وزیراعظم عمران خان جب سے بر سر اقتدار آئے ہیں ، وسیب کا دورہ نہیں کیا ۔ وسیب میں ان کی آمد کا شدت سے انتظار ہو رہا ہے ۔ کورونا وائرس کے دوران وزیراعظم ڈی جی خان آئے تو وہ محدود دورہ تھا ۔
شکر ہے کہ کورونا کی وبا ختم ہو رہی ہے اور دنیا میں کورونا کے خلاف پاکستان کے اقدامات کی تعریف ہو رہی ہے ، اب بھی جیسا کہ وزیراعظم نے کہا ہے کہ احتیاط کی ضرورت ہے ، وسیب کے لوگوں کو موجودہ حکومت سے بہت سی توقعات ہیں ، حکومت نے وسیب کے لوگوں سے صوبے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے ، اب اللہ کے فضل و کرم سے حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں تو وزیراعظم کو بلا تاخیر وسیب کا دورہ کرنا چاہئے ۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو بھی وسیب کی طرف توجہ دینی چاہئے ، جیسا کہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کو موقوف کر کے پسماندہ علاقوں کو ترقی دینے کے عمل کا آغاز ہونا چاہئے تاکہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف اپوزیشن کی طرف سے قول و فعل کے تضاد کا جو طعنہ دیا جاتا ہے ، اس کا خاتمہ ہو سکے ۔
تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا آغاز کیا ہے جو کہ متنازعہ ہو چکا ہے ۔ سیکرٹریٹ نہیں صوبے کی ضرورت ہے ، وہ بھی وسیب کی تہذیبی ثقافتی اور جغرافیائی شناخت کے مطابق ۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ موجودہ صوبے تہذیب ، ثقافت اور قوموں کے جغرافیے پر موجود ہیں ۔ سرائیکی وسیب کے لوگ بھی اسی بناء پر اپنا صوبہ مانگ رہے ہیں کہ ان کی اپنی تہذیب، ثقافت اور اپنا جغرافیہ ہے اور تاریخی اعتبار سے صوبہ ملتان کی شکل میں ان کا صوبہ موجود رہا ہے ۔
جبکہ تاریخی طورپر مہاجرین جس خطے میں آباد ہوئے ، فطری جذب پذیری کے عمل سے اسی وسیب کا حصہ رہے ۔اب سجاد میر مہاجروں کے لئے صوبہ مانگ رہے ہیں تو ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ مہاجر کوئی قوم نہیں ۔ جیسا کہ کراچی میں افغان مہاجرین اور ہندوستانی مہاجرین ایک دوسرے سے نہ صرف الگ الگ ہیں بلکہ بعض حالات میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار بھی رہتے ہیں ۔ اگر مہاجر قوم ہوتی تو یہ ایک ہوتے اور ان کی زبان و ثقافت بھی ایک ہوتی ۔
اب تو ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو مہاجر کہنا بھی درست نہیں کہ ان کی تیسری نسل ہے اور وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ سرائیکی وسیب کا قدیم نام سپت سندھو یعنی سات دریاؤں کی سرزمین ہے اور کچھ دریا خشک ہو گئے اور 1960ء کے سندھ طاس معاہدے میں کچھ دریا بھارت کو دے دیئے گئے ۔
اس کے باوجود آج بھی دریاؤں کا منبع اور مرکز سرائیکی وسیب ہے اور اب بھی کوٹ مٹھن کے مقام پر تمام دریا آ کر باہم مل جاتے ہیں ۔ انسانی زندگی میں دریا کی بہت اہمیت ہے ، قدیم تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو شہر ہمیشہ دریاؤں کے کنارے آباد ہوئے ۔
ملتان بھی زمانہ قدیم سے دو دریاؤں کے سنگم پر واقع تھا ۔ آج بھی پُل موج دریا ، بن لوہاراں اور اس طرح کے دوسرے نام دریاؤں کی یاد دلاتے ہیں ۔ لندن دریائے ٹیمز ، پیرس دریائے سین کے کنارے موجود ہیں۔ لاہور راوی کے کنارے آباد ہوا مگر اب راوی خشک ہو چکا ہے ۔
زیر زمین پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ہے اور زیر زمین پانی کڑوا ہوتا جا رہا ہے ۔ موجودہ حکومت نے پچاس ہزار ارب روپے کی لاگت سے راوی کے کنارے ایک اور شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ، جس پر معروف لکھاری نصرت جاوید نے 11 اگست 2020ء کی اشاعت میں تنقید کی ہے اور یاد دلایا ہے کہ عمران خان اور عثمان بزدار کو وسیب کے لوگوں کو تخت لہور سے نجات دلانے آتے تھے ، یہ کیا ہوا کہ جو لاہور ملتان کا مضافات تھا ، کو کیا سے کیا بنا رہے ہیں؟
نصرت جاوید نے لکھا کہ نیا لاہور پراپرٹی اور بلڈرز کو نوازنے کا منصوبہ لگتا ہے ، حالانکہ پانی کے بغیر مزید مسائل کھڑے ہونگے ۔ 11 اگست 2020ء ضیا شاہد اپنے تاثرات میں جو کچھ لکھا وہ مکمل بات ہے، اس پر مزید تبصرے کی ضرورت نہیں ۔
’’کتوں اور ہندوستانیوں کا کلب میں داخلہ ممنوع ہے ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’ انگریز کس قدر نفرت کرتا تھا کہ یہ بورڈ صرف شملہ کلب نہیں بلکہ دوسرے شہروں میں بھی موجود تھے ۔‘‘ انہوں نے لکھا کہ ’’انگریز دور میں پنجاب بڑا صوبہ ہوا ، تقسیم کے وقت چھوٹا حصہ ہندوستان کے پاس آیا ، انہوں نے اسے مزید صوبوں میں تقسیم کر دیا جبکہ پاکستانی پنجاب میں اعلیٰ ٰحضرت نواز شریف اور شہباز شریف نے اس کو مزید بڑھا دیا اور جنوبی پنجاب کے حقداروں کو حق نہ دیئے ۔ چوہدری انور عزیز جو کہ پہلے بھٹو کے بغل میں تھے، بعد میں نواز شریف کی گود میں آئے تو جاگ پنجابی جاگ کے نعرے ایجاد کئے اور 7 کلب روڈ لاہور کے سرکاری رہائش گاہ میں سندھ کے خلاف نفرت پیدا کی جاتی رہی ۔ ‘‘
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب جسٹس گلزار احمد نے کراچی میں بل بورڈ گرنے کے واقعات پر از خود نوٹس لیا جو کہ اچھی بات ہے، ہماری درخواست ہے کہ وہ سرائیکی وسیب کے مسائل پر بھی از خود نوٹس لیں کہ سرائیکی وسیب کے کروڑوں افراد کا مسئلہ خالص انسانی مسئلہ ہے۔ وفاقی ملازمتوں کے سلسلے میں سندھ اربن سندھ رورل کی طرح پنجاب میں زون فسٹ اور زون سیکنڈ موجود تھے ۔
سندھ میں آئینی طور پر اب بھی دونوں زون کام کر رہے ہیں،مگر سرائیکی وسیب کا زون II ختم کر دیا گیا ۔از خود نوٹس لیکر سرائیکی وسیب کیلئے زون IIکی صورت میں سی ایس ایس کا کوٹہ بحال فرمایا جائے۔حکومت نے سول سیکرٹریٹ کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے ، جس کے مطابق ایڈیشنل چیف سیکرٹری بہاول پور اور ایڈیشنل آئی جی ملتان بیٹھے گا ۔
یہ عمل ’’آدھا تیتر اور آدھا بٹیر‘‘ کے مترادف ہے ۔ ملتان مرکزی شہر ہونے کے علاوہ وسیب کے عین وسط میں ہے ۔ استدعا ہے کہ ملتان میں سول سیکرٹریٹ قائم کرنے کا حکم جاری فرمایا جائے اور یہ بھی عرض کروں کہ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں صوبے کا وعدہ کیا اور تحریک انصاف کے سربراہ نے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کو تحریک انصاف میں ضم کرنے کے وقت لکھ کر دیا کہ کامیابی کے بعد سو دنوں کے اندر صوبہ بنایا جائے گا مگر عمل نہیں ہوا۔پنجاب اسمبلی نے دو صوبوں کی قرار داد پاس کی جس پر وفاقی پارلیمانی صوبہ کمیشن بنا ، آئین ساز ادارے سینیٹ نے دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل پاس کیا ۔ از خود نوٹس لیکرحکومت سے جواب طلبی فرمائی جائے کہ اس آئینی عمل کو کیوں روک دیا گیا ۔ آگے کیوںنہیں بڑھایا جا رہا۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر