نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

نیا صوبہ اور بہاول پور۔۔۔ رسول بخش رئیس

میرے لئے یہ کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں کہ ان دو پُرانی ریاستوں کی جگہ اب ایک صوبہ بنے۔ اس کا کیا نام ہو یا ایک صوبہ بنے یا دو صوبے ہوں۔

پتہ نہیں پنجاب کو نئے صوبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے یا نہیں‘ لیکن ہمارے سرائیکی وسیب کے دانشور اور سیاسی کارکن دہائیوں سے آپس میں تقسیم چلے آ رہے ہیں۔ سئیں عاشق بزدار سے طالب علمی کے زمانے سے یارانہ ہے کہ ہماری سیاسی اور فکری راہوں کے دھارے وسیبوں کی حد تک آپس میں ملتے ہیں۔ ان کا قد و قامت اس ناچیز سے بہت بڑا ہے کہ انہوں نے اپنی تمام زندگی سرائیکی ادب کی تخلیق اور ثقافت کی ترویج میں لگا دی ہے۔ میرا ایسا کوئی دعویٰ نہیں‘ مگر اس خطے کی تاریخ‘ سیاست اور ثقافت میں لگائو بہت پُرانا ہے۔ ایک عرصہ سے سابق ریاست بہاول پور کی تاریخ اور سیاست پر تحقیق شروع کر رکھی ہے‘ مگر کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ سئیں عاشق بزدار صاحب وقتاً فوقتاً پوچھ لیتے ہیں کہ سئیں اس کام کا کیا ہوا‘ کہاں تک پہنچا‘ تو میں جواب بنا دیتا ہوں کہ ابھی کچھ سال مزید لگیں گے۔ اس بار میں یہ بھی کہہ بیٹھا کہ ”جنوبی پنجاب‘‘ کی اصطلاح تو مجھے عجیب و غریب لگتی ہے‘ اور کیوں نہ ہم ذرا اس خطے کی تاریخ کو بھی کھنگال لیں کہ شاید وہاں سے ہمیں کوئی رہنمائی مل جائے۔ دیگر سرائیکی قوم پرستوں کی طرح عاشق بزدار بھی سرائیکی صوبے کے مطالبے پر بضد ہیں۔ موجودہ ملتان‘ بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژنوں کے علاوہ سرائیکی دانش ور سکھر‘ میانوالی‘ جھنگ اور ڈیرہ غازی خان کو بھی سرائیکی صوبے میں شامل سمجھتے ہیں۔ میں نے کہا بتایا کہ تاریخ میں تو ملتان اور بہاول پور دو الگ ریاستیں تھیں‘ ملتان بہاول پور سے زیادہ قدیم ہے۔ رنجیت سنگھ کی پنجاب ریاست نے کئی حملوں کے بعد اس پر قبضہ کیا تھا اور اپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا۔ بہاول پور کے نواب کچھ زیادہ تیز اور پھرتیلے نکلے۔ کچھ دیر تو رنجیت سنگھ کے دربارکو خراج ادا کرتے رہے‘ مگر بڑھتے ہوئے خطرے کے باعث انہوں نے انگریز حکومت کے ساتھ باہمی دفاع کے معاہدے کر کے رنجیت سنگھ کے خلاف توازن پیدا کر لیا۔
میرے لئے یہ کوئی نظریاتی مسئلہ نہیں کہ ان دو پُرانی ریاستوں کی جگہ اب ایک صوبہ بنے۔ اس کا کیا نام ہو یا ایک صوبہ بنے یا دو صوبے ہوں۔ یاد پڑتا ہے کہ جب کسی انگریزی اخبار میں کالم لکھتا تھا تو کبھی صوبہ ملتان اور صوبہ بہاول پور کی بات کی تھی۔ عاشق بزدار صاحب سے جب یہ تذکرہ کیا تو برہمی کے بجائے منت سماجت پر اتر آئے کہ اپنی آئندہ کتاب‘ جو پتہ نہیں کب لکھی جائے گی‘ میں بہاول پور کو سرائیکی وسیب کا حصہ ہی لکھوں۔ سر آنکھوں پر‘ بالکل ایسا ہی ہے‘ مگر بہاول پور کی اپنی تاریخ‘ شناخت اور ریاست کو بطور صوبہ بحال کرانے کی ایک شاندار جدوجہد بھی ہے۔ سرائیکی دانش ور بہاول پور کو ایک ”سازش‘‘ سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ صوبہ یا صوبے بنتے ہیں یا نہیں‘ ہماری یہ لڑائی کافی عرصے سے جاری ہے۔ جس لڑائی کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں‘ دراصل سیاسی اور فکری اختلاف ہے جو ایک توانا معاشرے کی علامت اور پہچان ہے۔ جمہوری اندازِ فکر اور طرزِ عمل ہو تو درمیانی راہ نکل ہی آتی ہے۔ دیکھتے ہیں ہمارے سرائیکی آگے چل کر اس مسئلے کا کیا حل ڈھونڈ پاتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ”جنوبی پنجاب‘‘ اور صوبے کے موضوع پر ایک برقی محاضرے میں شرکت کا موقع ملا‘ جس کا انعقاد لاہور کی نامور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے مورخ اور مصنف جناب پروفیسر یعقوب بنگش نے کیا تھا۔ ہمارے وسیب میں سے مظہر عارف صاحب سے مکالمہ شروع ہوا اور اس خاکسار کی چند معروضات پر ختم ہوا۔ درمیان میں جنوبی پنجاب میں سے تین قد آور سیاسی شخصیات نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ سئیں اویس لغاری‘ سئیں محمد موسیٰ گیلانی اور سئیں محسن لغاری صاحب نے ملک اور پنجاب کی تین سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کی‘ مگر سیاسی وفا داریوں سے بالا تر سب اس بات پر متفق ٹھہرے کہ سرائیکی وسیب کی محرومیاں عرصہ دراز سے چلی آ رہی ہیں۔ وعدے وعید کئے جاتے ہیں‘ لیکن اقتدار میں آ کر سب بھول جاتے ہیں۔ سب نے پنجاب اسمبلی میں کئی قراردادوں کا تذکرہ کیا‘ پارٹیوں کے منشور میں جو کچھ لکھا گیا اور انتخابات کے دوران جو نعرے لگائے وہ بھی دہرائے گئے۔ آخر میں جو میں سمجھ سکا‘ وہ بات یہ تھی کہ سئیں یہ کام اتنا آسان نہیں۔ مانا کہ نعرے لگائے‘ قراردادیں پاس کیں‘ بیانات دئیے اور وعدے بھی ہم نے کئے مگر کیا کریں‘ دوسرے صوبوں کی رضا مندی ضروری ہے‘ اور پنجاب کے اندر مفاہمت اور ہم آہنگی کے بغیر نئے صوبے کا خواب بس خواب ہی رہے گا۔
کاش یہ سب باتیں ہم عوام کے سامنے بھی رکھیں کہ رکاوٹیں کیا ہیں اور کس قسم کی پیچیدگیوں کا سامنا ہے۔ کچھ ذکر کرنا بہت ضروری ہے۔ پہلی بات یہ کہ پنجاب کا مقتدر طبقہ اور دانشور‘ دونوں جنوبی پنجاب کو پنجاب اس لئے کہتے ہیں کہ وہ سرائیکی کی لسانی شناخت کا ابھی قائل نہیں ہو سکا۔ اس کے نزدیک سرائیکی پنجاب کی ”بولی‘‘ ہے اور اس کا ایک لہجہ ہے۔ گزشتہ ایک صدی میں آہستہ آہستہ سرائیکی وسیب میں پنجاب کے مختلف علاقوں سے آباد کاروں کو زمینیں الاٹ ہونا شروع ہوئیں اور وہ ہجرت کر کے وہاں بسنا شروع ہو گئے۔ اس کی ابتدا ریاست بہاول پور کی ”ستلج ویلی‘‘ میں نہری نظام کی تکمیل کے بعد ہوئی۔ ان کے خلاف احتجاج کی آوازیں تب بھی اٹھی تھیں‘ مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ نواب صاحبان ریگستانی بنجر زمینیں آباد دیکھنا چاہتے تھے‘ اور انگریز حکومت اپنا لگایا ہوا سرمایہ مع منافع وصول کرنے کے درپے تھی۔ آزادی کے بعد مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں سے مہاجرین نہ صرف ریاست بہاول پور بلکہ سارے جنوبی پنجاب میں آ کر بسے۔ پنجاب کے دیگر علاقوں میں بھی یہی ہوا۔ جنوبی پنجاب اب کثیراللسانی علاقہ بن چکا ہے۔ پنجابی آباد کار شاید صوبے کی تقسیم پر تو راضی ہو جائیں‘ لیکن لسانی بنیادوں پر تشکیل کا نعرہ انہیں ایک انجانے خوف میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پنجاب میں اکثریت‘ اور نئے صوبے میں اقلیت کی حیثیت میں جینے کے حوالے سے خدشات کچھ حلقوں میں شدید ہیں‘ اس لئے سب سے بڑا چیلنج وسیب میں بسنے والے پنجابی گروہوں کو‘ جو سابق ریاست بہاول پور اور ملتان کے کچھ علاقوں میں اکثریت حاصل کر چکے ہیں‘ قائل کرنا ہے۔ پنجابی دانشور پنجاب کی تقسیم در تقسیم پر شاید کبھی آمادہ نہ ہوں۔
سرائیکی سیاست دانوں کو اور دیگر صوبوں کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو اپنی بات منوانا لازم ہو گا۔ پختون اور سندھی قوم پرست پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات پر تو خوش ہوتے ہیں لیکن اپنے صوبوں میں کراچی اور ہزارہ کے صوبوں کے مطالبات کو فقط ایک ”سازش‘‘ کا لیبل لگا کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں۔ اس بات پر بھی وہ تڑپ اٹھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب صوبہ بننے کی صورت میں ”پنجاب‘‘ کی نشستیں دگنی ہو جائیں گی۔ اصل معاملہ یہ ہے سرائیکی صوبے یا جنوبی پنجاب کا نعرہ لگانے والوں میں ابھی تک ایسی قیادت سامنے نہیں آئی جو سیاسی وفاداریوں سے بالا تر ہو کر سرائیکی صوبے کی تحریک کو آگے بڑھا سکے۔ بنیادی طور پر یہ دانشوروں اور متوسط طبقے کی تحریک ہے اور وہ خود سیاسی میدانِ عمل میں سیاسی وڈیروں اور بڑے بڑے سئیوں کے سامنے دم نہیں مار سکتے۔
اچھی بات یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی پنجاب میں ایک نیا انتظامی ڈھانچہ ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔ محاضرے میں محسن لغاری صاحب نے اس کے جو انتظامی اور قانونی خدوخال ہمارے سامنے رکھے‘ ان سے وسیب کی ترقی تو شاید ممکن ہو جائے‘ صوبہ یا صوبوں کی نوبت ابھی نہیں آ سکے گی۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ نہ جانے اس خطے کے لوگ محرومیوں اور وڈیرہ شاہی کی قوتوں کے شکنجوں میں صدیوں سے کیسے رہ رہے ہیں؟

About The Author