں کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف بننے والے اتحاد اے آر ڈی کا انجام بھی بہت سے لوگوں کے ذہن میں ہو گا جب اے آر ڈی کی مشرف مخالف تحریک کے نتیجے میں بننے والے دباو کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نواز شریف فیملی جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے جدہ روانہ ہو گئی جبکہ اے آر ڈی کی باقی ماندہ قیادت اتحاد کے ٹرک پر سوار ن لیگ کا منہ دیکھتی رہ گئی جِس پر کہنہ مشق بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان کو کہنا پڑا کہ میں نے ساری عمر سیاستدانوں کے ساتھ اتحاد بنائے اور کامیاب رہا، پہلی بار کاروباری لوگوں کے ساتھ اتحاد بنایا اور دھوکہ کھایا۔

ن لیگ کو گو مگو کی کیفیت سے نکلنا ہو گا اور آدھا تیتر آدھا بٹیر والی پالیسی کو ترک کر کے خلوص نیت سے یکسو ہو کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ ن لیگ کو اب تک اپنے بیک ڈور رابطوں سے سوائے بدنامی کے کچھ حاصل بھی نہیں ہو سکا۔ شائد یہی وجہ ہے کہ نواز شریف طویل خاموشی کے بعد کھل کر بول رہے ہیں۔ بظاہر نواز شریف اور مریم نواز کا اعلانِ جنگ ن لیگ کے محمد زبیر کی آرمی چیف سے ناکام ملاقاتوں کا ردعمل ہی محسوس ہورہا ہے۔

اے پی سی کے فیصلوں کے باعث حکومتی ایوانوں اور ان کے سرپرستوں میں بے چینی کی کیفیت نمایاں طور پر نظر آ رہی ہے جبکہ متحدہ اپوزیشن واضح طور پر ماضی کی نسبت بہتر پوزیشن میں آ چُکی ہے۔ اب یہ اپوزیشن کی فہم و فراست، ثابت قدمی اور یکسوئی پر منحصر ہے کہ وہ اس پوزیشن کو کیسے استعمال کرتی ہے تاکہ ملک میں جمہوریت کو صحیح معنوں میں بحال کیا جا سکے اور غیر جمہوری عناصر کے کردار کو ختم کیا جا سکے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں ہے اس کیلئے خلوصِ نیت، اتحاد اور استقامت کی ضرورت ہو گی کیونکہ دوسری طرف حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی پوری طاقت اور ہتھکنڈوں سمیت تیار ہے۰ اپوزیشن رہنماوں کو نیب نوٹسسز اور صحافیوں پر ایف آئی اے کی جانب سے درج کئے جانے والے مقدمات سے فریقِ مخالف اپنے ارادوں کا اظہار کر بھی چکا ہے۔

موجودہ سلیکٹڈ حکومت جسے مصنوعی طریقے سے مسلط کیا گیا ہے اس نے دو سالوں میں معیشت کو تباہ کر دیا ہے، خارجہ پالیسی کو تباہ کر دیا ہے، سقوطِ کشمیر کے یہ ذمہ دار ہیں، نااہلیت اور گورننس کی نہایت بری مثال قائم کی گئی ہے جس کی وجہ سے ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں تاجر، صنعت کار، مزدور، کسان، ملازم، پنشنرز سب شامل ہیں۰ عام لوگ تبدیلی حکومت سے بیزار ہو چکے ہیں اس لئے فیصلہ کُن معرکے کے لئے فضا بالکل تیار ہے۔

حکومت مخالف تحریک کے آغاز سے قبل بلاول بھٹو زرداری کے تجویز کردہ ایک نئے میثاقِ جمہوریت کے خدوخال پر بھی تمام سیاسی جماعتوں کا متفق ہونا نہایت ضروری ہے تاکہ تحریک کے اغراض و مقاصد بالکل واضح ہوں اور تحریک صرف حکومت ہٹاؤ ایجنڈے تک محدود نہ رہے بلکہ اس تحریک کے نتیجے میں سِول سپریمیسی اور ووٹ کی عزت جیسے بنیادی مقاصد بھی حاصل کئے جا سکیں۔

اگر پی ڈی اے میں شامل تمام جماعتیں یکسو ہو کر مشترکہ قومی مقاصد کے حصول کے لئے نیک نیتی سے میدان میں نکلیں تو پیپلزپارٹی اور ن لیگ جیسی بڑی اور ملک گیر جماعتوں سمیت دوسری اتحادی جماعتوں کی سٹریٹ پاور کے سامنے کوئی طاقت ٹھہر نہ سکے گی۔ تحریک اگر برپا ہو گئی تو مقتدر حلقوں کی جانب سے بہت سی انفرادی اور اجتماعی پیشکشیں کی جائیں گی، اپوزیشن کے اتحاد کو سبوتاژ کرنے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو بہت سی ترغیبات بھی دی جائیں گی تاکہ تحریک کے غبارے سے ہوا نکالی جا سکے لیکن تحریک کو اپنے اصل مقصد یعنی بلاول بھٹو زرداری کے تجویز کردہ نئے میثاقِ جمہوریت پر قائم رہنا ہو گا۔ تحریک کے نتیجے میں نئے الیکشن کے بعد جِس جماعت کی بھی حکومت بنے اس حکومت کو میثاقِ جمہوریت پر عملدرآمد کرنا ہو گا۔ نئی حکومت کے قیام کے بعد سب جماعتیں مل کر ایسی آئینی ترمیم کی راہ ہموار کریں جس کے ذریعے تمام اداروں کو سختی سے ان کے آئینی کردار تک محدود کیا جائے تاکہ کوئی فرد یا ادارہ اپنے آئینی اختیار سے تجاوز کرنے سے پہلے سو دفعہ سوچے۔ سِول سپریمیسی کا خواب اسی طرح شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔

اپوزیشن کی تحریک کی نتیجے میں پیدا ہونے والے دباوࣿ کو گلگت بلتستان کے انتخابات کو منصفانہ طور پر منعقد کروانے کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ حکومت جس کمزور وکٹ پر کھیل رہی ہے اس میں حکومت اور اداروں کے لئے من پسند نتائج حاصل کرنا مشکل ہو گا۔

گلگت بلتستان جیسے حساس علاقے میں منعقدہ انتخابات میں کسی قسم کی گڑ بڑ کے نتائج کی موجودہ حکومت کسی بھی صورت متحمل نہیں ہو سکتی۔

اپوزیشن تحریک کا نتیجہ جو بھی نکلے ایک بات طے ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے بعد حکومت بیک فٹ پر جا چکی ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنی مدبرانہ سیاست سے اپوزیشن کی سیاست میں جو نئی روح پھونک دی ہے اس سے آنے والے چند مہینوں میں اپوزیشن کی سیاست نہایت ہنگامہ خیز ہو گی۔ پیپلزپارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس سے جو سفر شروع ہوا ہے اس کی منزل پاکستان میں حقیقی جمہوریت، پارلیمان کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی ہے۔ اس منزل کے حصول کے لئے اپوزیشن جماعتوں کو اپنی تمام تر طاقت اور خلوصِ نیت سے اپنا کردار کرنا ہو گا کیونکہ موجودہ حکومت کی نااہلیت سے قومی معاملات جِس نہج پر پہنچ چکے ہیں اس سے آگے صرف تباہی ہی تباہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے پاس بھی یہ آخری موقع ہو گا۔ اگر اس موقع کو بھی ضائع کردیا گیا تو پھر شائد کافی عرصہ تک قوم کو فسطائیت اور ڈکٹیٹرشپ کا ہی سامنا کرنا پڑے اور پارلیمانی بالادستی، حقیقی جمہوریت اور آئینی حکمرانی ایک خواب بن کر رہ جائیں گے۔

‏یہ کہہ رہی اشاروں میں گردش گردوں

‏کہ جلد ہم کوئی سخت انقلاب دیکھیں گے

%d bloggers like this: