طاہر ملک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کوئی بھی چینل دیکھ لیں، کوئی بھی اخبار اٹھا لیں یا پھر کوئی بھی ویب سائٹ پڑھ لیں سب پر محض سیاست سے متعلق خبروں اور تبصروں کا راج ہے۔ ایک کے بعد ایک ٹیلی ویژن پروگرام، ہر دوسرا کالم نویس یا پھر خبرنگار سیاست کے گرد گھیرا تنگ کیئے ہوئے ہے، اگر کہیں خاکم بداہن سیاست سے ہٹ کر کوئی بڑا واقعہ ہو بھی جائے تو میڈیا محض اسے اپنی ریٹنگ کی خاطر اٹھا لیتا ہے اور پھر رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوجاتا ہے کسی اقلیتی برادری سے جڑا کوئی غاصبانہ فعل ہو یا پھر کسی عورت کے ساتھ جنسی زیادتی یا مذہب تبدیلی اور انسانی حقوق کا معاملہ ہو معاشرے کے ان عام مگر اہم معاملات کیلئے کوئی بھی ایسا میڈیا پلیٹ فارم نہیں ملتا جو اس چیز کو دوسرے معاملات سے زیادہ اہمیت دیتا ہو۔
گزشتہ شب میری نظر سے “سندھ اقلیتی کمیشن، سرد خانے کی نذر” کے عنوان سے ایک خبر گزری جس میں بتایا گیا ہے کہ:
سندھ اقلیتی حقوق کمیشن کے قیام میں جب بھی کوئی اہم پیش رفت ہونے لگتی ہے تو کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہو جاتی ہے کیونکہ صوبائی اسمبلی میں نومبر 2016 میں اس سلسلے میں ایک بل منظور ہونے کے باوجود ابھی تک اس معاملے میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔
بل پیش کرنے والے حزبِ مخالف بینچوں سے تعلق رکھنے والے قانون ساز نند کمار گوکلانی کے مطابق اُس وقت کے گورنر سندھ جسٹس (ر) سعید الزمان صدیقی نے اعتراضات کے ساتھ مجوزہ قانون واپس کردیا تھا اور اس کے بعد سے یہ التوا کا شکار ہے۔ کمار نے زور دے کر کہاہم اب اسے سندھ اسمبلی میں دوبارہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ ہم نے سندھ میں اقلیتوں کے حقوق کے لئے اس کمیشن کے قیام کے لئے مسودہ تیار کرنے میں کافی کوششیں کی ہیں۔
یہ مضمون “ثبات ڈاٹ نیٹ” نامی ایک ویب سائٹ پر شائع کیا گیا تھا پھر میں نے ویب سائٹ پر مزید پڑھنا شروع کیا تو مجھے “پاکستان کی تخلیق میں اقلیتوں نے مرکزی کردار ادا کیا” کے عنوان سے ایک اور تحریر ملی جس میں لکھا تھا: ہم قیامِ پاکستان میں اقلیتوں کے کردار کو اجاگر کرکے ایک جامع معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں یہ آل پاکستان ہندو پنچایت کے جنرل سکریٹری روی دیوانی کا ثبات نیٹورک کو دیا گیا انٹرویو تھا جس میں انہوں نے تاریخی واقع بیان کرتے ہوئے کہا کہ: اقلیتوں کے مثبت کردار کو تاریخ کے صفحات سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ پنجاب اسمبلی کے سپیکر ایس پی سنگھا نے اپنا خصوصی ووٹ پاکستان کے حق میں ڈالا اور جوگندر ناتھ منڈل نے پاکستان کے پہلے وزیر قانون کی حیثیت سے حلف لیا لیکن بدقسمتی سے آج کے نوجوان ان واقعات سے لاعلم ہیں۔ یقینا روی دیوانی کی یہ بات بالکل درست ہے کہ آج کے نوجوان اس لئے ایسے واقعات سے لاعلم ہیں کیونکہ ہم مسلمانوں نے اکثریت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اقلیت کی تاریخ کو کچل کر رکھ دیا آج کتنے نوجوانوں کو یہ معلوم ہے کہ پاکستان کی آزادی میں مسلمانوں کے علاوہ کس قدر غیر مسلموں نے اپنا کردار بھرپور ادا کیا اور جانوں کی قربانیاں دی کیونکہ انہیں اپنی اس مٹی سے پیار تھا اور ہے بھی۔
راوی کے مطابق: جدید لاہور کے معمار سر گنگا رام جو تقسیم سے پہلے ہی انتقال کر گئے تھے، نے سر گنگا رام اسپتال قائم کرکے اور لاہور کی ماڈل ٹاؤن سوسائٹی کا نقشہ تیار کرکے اس علاقے کے لئے بہت کچھ کیا۔ مزید برآں ہیلے کالج اور مال روڈ بھی ان کی سوچ کے مطابق تعمیر کیے گئے تھے اور تاریخ اس کی شاہدہے۔ پاکستان کا پہلا ترانہ جو ریڈیو پاکستان پر چلایا گیا تھا جگن ناتھ آزاد نے قائد ِ اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر لکھا تھا۔
انہوں نے اپنے اس انٹرویو میں جامع معاشرے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتوں کے خلاف نفرت اور امتیازی سلوک کو شکست دیئے بغیر ملک نہ تو آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ ہی خوشحال ہو سکتا ہے۔ پاکستان کی سر زمین پر پیدا ہونے والے ہندو بلکہ تمام اقلیتیں بھی اتنے ہی محب وطن ہیں جتنا کہ دوسرے پاکستانی اور ان کی حب الوطنی پر شک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہندومت میں جس دھرتی پہ جو شخص پیدا ہوتا ہے اسے ’ماں‘ سمجھتا ہے۔
ثبات نیٹورک پر چھپے مواد کو پڑھنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تاریخ کے اہم اوراق ہماری نوجوان نسل کی نظروں سے کیسے اوجھل کردئے گئے۔ اور انہیں اب تک اس طرح سامنے کیوں نہ لایا گیا، لیکن اب بھی وقت کہیں نہیں گیا ہمیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ ایسے نیٹورک کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے جو اپنی ساری توانیاں ایک مظلوم اور محکوم طبقہ کیلئے صرف کررہا یے کیونکہ آج ہم انسانیت کی خاطر کسی کی آواز میں آواز ملائیں گے تو کل کوئی ہماری آواز بھی بنے گا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
قومی اسمبلی دا تاریخی سیشن ،،26ویں آئینی ترمیم منظور