اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بلاامتیاز احتساب مگر کیسے؟ ۔۔۔حیدر جاوید سید

آسان بلکہ سادہ جواب یہ ہے کہ ”جی نہیں” تو کیا کسی حکومت میں یہ دم خم ہے کہ وہ سیاستدانوں کے علاوہ کسی ”اور” کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے؟

پچھلے چند دنوں کی غیرحاضری پر قارئین سے معذرت خواہوں’ زندگی کے معمولات میں دکھ سکھ کی سانجھ کیساتھ اور بھی بہت کچھ ہے۔
ان تین چار دنوں میں بہت ساری گرماگرم خبریں تھیں اور کچھ واقعات بھی۔ سیاست حسب معمول ہے،
اسی دوران ایک وفاقی وزیر غلام سرور خان کا اچھوتا بیان بھی سامنے آیا وہ کہتے ہیں کہ
”پچھلے 35سالوں کے دوران ملک کو لوٹنے والے واجب القتل ہیں”
سادہ لفظوں میں انہوں نے جو کہا وہ سب سمجھ رہے ہیں۔

مروجہ سیاست میں چور، ڈاکو، لٹیرے اور غیرملکی ایجنٹ ہمیشہ سابقین ہوتے ہیں۔
حاضر وناظر مخلوق تو مسیحا ونجات دہندہ کہلاتی ہے۔ غلام سرور خان پچھلے 35سال کے دوران اقتدار میں رہنے والی جماعتوں میں رہ چکے، ان جماعتوں پر ہی ملک کو لوٹنے کے الزامات ہیں۔
آزاد اُمیدوار کے طور پر وہ سیاست کے میدان میں اُترے، پھر پیپلز پارٹی اور ق لیگ سے ہوتے ہوئے آج کل تحریک انصاف میں ہیں۔
واجب القتل کا فتویٰ یا مطالبہ ہمارے سماج کا من پسند کھابا ہے، یوں کہہ لیجئے کہ لاہوری نان چنے سے بھی زیادہ یہ ڈش فروخت ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے احتساب کا ایسا باوقار اور شفاف نظام کیوں نہیں بناتے جس پر کوئی اُنگلی نہ اُٹھا سکے اور الزامات کی زد میں آنے والوں کیساتھ انصاف ہو۔
سالہا سال دھکے نہ کھاتے پھریں؟
اصولی طور پر ہمارے یہاں احتساب کا نظام ہمیشہ اپوزیشن کو رگیدنے کا ذریعہ بنا۔
ہمارے محبوب جنرل’ جنرل پرویز مشرف نے نظام احتساب کو ہتھیار بنا کر ق لیگ بنوائی اور پھر پیپلز پارٹی کے بطن سے ”تین پی کی جگہ چار پی” والی پارٹی راؤ سکندر اقبال کی قیادت میں برآمد کرلی۔
ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی مرحوم اور مخدوم سید فیصل صالح حیات ایک پی کے اضافے کیساتھ بننے والی محب وطن پیپلز پارٹی میں تھے۔
سیاسی جماعتوں کو توڑنے اور وفاداروں کی نئی جماعت بنوانے میں ہمارے سابق فوجی حکمران پیش پیش رہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایوب خان نے کنونشن مسلم لیگ بنوائی ایک مسلم لیگ جنرل ضیاء الحق کے غیرجماعتی انتخابات کے بطن سے پیدا ہوئی۔
جنرل مشرف ق لیگ کے سرپرست اعلیٰ بنے۔ اللہ بخشے جنرل یحییٰ خان نے 1970ء کے انتخابات میں قیوم مسلم لیگ کی سرپرستی فرمائی تھی۔
یہاں ساعت بھر کیلئے سانس لیجئے،
آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جس جمہوری نظام کی علمبردار ہیں وہ جمہوریت خود ان کے تنظیمی ڈھانچے میں دستیاب نہیں۔
مذہبی وسیاسی جماعتوں کو خاندانی کمپنیوں کی طرح چلایا جا رہا ہے۔
جمہوریت کیلئے ان میں سے بعض جماعتوں کے رہنماؤں اور کارکنوں کی قربانیاں بلاشبہ قابل تحسین ہیں مگر جماعتوں کے اندر جمہوریت کے فروغ کیلئے اقدامات؟
اس کا جواب صفر ہے۔
بعض جماعتوں میں انتخابات کا تکلف ہوتا ہے اور نتیجہ، وہ سب کے سامنے ہے۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو فروغ ملے تو بہت ساری قباحتوں سے نجات مل سکتی ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کیا پچھلے 35سالوں میں کرپشن کے الزامات صرف سیاستدانوں پر لگے؟
آسان بلکہ سادہ جواب یہ ہے کہ ”جی نہیں” تو کیا کسی حکومت میں یہ دم خم ہے کہ وہ سیاستدانوں کے علاوہ کسی ”اور” کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے؟

کرپشن ایک مسئلہ ہے لیکن اس کا شور مچا کر کون کس کو تحفظ دیتا چلا آرہا ہے۔
کیا طے شدہ حدود سے تجاوز کرپشن اور منہ زوری نہیں۔
دو تین سوالات اور تھے لیکن عرض کرنے سے قاصر ہوں کہ ان کی وجہ سے حب الوطنی پر حرف آتا ہے۔
پچھلے چار عشروں سے ان کالموں میں تواتر کیساتھ عرض کرتا چلا آرہا ہوں کہ طبقاتی جمہوریت اور شخصی حکومتوں کی اپنی اپنی ضروریات وترجیحات ہوتی ہیں۔ وسیع تر عوامی مفادات’ وسائل کی منصفانہ تقسیم، قانون کی سربلندی اور بلاامتیاز احتساب’ یہ وہ خواب ہیں جو تعبیروں سے پہلے چوری ہوگئے۔

آپ پچھلے چالیس برسوں کی سیاسی تاریخ کے اوراق اُلٹ کر دیکھ لیجئے اس دوران اقتدار میں آنے والی حکومتوں (وہ سیاسی تھیں یا شخصی) میں کون کون شامل رہا اور آج جو لوگ حکومت میں ہیں ان میں سے اکثر2018ء سے قبل کہاں تھے۔
طبقاتی جمہوریت کا حسن یہی ہے کہ وہ مخصوص اشرافیہ کو بہرصورت تحفظ فراہم کرتی ہے۔
یوں کہہ لیجئے کہ طبقاتی جمہوریت ایک مخصوص اشرافیہ کے ڈیروں’ دفتروں اور فارم ہاؤسز پر پلتی پھلتی پھولتی ہے۔
سو اگر ہم یا کوئی اور مساوات’ عدل اور عوامی جمہوریت کا خواہش مند ہے تو پھر یہ فرض بنتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو داخلی طور پر جمہوری عمل کو پروان چڑھانے پر مجبور کیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیسے کریں؟
ووٹ کی طاقت سے’ اس طاقت کا پہلا استعمال جماعتوں کے اندر ادارے بنانے کیلئے کیا جائے۔
سیاسی جماعتوں کو مجبور کیا جائے کہ وہ تنظیمی ڈھانچے جمہوری بنیاد وں پر بنائیں اور اپنے پارلیمانی بورڈز میں منتخب وتنظیمی عہدیداران کو شامل کریں تاکہ ٹکٹوں کی تقسیم کے وقت کارکن فیصلہ کریں۔
بظاہر یہ فوری طور پر ہونا ممکن نہیں لیکن شروعات تو ہونی چاہئے۔
اسی طرح ایک قومی کمیشن کے قیام کی ضرورت ہے جو پچھلے چالیس سالوں کے دوران کرپشن اور اقرباء پروری کیساتھ حدود سے تجاوز کے مرتکب افراد کیخلاف کراس دا بورڈ چھان بین کرے کیونکہ صرف سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات کا نزلہ گرانے سے معاملات سدھرنے کے نہیں۔

آخری بات یہ ہے کہ احتساب کے نام پر سیاسی انتقام کا تاثر دور ہونا چاہئے۔
اس کیلئے ضروری ہے کہ خود جن حکومتی رہنماؤں پر کچھ الزامات ہیں وہ حکومتی منصبوں سے الگ ہو کر قانون کا سامنا کریں۔

%d bloggers like this: