مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مبارکبادیں اور ساون ۔۔۔گلزار احمد

ایک سرائیکی بھائی نے پہلا روزہ رکھا اور شام کو بتایا ۔۔گئیے نمانڑے روزڑے باقی رہ گئیے نو تے وی یعنی صرف 29 روزے بقایا ہیں

جمعتہ المبارک کے روز یوم آذادی کے موقع پر وزیراعظم جناب عمران خان نے ایک وڈیو خطاب کے ذریعےقوم کو تین مبارکبادیں اور چار خوشخبریاں سنائیں۔

مبارکبادوں میں سے سب سے اہم یہ ہے کی بجلی پیدا کرنے والے انٹر نیشنل پاور پروڈیوسرز کے ساتھ ایک نیا معاھدہ طے پا گیا ہے جس کے نتیجے میں عوام اورصنعتوں کو سستی بجلی فراہم ہو گی۔ بلاشبہ قوم کے لیے یہ بہت اہم خبر ہے کہ لوڈشیڈنگ اور مہنگی بجلی نے گھریلو صارفین کا ناک میں دم کر رکھا ہے جبکہ صنعتوں کی پیداوار میں کمی ہوتی ہے اور مہنگی بجلی سے پراڈکٹ بھی مہنگا ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہم بین الاقوامی منڈی میں دوسرے ملکوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔یا تو ہماری صنعتی پیداوار کی چیزیں بکتی نہیں یا پھر لاگت سے بھی کم قیمت پر بیچنی پڑتی ہیں کیونکہ ملک کو قرضے اتارنے کے لیے زر مبادلہ کمانے کے جتن کرنے پڑتے ہیں۔ خیر وزیراعظم کی اس خوشخبری کے اثرات ڈیرہ کے عوام پر پڑیں گے یا نہیں یہ بھی ایک سوال ہے کیونکہ جب پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ختم یا کم ہوتی ہے ہمارے ہاں یہ سلسلہ اب بھی ظالمانہ طریقے سے جاری ہے اور اس پر جرمانے بھی لگتے ہیں۔ یوم آذادی کے دن بھی شدید گرمی کے باوجود لوڈشیڈنگ جاری رہی بلکہ پچھلے ہفتے تو گرمی نے ڈیرہ میں ریکارڈ توڑ دیا۔ خیر سرائیکی کا ایک مشھور گیت ہے ؎

بھانویں جانڑیں یار نہ جانڑے ۔ساڈا ڈھول جوانیاں مانڑے ۔۔۔۔ مطلب میرا محبوب میری پروا کرتا ہے یا نہیں کرتا بس ہماری دعا ہے ہمارے محبوب کی جوانی برقرار رہے اور خوب انجائے کرے۔ وزیراعظم نے بجلی کی خوشخبری سناتے وقت یہ نہیں بتایا کہ کس ہستی نے قوم و ملک کو بیچ کر بجلی کے یہ غلط معاھدے کیے اور کتنا پیسہ کمایا اور قوم کو کتنا نقصان ہوا؟ جب یہ معاھدے عمل میں لائے جا رہے تھےاس وقت بھی قوم کو اسی طرح کی خوشخبری سنائی گئی تھی کہ عنقریب ان معاھدوں سے پاکستان اکنامک ٹائیگر بننے جا رہا ہے اور ہم سنگاپور۔کوریا ۔ملائیشیا کی طرح کی معیشت بن جائینگے وغیرہ وغیرہ۔اس وقت بھی قوم نے یہ خوشخبری سن کر خوب تالیاں بجائی تھیں جیسے آج میں اندر اندر سے خوش ہو رہا ہوں کیونکہ ہمارا کام تالیاں بجانا رہ گیا ہے ؎ درد اندر دے اندر سارے باہر کراں تاں گھائل ھو ۔ لگے ہاتھوں ان پرانے معاھدوں کی تفصیل بھی قوم کے سامنے پیش کر دی جائے تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ ہم ٹائیگر بنتے بنتے افریکی ملکوں سے زیادہ مقروض کیوں ہو گئیے۔

وزیراعظم صاحب کی خوشخبریوں اور مبارکبادیوں سے متاثر ہو کر میں نے بھی ڈیرہ والوں کو ایک بڑی خوشخبری سنا ڈالی۔ ہوا یوں کہ ڈیرہ میں ساون کی بارش کا انتظار کرتے کرتے جب تھک گئیے تو آج سنیچر کے روز ساون کی 31 تاریخ آ پہنچی اور صبح پانچ بجے ڈیرہ شھر کی فضا پر گہرے کالے ساون کے بادل نمودار ہوگئے اور ہلکی رم جھم رمجھم بھی شروع ہوگئی۔ میں بہت ایکسائیٹڈ ہو گیا اور جذبات سے مغلوب ہو کر بادل کی تصویر فیس بک پر اس خوشخبری کے ساتھ لگادی کہ ڈیرہ میں بارش شروع ہے۔ اوپر مشھور شاعر رحمت اللہ عامر نے اپنے صحن کی پھوار کی فوٹو کمنٹس میں جڑ دی۔بس تصویروں کا لگانا تھا کہ بادل میاں ایسے ناراض ہو ئیے کہ بارش یکدم تھم گئی اور پھر لوٹ کر واپس نہ آئی۔ ہمارے ایک دوست شفقت بلوچ نے ہماری پوسٹ پر کمنٹس میں لکھا ۔۔۔۔

”سر جی بارش حالیں آندی وی نای شعراء لوگ پہلے ھی نظر لا چھوڑیندے ھن او وت ھنڑ دھوپ نکل ای وے ھنڑ مزے گھنو وت“

مطلب بارش تو ابھی شروع ہی نہیں ہوئی اور آپ شعراء لوگ نظر مار دیتے ہو اب دھوپ نکل آئی ہے اب مزےکرو۔۔

بہر حال بادل تو چلے گیے اب بجلی کے سستی ہونے کی خوشخبری پکی سمجھو کیونکہ یہ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب نے سنائی ہے تو بھائی ایک طرف سے تو ہم سچے نکل آئے۔ اب ڈیرہ وال مجھے غالب کا شعر نہ بھیجیں وہ مجھے پہلے سے ذھنی اور عملی طور پر یاد ہے۔ ؎

‏مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام…

‏ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔

%d bloggers like this: