نومبر 21, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

شیخ خالدزاہد،معاشی بدحالی

غیر متوقع آفت یا سیاسی انتقام؟۔۔۔شیخ خالد زاہد

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آفتیں بتا کر آتیں ہیں؟ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ حالیہ بارشیں غیر متوقع آفت تھیں، بارشیں غیر متوقع ہی ہوتی ہیں۔

شیخ خالد زاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دنیا میں ناکامی کا سامنے کرنے والوں کے پاس ایک ہزار جواز موجودہوتے ہیں،یہ جواز وہ اپنی نااہلی کو چھپانے کیلئے بر ملا استعمال کرتے سنائی دیتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہوتے ہیں کہ اپنی تمام تر ناکامیوں کا ملبہ کسی اور پر ڈال دیتے ہیں۔ عام آدمی کیلئے کامیابی فقط عیش و عشرت پر مبنی زندگی مل جانا ہی ہے جبکہ حقیقت بلکل برعکس ہوتی ہے اوریقینا غور طلب ہے اب غور کرنے کی بھی توفیق اللہ رب العزت ہر کسی کو نہیں دیتے اسکے لئے ریاضت کرنی پڑتی ہے اور پھر وہ پا لیتا ہے یا پا لینے کی چاہ سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اللہ کے مقرب بندوں کی ایک طویل فہرست ہے کیا انکی طرز زندگی عیش و عشرت پر مبنی تھی یا ان کی جستجو کا ماخذ دنیا وی مال و دولت تھا؟ ہمیں ایک منظم طریقے سے اپنے بنیادی مقصد سے بھٹکایا گیا ہے اور یہاں حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ کا ایک شعر شدت سے یاد آیا ہے کہتے ہیں کہ؛

عصرِ حاضر ملک الموت ہے تیرا، جس نے

قبض کی روح تیری دے کے تجھے فکر معاش

آج انسان کی ترجیحات میں اول نمبر پر معاش ہے اور معاش بھی فقط دو وقت کی روٹی نہیں بلکہ الف سے ے تک کی تمام آسائشوں کا حصول ہے۔ ناکامی کا چہرہ تقریبا ً ہر فرد ہی دیکھتا ہے، لیکن کم لوگ اس ناکامی میں چھپی کامیابی کو پاتے ہیں جب کہ اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو ناکامی کو روحانی اور جسمانی طورپر قبول کرلیتے ہیں اور اپنے آپ کو وقت اور حالات کے حوالے کردیتے ہیں۔ معاشرے تقسیم ہیں مال و دولت والے اول نمبر پر آتے ہیں دوئم پر وہ طبقہ ہے جو متوسط طبقہ کہا جاتا ہے جو اپنا گزر بسر آسانی سے کرلیتا ہے اور تیسرے نمبر پر نچلے طبقے کے لوگ ہیں جو معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتے ہیں کما لیا کھا لیا والی طرز کی زندگی گزارتے ہیں اور زندگی کو ایک جہد مسلسل کی طرح بسر کرتے چلے جاتے ہیں۔ وسائل پر اول درجے کا قبضہ ہے، اول درجے میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے متوسط طبقے کے لوگ اول درجے کا ساتھ دیتے ہیں اور انکی ہاں میں ہاں ملاتے دیکھائی دیتے ہیں، اور کبھی اپنے مفادات کی بقاء کیلئے نچلے طبقے کی بھی ترجمانی کرتے سنائی دیتے ہیں۔ اب اول درجے میں کتنے متوسط طبقے والے رسائی پا لیتے ہیں اور کن قربانیوں کی بدولت ا س موضو ع پر پھر لکھینگے۔ ابھی ملک کا اہم ترین موضوع کراچی کی بد ترین صورتحال ہے۔ معیشت کا پہیہ پہلے ہی کورونا نے جام کر رکھا ہے پھر کراچی میں ہونے والی شدید بارشوں نے تو معیشت کی رہی سہی کمر بھی توڑ دی ہے، ان بارشوں میں کتنے ہی تاجروں کی دکانوں اور گوداموں میں بھی پانی  چلا گیا اور طبعی خسارے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

تخریب ایک دن میں نہیں ہوتی بلکہ یہ ہوتے ہوتے ہوتی ہے۔سڑک پر ایک چھوٹا سا گڑھا ہوجاتاہے وہا ں سے گزرنے والے اسے نظر انداز کرتے ہوئے گزرتے جاتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھوٹا سا گڑھا اچھی خاصی جگہ پر پھیل جاتا ہے اور کسی حادثے کا سبب بننے کیلئے تیار ہوجاتا ہے یہاں تک کہ کوئی حادثہ رونما نہیں ہوجاتااس کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اس راستے سے گزرنے والے اس گڑھے کی وسعت کے زیادہ قصور وار ہوتے ہیں کیونکہ نا تو وہ انتظامیہ کو اس گڑھے کی موجود کی اطلاع فراہم کرتے ہیں اور نا ہی کوئی خود سے سد باب کرتے ہیں اور حادثہ ہونے کے بعد اسکی تصویریں بنا بنا کر سماجی ابلاغ پر جمع کرا دیتے ہیں اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اپنی قومی اور سماجی ذمہ داری پوری کر دی۔

