نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ایڈیشنل آئی جی پولیس انعام غنی کے خیالات اور تلخ حقائق ۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ جنوبی پنجاب کو باقاعدہ صوبہ ہونا چاہیے. جس کے لئے سب کو مل کرکام کرناہوگا۔

26اگست کو ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب خطہ سرائیکستان انعام غنی نے ضلع رحیم یار خان کا دورہ کیا. اپنے حالیہ دورے کے دوران انہوں مصروف ترین دن گزارا. پولیس لائن میں مختلف تقریبات کے علاوہ محرم الحرام کے حوالے سے انتظامات اور ماڈل تھانہ اقبال آباد سمیت کچھ دیگر مقامات کا وزٹ کیا. چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری رحیم یار خان اور ڈسٹرکٹ پریس کلب رحیم یارخان میں تفصیلی خطاب اور صحافیوں کے پانچ پانچ گزے لمبے سوالوں کے خندہ پیشانی سے تفصیلا جوابات دیئے.میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر انعام غنی اپنی نئی تعیناتی کے بعد سرائیکی وسیب کے مختلف اضلاع کے مختلف طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے ملاقاتیں کرنے اور ملنے کے بعد خطے کے حوالے یہاں کےلوگوں کے جذبات و خیالات، فکر و سوچ، خواہشات، مسائل، مطالبات وغیرہ سے خاصے واقف ہو چکے ہیں. یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کی سوچ اور نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے بات اور خطاب کرتے ہیں. اگر ایڈیشنل آئی جی پولیس سرائیکی وسیب اور یہاں کے عوام کو اپنے مثبت خیالات کے مطابق کچھ ڈیلیور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو ہم انہیں خطہ سرائیکستان کے لیے انعام بھی سمجھیں گے اور اسے غنی بھی مانیں گے. بصورت دیگر لچھےدار باتیں اور خطابات ہر نیا آنے والا آفسر کرتا ہے.عملا معاملہ ہاتھی کے دانتوں والا دیکھنے اور بھگتنے کو موجود ہوتا ہے.سرائیکی وسیب کے سانپوں سے ڈسے ہوئے لوگوں کا رسیوں سے ڈرنا کوئی نہ سمجھ آنے والی بات نہیں ہے. بہرحال ہماری دعا ہے کہ اللہ تبارک تعالی ایڈیشنل آئی جی پولیس انعام غنی کو اپنے نیک ارادوں،انتظامی، اصلاحی و فلاحی مشن و مقاصد کی تکمیل میں کامیابی عطا فرمائے.کچھ باتیں اور سوالات جو ہم کرنا چاہتے تھے انہوں نے ازخود پہلے ہی کر دی ہیں. لگتا موصوف اچھے ماہر نفسیات بھی ہیں. مزید بات کرنے سے قبل میں ان کے طویل خطاب میں سے چند باتیں آپ کے ساتھ شیئر کرنا چایتا ہوں. ملاحظہ فرمائیں.

ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب خطہ سرائیکستان انعام غنی نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منتظر مہدی کے ہمراہ ڈسٹرکٹ پریس کلب میں بڑی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قانون پرعمل درآمد کریں گے اور انصاف کے تقاضے بھی پورے کیے جائیں گے۔ جھوٹے مقدمات کااندراج کرنے والے پولیس افسران کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ پولیس شہادتیں دے رہی ہے اس کے باوجود عوام پولیس کے محکمہ سے خوش نہیں. جس کی بڑی وجہ پولیس کارویہ ہے۔ جسے ٹھیک کرناپڑے گا۔سزا اور جزا میرٹ پر ہونی چاہیے. وسائل کم ہونے کے باعث رحیم یارخان پولیس کو مشکلات کاسامنا ہے. جس کے خاتمہ کے لئے جامع پالیسی اپنائی جارہی ہے۔ میرٹ سے ہٹ کرکسی قسم کاکوئی کام نہیں کیاجائے گا۔کچہ کے علاقہ میں پولیس نے دو سکول قائم کرکے وہاں کے بچوں کو تعلیم دینے کاسلسلہ شروع کررکھاہے جوکہ محکمہ پولیس کا نہیں محکمہ تعلیم کاکام تھا جو پولیس سرانجام دے رہی ہے، تعلیم فراہم کرنے کامقصدعلاقہ میں جرائم میں کمی لانا ہے۔ تعلیم سے ہی جرائم کاخاتمہ کیاجاسکتاہے۔ محرم الحرام کے سلسلہ میں رحیم یارخان پولیس نے بہترین اقدامات کیئے ہیں۔ معاشرے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے. جس کے لئے ایمانداری سے کام کرنے کی ضرورت ہے. حکومت کی ہدایت پر شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والے افراد کی حفاظت کے لئے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں جلد ثمرات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے. پولیس کاکام مجرموں کو پکڑنا ہے تحفظ فراہم کرنا نہیں. مجرموں کو تحفظ فراہم کرنے والے پولیس افسران کو ملازمت کرنے کا کوئی حق نہیں۔مجھے جنوبی پنجاب کے لئے نئی پالیسی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے. جس کے لئے باقاعدہ ہوم ورک مکمل کیاجارہاہے۔ قانون ہر ایک کے لئے برابر ہوناچاہیے. تفریق سے مسائل حل نہیں بلکہ مسائل جنم لیتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی پولیس بھی کے پی کے کی پولیس بن سکتی ہے. تاہم وسائل فراہم کرنے سے ہی پولیس کے مسائل حل ہونگے۔اپر پنجاب میں574افراد کے لیے ایک پولیس ملازم ہے جبکہ ساوتھ پنجاب میں1580افراد کے لیے ایک پولیس ملازم ہے. ایک سوال کے جواب میں ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب انعام غنی نے کہاکہ ڈی پی او اور آر پی او کی تعیناتی جنوبی پنجاب سے نہیں لاہور سے ہوگی. تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کی خواہش ہے کہ جنوبی پنجاب کو باقاعدہ صوبہ ہونا چاہیے. جس کے لئے سب کو مل کرکام کرناہوگا۔

محترم قارئین کرام،، یقینا انعام غنی کی باتیں دل کو چھو لینے والی ہیں.سچ اور حقیقت تو یہ ہے کہ سرکاری زبان میں جنوبی پنجاب عوام زبان میں سرائیکی وسیب کے اضلاع کے ساتھ تخت لاہور کی جانب سے اس سے بھی کہیں زیادہ بڑھ کر سوتیلا سلوک اور استحصالی رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے اور ہنوز کیا جا رہا ہے. یہاں کے عوام نے تنگ آکر اپنے جملہ مسائل و مشکلات کا ایک جامع اور مستقل حل علیحدہ سرائیکی صوبہ کو سمجھا اور اس کا باقاعدہ مطالبہ کرکے باقاعدہ ایک پرامن تحریک شروع کیے ہوئے ہیں.انعام غنی نے ایک نیک اور اچھے شگون کا اظہار کیا ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں جنوبی پنجاب پر مشتمل علیحدہ صوبہ چاہتے ہیں. ہمیں امید ہے کہ اس سوچ کے بعد یقینا علیحدہ صوبے کے قیام کی منزل خاصی قریب آ چکی ہے. جناب انعام غنی نے اپر پنجاب اور ساوتھ پنجاب میں آبادی کے لحاظ سے پولیس ملازمین کے جس فرق کے بارے میں بتایا ہے. یہ کوئی عام بات یا ایک نقطہ نہیں اس ایک معاملے کے اندر کئی باتیں اور معاملات ہیں.

آبادی کے لحاظ سے جہاں اپر پنجاب میں 574افراد پر ایک پولیس ملازم ہے وہاں سرائیکی وسیب میں 1580افراد کے لیے ایک پولیس ملازم ہونے کا سیدھا سادھا اور صاف صاف مطلب یہ ہے کہ ایک طرف یہاں کے پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کو ان کے روزگار کا حق انہیں نہیں دیا جا رہا. دوسری جانب ساوتھ پنجاب کے پولیس ملازمین سے اپر پنجاب کے مقابلے میں بہت زیادہ کام لیا جا رہا ہے.انصاف کا تقاضا تو یہ بنتا ہے کہ ساوتھ پنجاب سرائیکی وسیب رقبے کے لحاظ سے اپر پنجاب سے خاصا بڑا ہے. یہاں نفری، فنڈز، ٹرانسپورٹ، اس کےفیول اخراجات زیادہ دیئے جانے چاہئیے لیکن معاملہ اور حقیقت اس کے برعکس ہے.اس فرق کے باوجود بھی اپر پنجاب میں کرائم کی شرح سرائیکی وسیب کے مقابلے میں زیادہ ہے.پولیس کو فراہم کی جانے والی دوسری سہولیات میں بھی کافی فرق بتایا جاتا ہے.کوئی مانے یا نہ مانے یہ بھی سچ یے کہ اپر پنجاب کے مقابلے میں سرائیکی وسیب میں چٹی یعنی رشوت کی شرح اور کمائی زیادہ ہے. فی الوقت جس کی تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں ہے.کیونکہ یہ ٹاپک بذات خود خاصا گہرا اور دلچسپ ہے. میں یہاں پر اپنے ضلع رحیم یار خان محکمہ پولیس کے حوالے سے ایڈیشنل آئی جی کی خدمت میں کچھ حقائق ان کے سامنا رکھنا چاہتا ہوں شاید ان کی نظر کرم ہونے سے حالات اور صورت حال میں کچھ بہتری آ جائے.

ضلع کے27تھانوں میں سے درج ذیل تھانہ جات اپنی بلڈنگ تک سے محروم ہیں.تھانہ سٹی بی ڈویژن، سٹی سی ڈویژن رحیم یار خان، تھانہ ائر پورٹ، آب حیات، منٹھار، ظاہر پیر، سہجہ وغیرہ شامل ہیں. ان میں سے کچھ کرایہ کی بلڈنگ میں اور کچھ دوسرے اداروں کی بلڈنگز پر قبضہ کرکے بنائے گئے ہیں. تھانے کی ضروریات، انتظامی و سیکیورٹی تقاضوں کے پیش نظر تھانے کے لیے جیسی بلڈنگ ضروری ہو اگر سرے سے ملازمین کو وہ بھی مہیا نہ کی جائے تو اگلی کارکردگی ایک سوالیہ نشان بن جاتی ہے.پھر نجی عقوبت خانے قائم کرنے کا رحجان بڑھنے لگتا ہے. یہ عقوبت خانے آفیسرز کی ذاتی اسٹیٹ جاگیر راج ہوتے ہیں جہاں قانون کی بجائے صرف اور صرف ان کی حکمرانی اور حکم چلتا ہے. بلڈنگ سے محروم تھانوں کو سب سے پہلے اپنی بلڈنگز فراہم کی جائیں. دوسری بات جو میں کرنا ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ جس طرح اپر پنجاب کے اضلاع اور تحیصلوں کے مقابلے میں سرائیکی وسیب میں بڑے بڑے اضلاع اور بڑی بڑی تحصیلیں ہیں اسی طرح یہاں تھانے بھی بڑے بڑے ہیں. وسیع ایریا میں پھیلے ہوئے تھانہ جات کے لیے گشت اور ٹرانسپورٹیشن کے لیے مطلوبہ وسائل اور سہولیات نہ ہیں. پولیس کے لیے دور دراز کے علاقوں میں بروقت پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ضلع رحیم یار خان میں کم ازکم درج ذیل بڑے بڑے تھانہ جات کو تقسیم کرکے تھانوں کی تعداد بڑھائی جائے.تھانہ صدر صادق آباد، سٹی صادق آباد، رکن پور، کوٹسمابہ، تھانہ صدر خان پور، سٹی خان پور، ظاہر پیر، شیدانی شریف، ترنڈہ محمد پناہ وغیرہ. صرف گشت ڈیوٹی سر انجام دینے والی پٹرولنگ پولیس چوکیوں کو اگر تھانہ جات کا درجہ دے کر کم وسائل کے ساتھ بہتری پیدا کی جا سکتی ہے تو اس پر ضرور غور کرنا چاہئیے. پولیس آفیسرز کو کیس کے تفیشی اخراجات کا نہ ملنا یا بروقت نہ ملنا اور پھر پورے نہ ملنے کا بوجھ بھی مدعی یا ملزم میں سے کسی ایک کی جیب پر پڑتا ہے. کیس کے اندراج کے بعد رشوت کی یہ پہلی سیڑھی ہے.ضروری ہے کیس کی تفتیش ملتے ہی کم ازکم ادھے اخراجات فورا ادا کر دیئے جائیں اور باقی ادھے تفتیش مکمل ہوتے ہی مل جانے چاہئیں.پولیس کی کارکردگی میں کمی کی کئی دیگر وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ بھی یے کہ پولیس میں ان ٹائم پروموشن کا نہ ملنا بھی ہے.پولیس میں پروموشن کا طریقہ کار اگر پاک آرمی کی طرح کر دیا جائے تو اس سے ایک طرف کارکردگی میں بہتری آئے گی اور دوسری طرف کرپشن میں کمی آئے گی.

جھوٹے مقدمات کے اندراج کی طرح سچے واقعے اور مقدمات کا رجسٹرڈ نہ کیا جانا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے ایسا عموما طاقت ور اور بااثر شخصیت، گروہ کے معاملے میں دیکھنے کو ملتا.یہ بھی میرٹ اور انصاف کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے. ڈسٹرکٹ کچہری کے اندر دن دیہاڑے کا واقعہ ہو تھانے میں تحریری درخواست دی جائے اور اندراج مقدمہ نہ ہو تو پولیس کے اس رویے کو کیا نام دیا جائے. پھر سونے پےسہاگہ یہ رحیم یار خان کا ماڈل تھانہ سٹی اے ڈویژن ہو. جہاں پر تعینات ایس ایچ او کی شہرت بھی اچھی ہو. اس کے اوپر بیٹھے ہوئے ڈی ایس پی کی نیک نامی اور ایمانداری کے چرچے بھی شہر بھر ہوں. وہاں ایک نہتی لڑکی کے ساتھ احاطہ عدالت کے اندر پیش آنے والے واقعے کی ایف آئی آر اس لیے درج نہ ہو سکے کہ ملزمان انتہائی بااثر اور حکومت وقت کے ایک بااثر صوبائی وزیر اور ایک وفاقی وزیر کے چہیتے اور دست راست ہیں.میں سوچ رہاہوں کہ ان حالات میں میرٹ اور انصاف کا کیا بنے گا. کوئی نیک نام ریفارمر، انصاف پسند پولیس آفیسر بتا سکتا ہے کہ پولیس سیاسی دباو سے کب باہر نکلے گی?.کیا کراچی سے آنے والی حنا خورشید درانی ایڈووکیٹ کا اپنے ذاتی کیس کی پیشی کے دوران عدالت میں راستہ روکنا، گالیاں دینا، ہاتھا پائی کرنا کوئی جرم نہیں ہے. وسیب اور رحیم یار خان شہر کی بیٹی حنا خورشید درانی، اس کی ماں اور بھائی کی 46ایکڑ کروڑوں روپے کی زمین کون ہتھیانا چاہتا ہے. زمین ہتھیانے کے لیے کیا کیا طریقہ واردات اختیار کیے جا رہے ہیں.ضلعی انتظامیہ کی طرفداری اور جانبداری کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے. کن باہمی مفادات کے تحت کون کون یہ کھیل کھیلنے میں شریک ہیں. انشاء اللہ کسی اگلے کالم میں حنا خورشید خان درانی کی پوری داستان سیاق و سباق، حقائق اور ریکارڈ کی روشنی میں سب کے سامنے رکھیں گے.

قابل صد احترام ایڈیشنل آئی جی انعام غنی صاحب آپ اور آپ کی باتیں ہمیں اچھی لگی ہیں.ان میں سچائی کی جھلک سی دکھائی دی ہے. اس لیے ایک چھوٹا سا کیس اس کالم کے ذریعے آپ کے گوش گزار کیا ہے.یہ سیاسی دباؤ کتنی طاقت اور ظالم چیز ہے اسے صرف وہی لوگ محسوس کر سکتے جو بھگت رہے ہیں.مسلسل سیاسی دباؤ کی موجودگی میں پولیس سے ایک نہتی لڑکی کو انصاف مل سکے گا یا نہیں?.

About The Author