عبدالغفاربلوچ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وطنِ عزیز کے طول و عرض میں تقریباہر سال مون سون کا موسم پورے جوبن پر ہوتاہے ملک کے کم و بیش تمام علاقے شدید بارشوں کی زد میں آتے ہیں پنجاب کے بڑے حصے میں طوفانی بارشوں سے نظام زندگی مفلوج ہوجاتا ہے ڈیرہ غازی خان اور اسکے نواحی علاقوں کی صورت حال بھی مختلف نہیں ہوتی متعدد علاقوں میں مکانات کی چھتیں اور دیواریں گرنے کی اطلاعات ملتی ہیں، جن سے درجنوں لوگ جاں بحق اور سینکڑوں زخمی ہوجاتے ہیں نشیبی علاقوں میں جمع ہونے والے پانی سے بھی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے بہت سے علاقوں میں کئی کئی روز سے بجلی کی بندش نے زندگی کو مزید اجیرن بنادیتی ہے۔
غرضیکہ ہر طرف مالی نقصان اور تباہی و بربادی کی داستانیں بکھری پڑی ہوتی ہیں دوسری جانب کیفیت یہ ہے کہ دریائے سندھ آج کل سیلاب کی صورت حال سے دوچار ہے، اور اس میں پانی کی سطح مسلسل بلند ہورہی ہے۔ خدانخواستہ اگر سیلاب آتا ہے تو اس سے مزید علاقوں میں تباہی و بربادی پھیلنے اور کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے دریائے سندھ کے مسلسل کٹاؤ کے باعث مختلف علاقے جس میں بیٹ کرم شاہ،بیٹ نہڑکی،بیٹ نہڑ والا پہلے ہی صفحہ ہستی سے غائب ہوچکے ہیں موضع ہوتہ ہتوانی،یوسی چک رانمن کی درجنوں بستیاں دریائے سندھ کی بے رحم موجوں کی نظر ہو چکی ہیں جن میں گھر،سکولز،قبرستان اور کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی ہیں ہزاروں مکین بے سروسامان اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرنے کے بعد دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبو ر ہیں بارش یقیناً اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے، مگر ہم نے اپنی نااہلی اور کاہلی کے سبب اسے اپنے لیے زحمت بنا لیا ہے۔
ہم سارا سال پانی کی قلت کا رونا روتے رہتے ہیں، مگر جب بارانِ رحمت کا نزول ہوتا ہے تو ہماری اجتماعی اور انفرادی سطح پر لاپروائی اور ناقص منصوبہ بندی کے باعث آسمان سے نازل ہونے والے پانی کو سنبھال کر بہتر استعمال میں لانے اور سال کے باقی دنوں میں اس کی قلت کے ازالے کا اہتمام کرنے کے بجائے ہم خود کو اس کے ہاتھوں بے بس پاتے اوراسے اپنی تباہی کا سبب بننے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہماری وفاقی و صوبائی حکومتیں اور بلدیاتی ادارے بارشوں اور سیلابی پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے اور اس کے مفید استعمال کی منصوبہ بندی کرنے میں قطعی ناکام رہے ہیں، بلکہ سچ تو یہ ہے کہ کسی بھی سطح پر اس ضمن میں سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی۔کس قدر دکھ کا مقام ہے کہ ہم نصف صدی قبل بنائے گئے تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد آج تک کوئی بڑا ڈیم تک نہیں بنا سکے۔
اس ضمن میں لمبی چوڑی تقریریں اور قصے کہانیاں تو طویل عرصے سے لوگوں کو سنائی جارہی ہیں مگر برسرِزمین آج تک کوئی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی اور ہمارے حکمران طویل عرصے سے مختلف حیلوں بہانوں سے اس جانب سے مسلسل پہلوتہی اور غفلت کا مظاہرہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ہمارا انفرادی سطح پر طرزِعمل بھی اس اجتماعی رویّے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں بارشیں اچانک نہیں آتیں، ہمیں ہر سال انہی دنوں میں ان سے واسطہ پڑتا ہے، بلکہ اب تو محکمہ موسمیات ان کی شدت اور متوقع وقت کے بارے میں بھی قبل از وقت ہی آگاہ اور انتباہ کردیتا ہے، مگر ہم نہ اجتماعی طور پر اور نہ ہی انفرادی طور پر سنجیدگی سے ان کے نقصانات سے بچاؤ کی تدبیر کی جانب متوجہ ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں نقصان کے حجم میں خاصا اضافہ ہوجاتا ہے۔ ہم انفرادی سطح پر اپنے شکستہ اور خستہ حال مکانات کی بروقت مرمت کرلیں اور اپنے گلی، محلے میں نکاسیِ آب کے نظام اور برقی تنصیبات کو درست کرنے پر معمولی توجہ بھی دے لیں تو بہت سے بڑے بڑے نقصانات سے محفوظ رہا جا سکتا ہے، مگر کوئی اس جانب توجہ دینے کی زخمت ہی نہیں کرتا۔رسات ایک ایساموسم ہے،جس کا انتظارگاؤں کے کچے مکانوں میں زندگی گذارنے والوں سے لیکرشہرکی فلک بوس عمارتوں میں رہائش پذیر افراد تک اور عام آدمی سے لے کر صاحب ِ اقتدارو اختیار تک، سب کو رہتاہے اگراس موسم کی یہ فطرت ہے کہ،یہ اپنے دوش پرجہاں لہلہاتی فصلوں کی بہار لاتی ہے وہیں اپنے ساتھ تباہی اور بربادی کی داستان بھی چھوڑ جاتی ہے،ز یادہ ہوتو سیلاب اوروبائی امراض کی شکل میں، کم ہوتو خشک سالی کی صورت میں،اوراگرمعتدل ہوتو رحمت بن کر، مگریہ انسانوں کی بد بختی ہے کہ وہ اس ابررحمت کا فائدہ اٹھانے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ تاہم جہاں تک خشک سالی، سیلاب یا سیلابی کیفیت کی بات ہے موجود ہ دورمیں یہ عذاب الہی نہیں، بلکہ یہ عذاب موجودہ سسٹم اوراس کو قائم رکھے ہوئے ہمارے حکمراں طبقہ ہیں کیونکہ بار بار بارش کی تباہی کے باوجود اس کے سد باب کے لیے کوئی موثر اقدامات اورمنظم و مکمل منصوبہ بندی کا نہ ہونا،انتظامیہ حکومت اور سسٹم کا ناقص پن اور نااہلی ثابت کرتا ہے۔
ذرا غور کیجئے!مانسون سیزن ہر سال آتا ہے اور ہر بارشیں ہرسال آتی ہیں، اور سیلاب بھی آتا ہے۔لیکن صورت حال کا بغور جائزہ لیا جائے تو اس وقت ملک میں جو سیلابی صورتحال ہے یا بارشیں ہو رہی ہیں‘ نہ یہ غیر معمولی ہیں اور نہ ہی انھیں ناگہانی آفات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ چونکہ اس وقت بارش کے سبب جو نقصانات ہو رہے ہیں ان سے بہتر انتظامات کر کے بچا جا سکتا تھا۔ مگرالمیہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں کسی بھی حکومت نے اپنی ”بنیادی ذمہ داریوں“ پر توجہ ہی نہیں دی۔ان کا سارا زور سیاسی جوڑ توڑ، کرسی کا تحفظ، بدعنوانی کا فروغ اور بلند بانگ دعوں کے ارد گرد مرکوزہوتا ہے۔ اسکا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب کوئی ہنگامی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو اس سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تعداد میں نہ تربیت یافتہ عملہ ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ اداروں کے پاس اتنے وسائل کہ وہ فوری حرکت میں آتے ہوئے عام آدمی کو راحت پہنچا سکیں۔اپوزیش جماعتیں برسراقتدار طبقہ کو اسکے لئے مورد الزام ٹہراتی ہیں اور حکمران طبقہ اپوزیشن اور بعض وقت عوام کو بھی اس کا?ذمہ دار گردانتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوجاتاہے۔دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں بھی بہت زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور سمندری طوفان بھی آتے ہیں لیکن وہاں جانی اور مالی نقصانات کی شرح انتہائی کم ہوتی ہے۔
یوروپ میں شدید بارشیں ہوتی ہیں لیکن وہاں برقی شاک سے ہلاکتیں نہیں ہوتیں اور نہ ہی چھتیں گرتی ہیں۔ سڑکیں اور گلیاں بھی دن رات پانی میں ڈوبی نہیں رہتیں‘ تھوڑی دیر کے لیے پانی جمع ہوتا ہے اور پھر طاقتور سیوریج سسٹم کی بدولت پانی سڑکوں اور گلیوں سے غائب ہو جاتا ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ، قدرتی آفات کرۂ ارض پر زندگی کا حصہ ہیں، یہ آتے ہیں اورآتے رہیں گے، قدرت کا جو نظام ہے وہ اپنا کام بہرحال کرے گا۔ پانی جس پر پڑے گا اس کو گیلا کردے گا۔ آگ جہاں لگے گی اسے خاک کردیگی۔ ہواؤں کا طوفان جہاں اْٹھے گا وہ چیزوں کو اْکھاڑ پھینکے گا،تاہم انسان کو قدرت نے عقل دی ہے، وہ متعلقہ وسائل کو بروئے کار لاکر ان سے بچنے کا انتظام کرے۔ اورراگر نہیں کرتا ہے تو”نظامِ قدرت“ سے شکایت فضول ہے۔مگراس ناقابل تردید حقیقت کے باوجود، ذہن کے کسی گوشے میں اک سوال اْٹھتا ہے کہ کیا قدرتی آفات بھی جانبدار ہوتی ہیں؟ یہ ہمیشہ استحصال زدہ اورمحروم طبقوں کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہیں؟
یہ بھی سچ ہے کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہوتے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے ہوئے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟۔میری اس تلخ نوائی پر برہم ہونے سے پہلے ہمیں یہ ضرور بتادیجئے کہ دنیا کا وہ کون سا گناہ ہے جواقتدار واختیار کھنے والے طبقوں کے محلات میں نہیں ہوتے؟۔ یقیناً یہ ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔قدرتی آفات ازل سے ہی انسانی کی آزمائش بنی ہوئی ہیں۔ مگر ان آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی ملک یا قومیں سرخ رو ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں یہ دونوں صفات نہیں پائی جاتی ہیں۔ ان چیلنج جس سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے اورنہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ملک میں جہاں ایسے حالات ہیں وہاں حکمراں اوراپوزیشن طبقہ روایتی طورپر اسکے لئے ایک دوسرے پرالزام عائدکرنے میں مصروف ہیں ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی سطح پر بے حسی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ اِس وقت جب کہ ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر نمایاں ہیں، انہیں اتہام بازی سے فرصت نہیں۔ کسی کو احساس تک نہیں کہ بارشوں کے متاثرین اور جانی و مالی نقصان کے باعث تباہ حال اپنے ہم وطنوں کے لیے اگر کوئی ٹھوس عملی اقدام یا امداد نہیں تو کم از کم لفظی ہمدردی کے دو بول ہی بول دیں موسلادھار بارشوں کے باعث جہاں ایک جانب دریاؤں میں طغیانی اور سیلاب کا شدید خطرہ ہے وہیں بارش کے مابعد اثرات کے طور پر کئی وبائی امراض پھوٹ پڑنے کا بھی اندیشہ ہے، کاش ہمارے متعلقہ محکمے اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے بروقت موثر اقدامات پر توجہ دے سکیں …!!!۔
تحریر:عبدالغفار بلوچ موبائل نمبر 03336478257 ای میل aglound@gmail.com
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی