دریائے سندھ کا مشرقی کنارہ(دریا وار /اُروار)
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کا دوسرا حصہ جو دریا کے مشرقی کونے پر آبا دہے‘اسے دریا وار (اُروار) کہا جاتا ہے۔تھل کے ا س حصے میں تحصیل بھکر اور لیّہ آتے ہیں۔دامان کی طرح تھل کا بھی زیادہ تر حصہ صحرائی ہے‘مگر دامان کی نسبت پہاڑی سے منسلک ہونے کی بجائے یہ دو دریاؤں (سندھ و چناب) کے درمیان میں واقع ہے‘اسی لیے اسے ”سندھ ساگر دوآب“ بھی کہا جاتاہے۔مغربی جانب یہ دریائے سندھ کے نشینی علاقے کچی سے ملا ہوا ہے۔تھل کی سطح کچی سے کئی فٹ بلند ہے۔کلور کوٹ کے مقام پر اس کا بلند ترین مقام کوئی چالیس فٹ اوپر ہے‘مگر جنوب کی طرف اس کی بلندی آہستہ آہستہ کم ہوتی چلی جاتی ہے‘خصوصاً کوٹ سلطان کے زیریں حصے میں اس کی بلندی دو تین فٹ سے زیادہ نہیں۔تھل کا سارا شمالی حصہ دریائی سطح سے کافی بلند ہے‘یہاں تک کہ بڑے پیمانے پر آنے والا سیلابی ریلہ بھی کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکا لیکن تحصیل لیّہ کے زیریں حصوں میں اونچے درجے کا سیلاب کبھی کبھاراپنی تباہ کاریاں ضرور مچاتا ہے۔تھل میں کلورکوٹ کے ذیریں علاقے کو کچی کا علاقہ دریائے سندھ سے جدا کرتا ہے۔کچی کی اوسطاً چوڑائی دریا خان سے مظفر گڑہ تک چھ سے سات میل تک ہے۔کچی کے علاقے کی کاشت کاانحصار سیلابی پانی پر ہے۔یہ چونکہ نشیبی علاقہ ہے اسی لیے یہاں پر دریائے سندھ کی طغیانی کے باعث زمین کا کٹاؤ اور ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری رہتا ہے۔یہاں پر نہروں کے ذریعے بھی آبپاشی ہو تی رہتی ہے۔پُزل‘بودو اور لالا یہاں کی مشہور نہریں ہیں۔پُزل نہر دو تین شاخوں میں تقسیم ہو جاتی ہے‘جس کاکچھ حصہ دوبارہ دریا کے ساتھ مل جاتا ہے جبکہ کچھ ندی نالوں میں جا گرتا ہے۔گرمیوں میں یہ نہریں پانی سے لبا لب بھر ی رہتی ہیں جبکہ سردیوں کے موسم میں پانی کی کمیابی کے باعث اکثر و بیشتر خشک رہتی ہیں۔پُزل اگرچہ تھوڑی گہری نہر ہے مگر اسے باآسانی پار کیا جا سکتا ہے۔ڈیرہ جھنگ روڈ پر اسے عبور کرنے کیلئے سردیوں میں کشتیوں کا سلسلہ وار پل ترتیب دیا جا تا ہے‘جبکہ گرمیوں میں اسے کشتیوں کے ذریعے عبور کیا جاتا ہے۔
ضلع ڈیرہ کے قریب دریائے سندھ کا پاٹ انتہائی چوڑا ہے‘موسم گرما میں اس کے دونوں کنارے دکھائی نہیں دیتے جبکہ سرما میں کناروں کے اطراف بھربھری ریت کا ایک وسیع و عریض میدان جنم لے لیتاہے۔پُزل نہر سمیت کئی چھوٹے بڑے نالے کچی کو درمیان میں سے کاٹتے ہوئے اپنے مخصوص راستوں پر بہتے دکھائی دیتے ہیں۔ کچی میں کنوئیں‘جُھلاریں اور عمومی دیہات ان ندی نالوں کے اردگرد آباد کیے گئے ہیں۔سیراب زمینیں بھی ان نالوں کے ساتھ ساتھ دور تک چلی گئی ہیں۔کچی ایک بہت ہی خوبصورت اور دلرُبا مقام ہے۔ا س کا آدھے سے زیادہ حصہ قابل کاشت ہے جبکہ بقیہ حصے پر اونچی اونچی منج گھاس اور دریا کے کناروں کے نزدیکی حصے میں قدرتی جنگل اُگے ہوئے ہیں۔دریا کنارے کے اس نشیبی علاقوں میں گہری جنگلی جھاڑیوں اور خودرو گھاس کی بہتات ہے جو جنگلی سورؤں اور کئی قسم کے جانوروں کی پسندیدہ آماجگاہ بنی ہوئی ہے۔ٹھہرے پانی(ڈَھنڈ) میں اُگی اس گھاس کو مقامی زبان میں کانہہ(کانہے) کہا جاتا ہے۔دریا سے دو تین کلومیٹر کی دوری پر تھل کے قریب میٹھے پانی کے کنوئیں کھودے گئے ہیں۔ہر کنوئیں کے قریب ایک چھوٹی سی بستی آباد ہے‘جبکہ بڑے بڑے گاؤں تھل میں واقع ہیں‘ جو دریا سے محفوظ ہیں اور ان تک سیلابی پانی نہیں پہنچ سکتا۔کچی کے مکین کوئی خاص چاک و چوبند نہیں بلکہ انہیں سست الوجود کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ان کی سستی اور کاہلی کا انداذہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ کچے میں اپنی فصلوں کو کاٹنے کے بعد تھل میں کسی اونچی جگہ محفوظ کرنے کی بجائے کچی کے کنوؤں کے اردگرد رکھ دیتے ہیں۔ طغیانیوں کے موسم میں جب کبھی دریائی پانی ان علاقوں پر چڑھتا ہے تو ان کا مال و متاع بہا کر لے جاتا ہے‘بعض اوقات مال مویشی بھی پانی کی تیز لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں اور ا س طرح ان لوگوں کواپنی کاہلی کی وجہ سے جانی و مالی نقصان اٹھاناپڑتا ہے۔ کچی میں چونکہ کنوئیں اتنے زیادہ نہیں ہیں‘اسی لیے کھیتی باڑی کی خاطر سیلابی پانی پر ہی بھروسہ کیا جاتاہے۔کچی کے موضع موچیانوالہ میں کنوئیں بکثرت ہیں‘اسی لیے یہ بستی تھل کا منظر پیش کرتی ہے۔
کچی کا اندرونی حصہ بہت زرخیز و شاداب ہے۔یہاں پرشیشم اور پیپل کے درختوں کے علاوہ بیر کے درختوں کی بھی بھرمار ہے‘خصوصاً تحصیل لیّہ کے جنوب میں بھانی کے جنگلات کافی بڑ ے رقبے پرپھیلے ہوئے ہیں۔کچی کی”راکھ کھوکھراں والی“ کا جنگل بھی کافی وسیع ہے جسے جدید بنیادوں پر تراش خراش کرنے کے بعد مزید خوبصورت بنا دیا گیاہے۔کچی میں کچھ کھجوروں کے درخت بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔کچی کا وہ حصہ جو مسلسل سیلاب کی زد میں رہتا ہے‘وہاں چونکہ کھیتی باڑی ممکن نہیں اسی لیے وہاں پر خودرو گھاس کی ایک مخصوص قسم درب اُگی رہتی ہے۔نالوں کے کناروں پر گھاس کی ایک اور قسم تلا گھاس بھی کافی مشہور ہے۔یہ گھاس یہاں کے گھوڑوں کی مرغوب غذاء ہے۔
کچی کے قابل کاشت علاقوں میں ہل چلاتے وقت زمین کے اندر اُگے کانٹے دار پودے بعض اوقات کسانوں کیلئے مشکل صورتحال پیدا کردیتے ہیں۔برسین اوردوسری گھاس پھونس بھی یہاں کثیر تعداد میں اُگتی ہے جو مویشیوں کے چارے کے طور پر کام میں لائی جاتی ہے۔گزشتہ چند برسوں میں کینال ڈیپارٹمنٹ نے ضلع مظفر گڑھ کی قریبی کچی میں دریا کی طغیانیوں سے بچنے کیلئے پشتے تعمیر کروائے ہیں۔یہ پشتے کوٹ سلطان سے لے کرلیّہ کے جنوب میں کچی تک بنائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے: پیش لفظ گزیٹئیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔عباس سیال
سلسلہ وار گزیٹیر ڈیرہ اسماعیل خان ۔۔۔ عباس سیال
جاری ہے۔۔۔۔۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا