نومبر 6, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کاشتکار کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا!۔۔۔ رسول بخش رئیس

گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں وقت گزارا‘ اور صبح شام فصلیں دیکھیں‘ عزیزوں اور دوستوں سے ملاقاتیں کیں تو ہر کاشت کار کو فکر مند اور پریشان پایا۔

رسول بخش رئیس

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گندم کی فصل اس سال زبردست تھی‘ بارشیں بھی وقت پر ہوئیں اور جاڑوں کی سخت سردی میں کاشت کاروں نے راتوں کو پانی‘ جہاں میسر تھا‘ بھی خوب دیا۔ ہر فصل محنت اور مشقت سے سینچی جاتی ہے۔ دورِ موجود کی جدید کاشت کاری کے لئے سرمایہ درکار ہے‘ کیونکہ اب کاشت کاری میں مشینیں استعمال ہوتی ہیں‘ کھادوں اور کیڑے مار ادویات کی خریداری ناگزیر ہو چکی ہے اور ان کے چھڑکائو کے لئے مزدوروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ بس زمین میں بیج ڈال دیئے اور گھروں میں بیٹھ گئے۔ شہر کے باسیوں کے طور طریقے مختلف اور خواہشیں ان گنت ہیں۔ زندگی آرام دہ ہے۔ ہر آسائش اور ہر سہولت میسر ہے۔ تھوڑی سی کوئی تکلیف ہو‘ کوئی حادثہ ہو جائے‘ بخار یا معمولی سا سر درد ہو‘ منٹوں میں دوائی اور معالج کی خدمات مہیا ہو جاتی ہیں۔ میری رائے میں ہر دور میں شہروں نے دیہات کا استحصال کیا‘ لوٹ مار۔ کاشت کار اور دیہی لوگ خوراک‘ پھل‘ سبزیاں‘ گوشت‘ مرغی‘ انڈے‘ اناج اور وہ سب کچھ‘ جو شہریوں کی میز پہ دن میں کم از کم تین مرتبہ سجتا ہے‘ بہت مشکل حالات میں پیدا کر رہے ہیں۔ میرا مشاہدہ یہ ہے کہ وطن عزیز میں جتنا کھانا ضائع کیا جاتا ہے‘ شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہے۔ مہنگائی کا شور و غوغا ہر دور میں رہا ہے‘ مگر علاقائی ممالک‘ بلکہ پوری دنیا سے موازنہ کر کے دیکھ لیں‘ کھانا بنانا پاکستان میں بہت سستا ہے۔ پاکستان کے کسی شہر کی کسی سڑک‘ گلی کوچے اور بازار میں جائیں‘ موسمی پھلوں کے انبار لگے ہوئے نظر آئیں گے۔ گدھا گاڑیوں پر لدے پھل ہر شہر میں دیکھے جا سکتے ہیں‘ اور اب تو موٹر رکشوں پر بھی ڈھیروں پھل اور سبزیاں فروخت کی جا رہی ہیں۔
کبھی کسی نے سوچا کہ یہ سب کیسے پیدا کیا جاتا ہے۔ کبھی ان لوگوں کی حالتِ زار بھی دیکھی ہے جو یہ سب کچھ اگا کر‘ پیدا کر کے کریٹوں‘ ٹوکروں اور بوریوں میں بند کر کے آپ کے بازار بھرتے ہیں۔ میں خود جز وقتی کاشت کار ہوں اور یہ کام چالیس برسوں سے کر رہا ہوں۔ مجھ میں تو کچھ مالی سکت ہے کہ درس و تدریس سے بہت کچھ مل جاتا ہے اور میں ہر دوسرے سال نقصان کا بوجھ اٹھا لیتا ہوں یا کچھ سرمایہ کاری کر کے کبھی نقصان سے بچا بھی رہتا ہوں۔ اکثر کاشت کار خصوصاً جن کے پاس بہت زیادہ زمین نہیں‘ اور کوئی اضافی وسائل نہیں‘ فصل خراب ہو جائے تو کئی برسوں تک قرضوں کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں سودی کاروبار زوروں پر ہے۔ میرے آبائی علاقہ میں موجودہ دور میں سب سے زیادہ مال دار سود خور ہیں۔ شرح سود چھ سے دس فیصد ماہانہ ہو تو کون نقصان کی صورت میں قرض واپس کر سکتا ہے؟ سینکڑوں قصے سنے ہیں اور کئی دفعہ خود مشاہدہ کیا ہے کہ چھوٹا کاشت کار زمین اونے پونے فروخت کر کے قرض واپس کرنے پر مجبور ہے۔ یہ سب کاروبار پس پردہ ہے‘ لیکن سب کو معلوم ہے کہ سود پر قرض کہاں کہاں ملتا ہے اور شرائط کیا ہیں؛ تاہم قانونی کارروائی نہ کبھی کی گئی اور شاید نہ ہی کی جا سکتی ہے۔ کہنے کو تو ہر سال کہا جاتا ہے کہ زرعی بینک اور دیگر تجارتی بینکوں نے کاشتکاروں کو قرض دیئے‘ مگر صرف ایک خاص طبقہ ہی قرض حاصل کرتا ہے‘ اور یہ وہی تو ہیں جنہوں نے کروڑوں بلکہ اربوں روپے کے قرضے لئے اور ہضم کر چکے۔ کون کارروائی کرے کہ بینکوں سے قرض کی واپسی کو بھی تو سیاسی انتقام کا نام دیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس غریب کاشت کار سودی قرض کی چکی میں ایسا پس رہا ہے کہ اس کا کچھ بھی محفوظ نہیں ہے‘ نہ عزت‘ نہ زمین اور نہ فصل۔ بھارت ہو یا پاکستان ‘ کاشت کار خود کشیاں کر رہے ہیں اور جو نہیں کر رہے‘ وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے جنوبی پنجاب کے چند اضلاع میں وقت گزارا‘ اور صبح شام فصلیں دیکھیں‘ عزیزوں اور دوستوں سے ملاقاتیں کیں تو ہر کاشت کار کو فکر مند اور پریشان پایا۔ کپاس‘ جس سے ہماری کپڑے کی صنعت وابستہ ہے‘ جو پاکستان کی برآمدات کا سب سے بڑا ذریعہ ہے‘ جنوبی پنجاب میں اگائی جاتی ہے۔ بالائی سندھ بھی اسی موسمی پٹی کا حصہ ہے۔ یہ تیسرا سال ہے کہ ان علاقوں میں متواتر کپاس کی فصل عجیب اور ناقابلِ فہم بیماریوں کا شکار ہے۔ فصل جب قد آور ہو جاتی ہے تو اگست کے مہینے میں کچھ پھول آنے کے بعد ایک ایک کر کے پودے مرجھانا شروع ہو جاتے ہیں۔ کچھ تیلے اور سفید مکھی کا‘ اور کچھ کسی نامعلوم وائرس کے لئے مخصوص سپرے کرتے ہیں۔ قیمتی اور اکثر ادھار پر حاصل کردہ زرعی دوائیاں۔ کچھ فرق پڑتا مجھے نظر نہیں آیا۔ نہ جانے فیصل آباد کی جامعہ‘ جو کسی زمانے میں کپاس‘ گندم اور دیگر فصلوں کی تحقیق اور نئے بیجوں کی تیاری کے لئے مشہور تھی‘ کی موجودہ قیادت کہاں کھو گئی؟ ضلع میں موجود ”زرعی ماہرین‘‘ بس ماہرین ہی سمجھیں‘ ابھی تک تو مجھے کہیں دکھائی نہیں دئیے۔ کافی لوگوں سے دریافت بھی کیا کہ آپ ان سے کیوں رابطہ نہیں کرتے؟ جواب ملا ”بیکار‘‘ ہیں‘ انہیں کچھ پتہ نہیں۔ ہو سکتا ہے ان میں سے کچھ کو سمجھ بوجھ ہو‘ لیکن وہ اپنے دفتروں سے باہر نہیں نکلتے‘ اور نہ لوگ ان پر اعتماد کرتے ہیں۔ کپاس کی فصل کے جو حالات دیکھ آیا ہوں‘ مجھے خدشہ ہے کہ ہم سب کاشت کار امسال بھی خسارے میں رہیں گے۔ اب اندازے آمدنی کے نہیں‘ کتنا نقصان ہو گا‘ اس کے لگائے جا رہے ہیں۔ وہاں یہ بھی سنا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے فصلوں کی اچانک تباہی کی صورت میں انشورنس کا انتظام کیا ہے‘ لیکن ہر کاشت کار کے لئے فقط ایک ایکڑ کی سہولت ہے۔ ہو سکتا ہے آئندہ چل کر یہ مقدار بڑھا دی جائے‘ مگر اتنا سرمایہ حکومت کیونکر لگائے گی؟
بات تو گندم کی فصل سے شروع ہوئی تھی‘ ہماری اگائی ہوئی فصل نہ جانے کن کن ممالک کو غیر قانونی طریقوں سے بیچ دی گئی‘ یا وہ کن سیٹھوں کے بڑے بڑے گوداموں میں ہے‘ جہاں اسے چھپا کر رکھا گیا ہے۔ لٹیروں کا راج کسی ایک شعبۂ زندگی تک محدود نہیں‘ ہر جگہ اور ہر کاروبار میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ قانون کی گرفت کمزور ہو‘ انصاف وقت پہ نہ ملے اور حکومت اور نوکر شاہی میں ان کا اثرورسوخ ہو تو کون کچھ بگاڑ سکتا ہے؟ سال کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہوتا‘ جب جعلی‘ مصنوعی قلت ذخیرہ اندوزی کر کے پیدا نہ کی جاتی ہو۔ ایسا ہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ پھر ان میں ایک اور ٹولہ میدان میں آ جاتا ہے کہ دیکھیں غلے اور چینی کی قلت ہے‘ لوگ پریشان ہیں۔ دس بیس روپے زیادہ نہیں ادا کر سکتے‘ باہر سے درآمد کرتے ہیں۔ ان کی بھی چاندی ہو جاتی ہے۔ یہ تماشا ہم کب سے دیکھ رہے ہیں۔ گندم اور کپاس باہر سے منگوا کر قیمتوں کو کم رکھا جاتا ہے۔ سراسر ظلم ہے کہ باہر کے کاشت کار کو تو منہ مانگی قیمت دیں گے‘ مگر ملکی کاشت کار کو اس کا جائز حق بھی نصیب نہیں۔ بجائے اس کے کہ نوکر شاہی کی سرزنش ہوتی کہ گندم ذخیرہ کیوں ہوئی یا باہر کیوں نکل گئی‘ باہر سے منگوا لی گئی۔ سستی کا نعرہ تو لگاتے ہیں‘ مگر کبھی معلوم کیا کہ جہاں سے آپ درآمد کر رہے ہیں‘ وہاں کاشت کار کو کتنی سبسڈی دی گئی۔
جو بھی زرعی ترقی ہے‘ وہ زیادہ تر کسان اور کاشت کار کی مرہونِ منت ہے۔ بد حکمرانی‘ رشوت خوری اور جعل سازی نے کاشت کار کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہر سطح پر مسائل ہی مسائل ہیں۔ منڈی میں جائیں تو وہاں دھاندلی‘ سیٹھ کو دیں تو اس کی قیمت کم ملتی ہے۔ معلوم نہیں ہماری زراعت کب دم توڑ دے‘ کاشت کار میں دم رہا نہیں۔

About The Author