جیسا کہ پچھلے دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کا یہ بیانیہ سامنے آیا کہ کراچی میں ہونے والی بارشیں ایک غیر متوقع آفت تھیں، یہ وہی عوامی جماعت کے صاحب ثروت ہیں جن کا کہنا تھا کہ جب بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے اور جب زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے۔اب کوئی یہ پوچھے کہ آفت اگر بتا کر آتی ہے تو کیا کرلیتے تب تو شائد آپ اور آپکی سیاسی جماعت کچھ ایسا کرتے کہ کراچی والوں کی زندگیاں اس سے کہیں زیادہ اجیرن ہوجاتیں۔ آپ نے اللہ کی رحمت کو بطور سیاسی انتقام استعما ل کیا اور بہت خوبصورتی سے وقت اور حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک طرف ایک نئے ضلع کا اضافہ بھی کر دیا۔ بلدیاتی ادارتے مدت کی تکمیل کے باعث تحلیل ہوگئے ہیں۔بظاہر تو پیپلز پارٹی پر قسمت مہربان دیکھائی دے رہی ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ قسمت کی یہ مہربانی پاکستان پیپلز پارٹی کو کہاں لے جاتی ہے۔ یہ وہ سیاسی جماعت ہے جس کی کارگردگی کی منہ بولتی تصویر کشمور سے لیکر کراچی تک دیکھی جاسکتی ہے اور جسے دیکھنے کیلئے تیراکی کا ہنر آنا لازمی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آفتیں بتا کر آتیں ہیں؟ جو آپ کہہ رہے ہیں کہ حالیہ بارشیں غیر متوقع آفت تھیں، بارشیں غیر متوقع ہی ہوتی ہیں۔کراچی دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر آتا ہے لیکن کیا اس شہر کو اس قابل بنایا گیا کہ دنیا اس شہر کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کرے۔کراچی کے انفراسٹرکچر (بنیادی ڈھانچہ)پر باقاعدہ کبھی دھیان نہیں دیا گیا، ہمیشہ کاسمیٹک سرجری سے کام چلایا جاتا رہا اور حالیہ بارشوں نے ساری کاسمیٹکس اتار دیں جس سے وہ بھیانک چہرا سامنے آیا کہ دیکھنے والوں کے ہوش اڑ گئے۔

 آج ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی نے پورے صوبہ سندھ کو اپنی انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھایا ہوا ہے۔آپ اور ضلع بنا لیں لیکن پرانا بلدیاتی نظام جب تک رائج نہیں ہوگا کام ہونا ممکن ہی نہیں ہے جسکی وجہ جاری ہونے فنڈز کے درمیان کی رکاوٹیں ہیں۔یہ سب عوامی نمائندوں کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنی جیت کیلئے حکومتی اختیارات استعمال کرتیں، جیساکے پیپلز پارٹی آج تک کراچی میں اپنا مئیر نہیں بناسکی ہے اس کو یقینی بنانے کی تیاری کیلئے انتظامی انجینیرنگ کرنی شروع کر رکھی ہے۔ اس ملک نے آپ لوگوں کو کیا سے کیا بنا دیا ہے، ہمارے قلم کو زیب نہیں دیتا کہ انفرادی طور پر کسی کی جگ ہنسائی کا سبب بنے لیکن پھر بھی کون کیا تھا اور اس ملک کو لوٹ لوٹ کر کیا بن گئے ہیں اور ملک ِ خداد کو بھوک اور افلاس کی نظر کر دیا ہے، کراچی جیسے شہر کو حقیقت میں اپنے آبائی حلقوں سے بھی بدتر بنادیا ہے، سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی آنکھوں پر طاقت کی ایسی پٹی باندھی ہوئی ہے کہ انہیں کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔

محترم وزیر اعظم بہت جلد کراچی میں موجود ہونگے اور امید کی جاتی ہے کہ کچھ عملی اقدامات ہنگامی بنیادوں پر شروع کئے جائینگے جوکہ کاسمیٹک سرجری نہیں بلکہ کنکریٹ (ٹھوس) اقدامات ہونگے۔ بڑی خواہش ہے کہ کوئی تو ہو جو اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھے اور ملک کے مفادات کی خاطر بر سر پیکار سڑکوں پر پھرتا دیکھائی دے، اس وقت تک اپنے گھر نا لوٹے جب تک ایک ایک پاکستانی کو اس کے گھر تک نا پہنچا دے۔ تمام سیاسی جماعتیں ملک کی مفادات کیلئے خون پسینہ ایک کرنے والے شہر کیلئے ایک ہو جائیں اوروزیر اعظم صاحب کراچی کو تقریباً ایک سال کیلئے وفاق کے زیر انتظام میں لے لیجئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی اس اقدام کی حمایت کرے تاکہ کراچی کو روز روز کے مسائل سے چھٹکارا مل سکے کراچی متوقع اور غیر متوقع تمام حادثات کو سانحات کو برداشت کرنے کا اہل ہوسکے۔

About The Author