ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم جناب کمشنر و ڈپٹی کمشنر ملتان
تسلیمات!
ریشم دلانِ ملتان ادبی کانفرنس کا انعقاد اچھا اقدام ہے ۔ مگر سرائیکی زبان و ادب کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے ، قبل از کورونا کمشنر بہاولپور جناب آصف اقبال چوہدری نے سرائیکی کانفرنس اور سرائیکی مشاعرے کرائے جو کہ کامیاب رہے ۔ میری رخواست ہے کہ وسیب کی زبان و ثقافت کو نظر انداز کرنے کی سابقہ پالیسی ترک ہونی چاہئے اور نہ صرف کانفرنس بلکہ وسیب کے اداروں میں قدیم سرائیکی لوگوں کو شراکت کا احساس دلانا چاہئے تاکہ پاکستان کی برکات سے وہ لوگ بھی استفادہ کر سکیں جن کی سرزمین پر پاکستان قائم ہے ۔ اسی مقصد کے ساتھ میں نے چند لائنیں تحریر کی ہیں ۔ امید ہے کہ مقتدر طبقات میری ان گزارشات پر توجہ دیں گے ۔ شکریہ
ظہور احمد دھریجہ
______
ریشم دلانِ ملتان ادبی کانفرنس
ملتان کے اخبارات میں شائع ہونیوالی ایک خبر کے مطابق ڈپٹی کمشنر و صدر ملتان ٹی ہاؤس عامر خٹک نے ٹی ہاؤس کے دورے کے دوران آئندہ ماہ ملتان میں ادبی کانفرنس کرانے کا اعلان کیا ۔ اس موقع پر ٹی ہاؤس کے سیکرٹری خالد مسعود خان نے ٹی ہاؤس کے صدر و ڈپٹی کمشنر جناب عامر خٹک کو ٹی ہاؤس کی لائف ممبر شپ دینے کا اعلان کیا ۔ جوکہ ایک لطیفہ ہے کہ ’’ ادارے کا سیکرٹری ادارے کے صدر کو ’’ لائف ممبر شپ ‘‘ مرحمت فرما رہا ہے۔ ‘‘ سابق ڈی سی او زاہد سلیم گوندل نے ’’ زندہ دلانِ لاہور ‘‘ کے وزن پر ’’ ریشم دلانِ ملتان ‘‘ کا لقب متعارف کرایا ۔ ضروری نہیں کہ ہر بات پر لاہور کی نقل کی جائے ، مدینۃ الاولیاء ملتان کا ایک تعارف موجود ہے ۔ ریشم دلانِ ملتان کی بجائے مدینۃ الاولیاء کے نام سے کانفرنس ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ، کانفرنس کے نام کے علاوہ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ کانفرنس ملتان کے ساتھ ساتھ وسیب کی ادبی کانفرنس ہو کہ ملتان وسیب کا صدیوں سے مرکز چلا آ رہا ہے ۔ اس کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ یہ ادبی کانفرنس سرائیکی ادبی کانفرنس ہو کہ کسی بھی خطے کی زبان و ادب کو نظر انداز کر کے جو بھی کانفرنس کرائی جائے وہ خطے سے بیوفائی اور بے اعتنائی کے مترادف سمجھی جائے گی ۔ اس موقعہ پر یہ بھی کہوں گا کہ ٹی ہاؤس سمیت دیگر ادبی اداروں میں سرائیکی نمائندگی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ پنجاب انسٹیٹیوٹ ، لینگویج آرٹ اینڈ کلچر ( پلاک ) کی طرز کا ادارہ (سلاک کے نام سے ) سرائیکی وسیب میں بھی ہونا چاہئے ۔
کانفرنس میں شریک ہونے والے شاعروں ادیبوں کے جو نام دیئے گئے ہیں ، وہ سب اردو حوالے سے ہیں ، کانفرنس میں سرائیکی شاعروں ادیبوں کے نام آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ۔ ہم اس کانفرنس کو ’’ ملتان کی کانفرنس ‘‘ کس طرح کہہ سکیں گے جس میں شاکر شجاع آبادی ، اقبال سوکڑی ، عزیز شاہد، ڈاکٹر نصر اللہ ناصر، ڈاکٹر احسن واگھا، ڈاکٹر انوار احمد، پروفیسر ڈاکٹر جاوید چانڈیو ، عاشق بزدار ، ممتاز خان کلیانی ،کوثر ثمرین ،ڈاکٹر مقبول گیلانی ، منصور آفاق، سعید اختر سیال ، محمود شام ، رانا محبوب اختر ، حفیظ خان ،رفعت عباس، جاوید اختر بھٹی ، اصغر گورمانی ، ڈاکٹر اسلم عزیز درانی ، اسلم رسول پوری ، ڈاکٹر نواز کاوش ، ڈاکٹر نسیم اختر، پروفیسر ڈاکٹر ممتاز خان ، ذکا اللہ انجم ملغانی ،امان اللہ ارشد ، مسرت کلانچوی ، سعید احمد شیخ ، سید رمضان شاہ گیلانی ،پروفیسر اکرم میرانی ، اسلم جاوید، ڈاکٹر خالد اقبال، ارشاد امین ، مسیح اللہ جام پوری، ڈاکٹر غضنفر مہدی ، ڈاکٹر گل عباس اعوان، مشتاق سبقت ، عشرت لغاری، ساحر رنگ پوری، افکار علوی ، کاظم حسین کاظم ، مخمور قلندری ، جمشید ناصر، مظہر جاوید، ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز ، ڈاکٹر سعدیہ کمال، ضمیر ہاشمی ،اکبر ہاشمی ، صابر انصاری ، اجمل خاموش، صوفی تاج گوپانگ ، زبیر بھپلا، عباس ملک ،مصطفی خادم ، ریاض عصمت میں سے کسی ایک کا نام بھی شامل نہیں ۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ یہ چند نام جو مجھے یاد تھے ، کا میں نے ذکر کیا ، اس کے علاوہ بھی بہت سے نام قابل ذکر ہیں ۔
پوری زندگی ادبی ثقافتی کانفرنسوں میں گزارنے کی بناء پر وثوق سے کہتا ہوں کہ سرائیکی وسیب میں صرف سرائیکی مشاعرے اور سرائیکی ثقافتی کانفرنسیں کامیاب ہوتی ہیں ۔ باقی سب کچھ سرکاری خانہ پوری پر ہوتا ہے ۔ کورونا کی آمد سے پنجاب ٹور ازم کی طرف سے چولستان جیپ ریلی کے موقع پر باہر سے فنکار بلا کر کلچرل شو کرائے گئے جو ناکام ہوئے ، اس کے مقابلے میں بہاولپور کی مثال اہم ہے کہ مقامی انتظامیہ کی طرف سے کمشنر بہاولپور چوہدری آصف اقبال نے سرائیکی کلچرل شو اور سرائیکی مشاعرہ کرایا جو کہ بے حد کامیاب ہوا ۔ اس کے بعد 6 مارچ سرائیکی کلچرل ڈے کے حوالے سے کمشنر بہاولپور نے بہاولپور آرٹس کونسل میں تین روزہ ادبی ثقافتی تقریبات کرائیں جو کہ بہت کامیاب رہیں ۔ کمشنر صاحب نے اس حد تک اہتمام کیا کہ دعوت نامے ’’ سرائیکی ثقافتی ڈٖینھ ‘‘ کے نام سے سرائیکی میں چھپوائے اور آرٹس کونسل کے منتظمین کو پابند کیا کہ تمام کاروائی صرف سرائیکی میں ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پروگرام بہاولپور کی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں ۔ سب سے اہم یہ کہ تقریبات کے آخر میں تقسیم ایوارڈز کے موقع پر کمشنر بہاولپور نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں یہاں وائسرائے نہیں ، خادم بن کر آیا ہوں ، جس خطے میں مجھے ذمہ داری سونپی گئی ہے اگر میں اس خطے کی تہذیب، ثقافت ، زبان و ادب اور اس خطے کے آثار سے بے اعتنائی کروں تو یہ میرے منصب کے خلاف ہوگا ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس خطے کی زبان و ثقافت کو پروموٹ کرنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ واضح ہو کہ موصوف کمشنر صاحب کے ساتھ ساتھ ڈائریکٹر بہاولپور آرٹس کونسل مرحوم رانا اعجاز محمود صاحب کے گھر کی زبان بھی سرائیکی نہیں ہے ۔
پاکستان ایک ایسا گلدستہ ہے جس میں مختلف خطوں کی تہذیب و ثقافت اور زبان و ادب مختلف رنگ کے پھولوں کی شکل میں موجود ہے ۔ تمام پھولوں کی اپنی اپنی خوشبو ہے مگر افسوس کہ قدرت کی طرف سے عطا کردہ پھولوں کو مسل کر کاغذی پھولوں سے کام چلایا جا رہا ہے جو کہ فطرت سے جنگ کے مترادف ہے ۔ 73 سالوں سے مقامی زبانوں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا جا رہا ۔ اسی بناء پر ہم آگے ملک سے محروم بھی ہو چکے ، پھر بھی سمجھ نہیں آئی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی ایک زبان یا ایک ثقافت کا تسلط خطے میں بولی جانیوالی اصل زبان کے تخلیقی عمل کو مارنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور اسی تسلط کی بنا پر دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگ فطری اور قدرتی جذب پذیری کے عمل سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کو مقامی ہونے کا شرف و اعزاز حاصل نہیں ہوتا ۔ حکمرانوں نے بہت کوشش کر کے دیکھ لی ، ایک زبان کو نصابی و دفتری زبان بنانے پر کھربوں روپے بھی 73 سالوں میں خرچ کر ڈالے مگر وہ زبان نہ نصابی بن سکی نہ دفتری ، البتہ اردو میڈیم میں پڑھنے والے غریبوں کی اولادوں کا مستقبل تاریک ضرور ہوا ۔ اس لئے ابتدائی تعلیم مقامی زبانوں میں دی جائے اورجب تک متبادل سامنے نہیں آتا ، انگریزی پڑھائی جائے اور ادبی ثقافتی تقریبات ہر خطے کی مقامی تہذیب و ثقافت کے مطابق منعقد کی جائیں ۔
جو لوگ سرائیکی زبان پر اعتراض کرتے تھے ، ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ آج سرائیکی میں ایم اے ، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہو رہی ہے ، یونیورسٹیوں میں سرائیکی شعبے کام کر رہے ہیں ، کالجوں میں سرائیکی پڑھائی جا رہی ہے اور میٹرک میں بھی سرائیکی آ چکی ہے ۔ سرائیکی زبان میں اپنی مدد آپ کے تحت سب سے زیادہ کتابیں شائع ہو رہی ہیں ۔ اپنی مدد آپ کے تحت سرائیکی وسیب میں سب سے زیادہ ادبی انجمنیں کام کر رہی ہیں ۔ اپنی مدد آپ کے تحت وسیب کے مردم خیز خطے میلسی میں عظیم الشان جھنڈیر لائبریری اور وسیب میں دوسری لائبریریاں موجود ہیں ۔ سب سے زیادہ مشاعرے سرائیکی وسیب میں ہوتے ہیں اور سب سے زیادہ ثقافتی میلے بھی سرائیکی خطے میں ہوتے ہیں ، اسی بناء پر میں کمشنر ملتان جناب جاوید اختر اور ڈپٹی کمشنر ملتان جناب عامر خٹک سے اتنا ہوں گا کہ وہ ادبی کانفرنس سرائیکی ادب کے حوالے سے کریں ، ورنہ اسے سرائیکی زبان و ادب سے امتیازی سلوک سمجھا جائے گا اور اسے وہ پذیرائی اور محبت حاصل نہ ہوسکے گی جوکہ مٹی کی مہک سے پیدا ہوتی ہے ۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