مئی 13, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میر حاصل بزنجو، سفر حیات تمام ہوا ۔۔۔ حیدر جاوید سید

3فروری 1958ء کو قصبہ نال بلوچستان میں پیدا ہونے والے سینیٹر میرحاصل بزنجو 20اگست 2020ء کو کراچی میں وفات پاگئے۔
لگ بھگ 63سال کے سفرحیات کا اختتام ہوا، بلوچستان اور پاکستان ایک علم دوست’ صاحب مطالعہ’ جمہوریت پسند سیاستدان سے محروم ہوئے۔
حاصل بزنجو’ مرحوم بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے صاحبزادے تھے۔ غوث بخش بزنجو 1973ء کا دستور بنانے والی پارلیمانی کمیٹی کے رکن تھے، دستور کی تیاری اور منظوری کے مراحل میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رہنے والی ہیں۔
1973ء میں پارلیمانی جمہوری نظام کے قیام کے بعد وہ اپنی جماعت نیشنل عوامی پارٹی کی طرف سے بلوچستان کے گورنر کے طور پر نامزد ہوئے۔ اس منصب سے وہ اس وقت الگ ہوگئے جب وفاق میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلوچستان اور صوبہ سرحد (اب خیبر پختونخوا) میں قائم نیپ اور جے یو آئی (مفتی گروپ) کی مخلوط حکومتوں کو برطرف کردیا۔
میر حاصل بزنجو اسی قوم پرست، جمہوریت پسند اور صاحب علم شخصیت میر غوث بخش بزنجو کے تربیت یافتہ تھے۔
حاصل بزنجو زمانہ طالب علمی میں بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے پلیٹ فارم سے طلبا سیاست میں متحرک ہوئے، پہلی جیل یاترا جنرل ضیاء کیخلاف قائم ایم آر ڈی کی بحالی جمہوریت تحریک کے دوران کی، ساڑھے پانچ ماہ جیل میں رہے۔
حاصل بزنجو کچھ عرصہ سے پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے، جمعرات کو طبیعت خراب ہونے پر انہیں آغا خان ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکے۔
جمہوریت کیلئے پختہ فہم رکھنے والے حاصل بزنجو 1990ء اور 1997ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 2009ء میں وہ پہلی بار بلوچستان سے سینیٹ کے رکن منتخب ہوئے اور 2015ء میں دوسری بار، ان کی جماعت پچھلے دور میں نون لیگ کی اتحادی حکومت میں شامل تھی، اس اتحاد کی وجہ سے وہ وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کے منصب پر بھی فائز رہے۔
ایک متحرک سیاستدان’ علم دوست اور صاحب مطالعہ انسان کی شہرت رکھنے والے حاصل بزنجو جنرل مشرف کے دور میں زیرعتاب رہے۔
بلوچ قومی سیاست کو وفاق کے دھارے سے جوڑنے میں جمہوری قوتوں کی ہمنوائی کی بدولت وہ بہت سارے ”آستانوں” کے مالکان ومختاران کے دلوں میں کھٹکتے تھے۔

2003ء میں انہوں نے اپنے والد مرحوم کے ساتھیوں کیساتھ ملکر بلوچستان نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی بنائی، بعدازاں اس کا نام تبدیل کرکے مرحوم والد کی جماعت نیشنل پارٹی کے نام کو اختیار کر لیا۔
اپنی رائے کے دبنگ انداز میں اظہار اور غیرجمہوری قوتوں کی نظام ہائے حکومت پر بالادستی کے ناقد کی شہرت رکھنے والے سیاستدان نے بدترین سیاسی حالات اور ریاستی جبر سے عبارت ماحول میں جمہوری روایات کی پاسداری اور بلوچوں کو بطور قومی اکائی فیڈریشن میں ان کا دستوری حق دلوانے کیلئے پرعزم جدوجہد کی۔
وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ وفاق بلوچستان کی اشرافیہ کے کلب کی دلجوئی کی بجائے صوبے کے عوام کا معیارزندگی بہتر بنانے اور انہیں دستوری حقوق فراہم کرنے پر توجہ دے۔

ان کی سیاست اور نظریات سے یقینا کئی لوگوں اور طبقات کو اختلاف ہوگا مگر وہ جسے درست سمجھتے اس کا اظہار کرتے رہے۔
اپنے والد کی طرح انہیں ادیبوں’ دانشوروں’ سماج سدھار کارکنوں سے خصوصی لگاؤ تھا، وسیع حلقہ احباب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے خاص وعام شامل تھے۔
ان کی جماعت کو 2018ء کے انتخابات میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ مسلط کی جانے والی شکست کے ظاہری اور پوشیدہ کرداروں کے حوالے سے اپنے مؤقف کے اظہار پر انہوں نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔
بی ایس او کے پلیٹ فارم سے قوم پرست سیاست کا آغاز کرنے والے حاصل بزنجو ایک اعتدال پسند اور عوام دوست سیاستدان تھے۔ ان کے مخالفین ان پر بعض حوالوں سے پھبتیاں بھی کستے لیکن وہ جواب میں طنزیہ جملے اُچھالنے کی بجائے مسکرا دیتے۔
بدقسمتی سے ان کا نام سیاستدانوں کی اس فہرست میں بھی آیا جن پر الزام تھا کہ ان سیاستدانوں نے 1990ء کے عام انتخابات سے قبل ایک ریاستی محکمے سے مالی فوائد حاصل کئے۔
مرحوم ایئر مارشل اصغر خان یہ معاملہ سپریم کورٹ بھی لیکر گئے، اس معاملے کو اصغر خان کیس کے طور پر شہرت ملی۔
حاصل بزنجو ریاستی محکمے سے رقم لینے کی تردید کرتے اور ثبوت سامنے لانے کا مطالبہ کرتے رہے۔ میر حاصل بزنجو کے سانحہ ارتحال سے مروت’ جمہوریت دوستی’ مکالمے پر یقین رکھنے والے پرعزم شخص کی زندگی کا باب بند ہوگیا۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ان کی جدوجہد اور سیاسی فکر کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

اب چلتے چلتے دو تازہ باتیں’ اولاً یہ کہ گزشتہ روز وفاقی وزراء اور مشیروں کے ایک بڑے گروپ نے وزیراطلاعات ونشریات سینیٹر شبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مہنگائی پر قابو پانا اولین ترجیح ہے اور یہ کہ دو سال میں تبدیلی لانا ممکن نہیں تھا۔
پہلے نکتہ پر فقیر راحموں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اب مہنگائی مزید بڑھے گی کیونکہ اس حکومت نے جب بھی مہنگائی کم کرنے کے عزم کا اظہار کیا مہنگائی کی سطح مزید بلند ہوگئی۔
وہ اس ضمن میں اعداد وشمار کیساتھ چند مثالیں بھی دیتے ہیں مگر ہم اسے نظرانداز کرکے آگے بڑھ لیتے ہیں، ویسے بھی ان اعداد وشمار اور مثالوں پر غور کرنے سے کونسا مہنگائی کم ہوجانی ہے۔
دوسری بات حالیہ (جاری) موسم برسات کے حوالے سے ہمارے ذرائع ابلاغ خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا دوغلہ پن ہے۔ نصف سے زیادہ لاہور بارش میں ڈوب جائے تو یہ خبر دیتا ہے۔ بارش سے لاہور کا موسم خوشگوار ہوگیا لیکن اگر بارش کراچی میں ہو تو تعزیتی تقریبات کا انعقاد شروع ہوجاتا ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ منقسم حزب اختلاف نے اب تک بڑھک بازی کے سوا کچھ نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ لوگ حکومت سے زیادہ حزب اختلاف سے مایوس ہیں۔

%d bloggers like this: