اپریل 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ٹھیکیداروں کی دنیا ۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

ڈاکٹر طاہرالقادری شیعہ نہیں ہیں مگر ان کی کتاب " فلسفہ شہادت حسین" کسی بھی خون حسین کے سوداگر ذاکر کی تقریر سے زیادہ اثر پذیری رکھتی ہے۔

رضوان ظفر گورمانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مبینہ طور پر جس طرح وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کا ٹھیکیدار طور بزدار ہے ویسے ہی وفاقی منسٹر ہاؤسنگ اینڈ ورکس ڈاکٹر شبیر علی قریشی صاحب کا طور مظہر ارائیں نامی ٹھیکیدار ہے۔گلی کے سولنگ سے لے کر کارپٹ روڈ تک ٹھیکہ ملے گا تو صرف مظہر ارائیں کو۔ڈاکٹر شبیر علی قریشی سابق ایم این اے میاں محسن علی قریشی مرحوم کے صاحبزادے ہیں۔اللہ بخشے میاں محسن قریشی مرحوم کی شرافت و رواداری کی وجہ سے کوٹ ادو کی عوام نے انہیں عزت دی مگر افسوس کہ ڈاکٹر شبیر علی قریشی والد کے نقش قدم پہ نہ چل سکے۔
وزیر موصوف کا حلف اٹھانے کے کچھ دنوں بعد اک سکینڈل منظر عام پہ آیا کہ انہوں نے سرکاری بی ایچ یو شیخ عمر کی بیرونی دیوار توڑکر اس پہ دکانیں بنانے کی کوشش فرمائی جواز یہ تھا کہ ان کے والد محترم نے یہ زمین ہسپتال کو عطیہ کی تھی وہ شاید واپس لینا چاہ رہے تھے۔معاملہ میڈیا پہ آیا اور منسٹر صاحب نے ہسپتال کو پرانی جگہ پہ بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔چونکہ اس معاملے میں ان کے چھوٹے بھائی فرنٹ پہ تھے اس لیے وزیر صاحب کو بینیفٹ آف ڈاؤٹ دیا جا سکتا ہے کہ شاید ان کے علم میں لائے بغیر ان کے چھوٹے بھائی نے دیوار تڑوا ڈالی۔برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ ان کے چھوٹے بھائی پہ الزام ہے کہ وہ وزیر موصوف کا سرکاری ڈالہ خود استعمال کرتے ہیں مزید ان پہ واپڈا کے افسر کو تشدد کا نشانہ بنانے کا اک مقدمہ بھی چل رہا ہے۔
ہسپتال والے وقوعے کے بعد وزیر مملکت ڈاکٹر شبیر علی قریشی کا اک اور سکینڈل سامنے آیا۔کوٹ ادو سے گزرنے والی نہر جو ڈمپ سائیٹ میں تبدیل ہو چکی ہے۔شہر کی نکاسی نہر میں ڈالی جانے کے منصوبے بنائے جاتے ہیں معلوم نہیں کون یہ منصوبے بناتا ہے اور کون انہیں منظور کرتا ہے؟ایسا ہی اک چالیس پچاس لاکھ کا منصوبہ مدنی ٹاؤن کی نکاسی کے لیے بنایا گیا۔اگر مدنی ٹاؤن کے عقب میں سیدھی لائین میں متروک شدہ نہری موگہ استعمال کیا جاتا تو منصوبہ دس لاکھ سے بھی کم میں مکمل ہو سکتا تھا مگر مبینہ طور پہ ڈوگر ٹاؤن نامی زیرتعمیر رہائشی منصوبے کو فائیدہ دینے کے لیے سیوریج نالہ پورے ڈوگر ٹاؤن میں گھما کر واپس نہر میں ڈالا گیا۔وجہ تو معلوم نہیں مگر اس منصوبے سے ڈوگر ٹاؤن کے ریٹس ہائی ہو گئے ہیں کہ انہیں بیٹھے بٹھائے سرکاری خرچ پہ سیوریج کا نظام بنا کر دے دیا گیا۔اس منصوبے کے ٹھیکیدار بھی مظہر ارائیں تھے۔
اب آتے ہیں اس منصوبے پہ جس کی وجہ سے راقم یہ تحریر لکھ رہا ہے اور جس کا راقم چشم دید گواہ ہے۔شیخ عمر قریشی خانوادے کی آبائی بستی ہے اس میں سابق قریشی رہنما میاں عباس قریشی ان کے فرزند سابق سینیٹر میاں امجد عباس قریشی سمیت دیگر قریشی صاحبان بھی رہائش پذیر ہیں۔
میاں عباس قریشی صاحب کی خصوصی توجہ کی وجہ سے شیخ عمر حلقے کا اک نمایاں کاروباری مرکز ہے۔قریشی خاندان کی طرف سے عطیہ کی جانے والی زمینوں کی وجہ سے شیخ عمر میں سرکاری ہسپتال سرکاری سکول مویشیوں کا ہسپتال حتیٰ کہ بینک کی برانچ بھی موجود ہے۔شیخ عمر روڈ کے دونوں طرف دکانیں موجود ہیں جو کرایہ پہ لے کر مقامی افراد روزی روٹی کماتے ہیں۔
ڈاکٹر شبیر علی قریشی صاحب نے شیخ عمر کو کارپٹ روڈ دینے کا منصوبہ دیا اور ٹھیکیدار اس بار بھی مظہر ارائیں ہیں۔اس سے قبل کوٹ ادو پل 88 روڈ اور تونسہ شریف میں بننے والے کارپٹ روڈ کے ٹھیکے ستر سے اسی لاکھ روپے فی کلومیٹر میں ہوئے ہیں مگر شیخ عمر میں 1600 فٹ روڈ کا ٹھیکہ پونے دو کروڑ سے زائد میں دیا گیا اور اس میں بھی ٹھیکیدار نے 70 فیصد وہی پرانا پتھر استعمال کیا۔اس کے علاوہ سڑک کو جان بوجھ کر اتنا بلند کر دیا گیا کہ برلب سڑک موجود دکانیں نیچے چھپ سی گئیں۔پھر سونے پہ سہاگہ سڑک کے دونوں اطراف کئی کئی فٹ کے کھالے بنانے شروع کر دیے گئے جبکہ شہر میں سڑک کنارے اک بھی نلکا یا موٹر نہیں بس بارش کا پانی ہے جو خودبخود ہی نکل سکتا تھا مگر یہاں بھی دونوں کھالوں کو شیخ عمر والی نہر میں ڈالنے کا منصوبہ تھا۔اب آتے ہیں عجب کرپشن کی غضب کہانی پر۔سڑک ہے 27 فٹ کی مگر سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کے لیے ان کی ملکیتی زمین کو سڑک میں شامل کر کے سڑک اور کھالے کئی کئی فٹ بڑھا دیے لیکن جب اپنی دکانیں آئیں تو سڑک سمٹ کر اصل حالت میں آ گئی۔اسی طرح کھالے سیاسی مخالفین کی دکانوں کو تہہ خانہ بناتے ہوئے جب نہر میں ڈالے جانے کے لیے پہنچتے ہیں تو آگے وزیر موصوف کی ملکیتی دکان آ جاتی ہے اس لیے کھالے کو دکان سے پہلے ہی روک دیا جاتا ہے۔اونچی ترین سڑک جب اپنے رفیق کے گھر والی گلی تک آتی ہے تو دوبارہ اصل حالت میں آ جاتی ہے کہ کہیں ان کی گلی نہ ڈوب جائے۔لوگوں کی دکانیں ڈوب جائیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔
میاں امجد عباس قریشی نے ڈی سی مظفرگڑھ کو شکایت درج کرائی تو اک ڈپٹی ڈائریکٹر پلاننگ کو موقع پہ بھیجا گیا جنہوں نے موقع پہ شکایت کو درست قرار دیا۔اس کے بعد ایکسئین شاہد احمدانی اور ایس ڈی او عبدالرشید سمیت اک ٹیم شیخ عمر پہنچی۔اس دن راقم بھی شیخ عمر میں موجود تھا اور تمام باتیں میرے سامنے ہوئیں۔ایکسئین شاہد احمدانی نے کہا کہ وہ حال ہی میں ٹرانسفر ہو کر آئے ہیں بادی النظر میں ناجائز قبضہ اور اقربا پروری کی شکایات درست معلوم ہوتی ہیں مگر چونکہ اب کام مکمل ہونے کو ہے اس لیے وہ منسٹر صاحب اور ٹھیکیدار سے بات کرتے ہیں۔
میاں امجد قریشی کے سوال پہ ایکسین شاہد احمدانی کا کہنا تھا کہ وہ خود حیران ہیں کہ رائیٹ آف وے نہیں تھا تو سڑک چالیس فٹ تک کیسے پہنچی۔یہ تو سیدھا سیدھا قبضہ ہے۔کھالوں کے حوالے سے انہوں نے اسی حیرت کا اظہار کیا کہ اول تو ان کی ضرورت ہی نہیں اگر بنانا بھی تھے تو اتنے بڑے کھالے بنانے کی کیا تک تھی جبکہ پانی قدرتی طور پہ ہی جھکاؤ کی طرف چل کر نکل جاتا ہے۔اگر نہر میں ڈالنا ہی تھا تو پھر منسٹر صاحب کے رفیق کی گلی کو بچانے کے لیے جو کیا گیا اس سے پانی وہی پرانے طریقے سے ہی نکلے گا کھالہ جب منسٹر صاحب کی دکانوں کی وجہ سے نہر میں گیا ہی نہیں تو اسے مکمل کرنے کی کیا تک تھی۔موقع پہ موجود کسانوں نے کہا کہ فصل کے موقع پہ یہاں سے گنے کی ٹرالیوں نے جانا ہوتا ہے ان کھالوں کی وجہ سے شیخ عمر کی کراسنگ بالکل بند ہو چکی ہے۔اس سے روزانہ روڈ بلاک ہو گا اور شیخ عمر کے کاروبار کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کرے گا‍۔
ایکسئین صاحب دو دن کا وقت مانگ کر گئے کہ منصوبے کی کمیوں اور خامیوں (جرائم) کی نشاندہی کے بعد ان کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر شاید منسٹر صاحب سے جھڑکیاں کھانے کے بعد معذرت کر لی۔اب حال یہ ہے حالیہ بارشوں کی وجہ سے شیخ عمر مارکیٹ کی آدھی سے زائد دکانوں میں پانی کھڑا ہے اور کوئی پرسان حال نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

%d bloggers like this: