اپریل 25, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

پاکستان کےپارلیمان میں میر حاصل خان بزنجو کو خراج عقیدت

قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور مایہ ناز سیاستدان میر حاصل خان بزنجو مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

اسلام آباد: آج وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ہونے والے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور مایہ ناز سیاستدان میر حاصل خان بزنجو مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ میں سینیٹر میر حاصل بزنجو کیلئےاجلاس کے آغاز پر  فاتحہ خوانی کی گئی۔

ایوان بالا اور ایوان زیریں کے منتخب اراکین پارلیمان نے کیا ہے اس کا احوال درج ذیل ہے :

پاکستان اور بلخصوص بلوچستان اپنے عظیم لیڈر سے محروم ہوگئے ، چیئرمین سینٹ

آج کا اجلاس تعزیتی اجلاس ہوگا ، چیئرمین سینٹ

جمعیت علماء اسلام کے سینیٹر مولانا فیض محمد نے میر حاصل بزنجو کے بلند درجات کیلئے دعائے مغفرت کروائی

سینیٹ اجلاس

یقینن آج ہم اپنے ایک عظیم رہنما سے محروم ہوگئے، سینیٹر پرویز رشید

حاصل بزنجو کی سیاست کی ابتدا اس وقت سے تھی جب پاکستان کے لوگوں کو ووٹ کا حق حاصل نہیں تھا، پرویز رشید

ہر فرد کو ووٹ کا حق ملنا چاہیئے اس حق کو دلانے میں حاصل بزنجو شامل رہے، سینیٹر پرویز رشید

میر حاصل بزنجو آزادی کی تحریکوں کے اور امن کے داعی تھے، سینیٹر پرویز رشید

جن اصولوں کیلئے میر حاصل بزنجو نے جدوجہد کی انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پرویز رشید

چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں میری صفوں میں سے 14 لوگوں نے ان کے ساتھ زیادتی کی، پرویز رشید

میں اج اپنے مرحوم دوست سے معافی چاہتا ہوں ، پرویز رشید

شیری رحمان

ملک کے ساتھ ایک بہت بڑا سانحہ ہوا ہے،

وہ ایسی قدآور شخصیت تھے کہ ان کے خراج کے لیے الفاظ بہت کم ہیں،

سب سے زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ انہوں نے ہر امتحان کا سامنا کیا،

ان کے اندر کوئی مصلحت پسندی نہیں تھی،

انہوں نے لمبا سیاسی اور جمہوری سفر بغیر کسی شور شرابے کے ساتھ جاری رکھا،

وہ اپنی زندگی اپنی ٹرم اور سوچ پر گزار رہے تھے،

خواتین کو حوصلہ دینے نے ان کا بہت بڑا کردار تھا،

مسلحت اور احتیاط کی سیاست سے میر حاصل بہت آگے نکل چکے تھے،

وہ ایک مشعل راہ تھے ایک اندھیرے وقت میں،

ان کی اصول پسندی اور اصول پرستی کو سب جانتے ہیں،

حاصل بزنجو میں دلیری کا فقدان نہیں تھا،

حاصل بزنجو مشکل حالات میں بھی اپنے الم کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا،

جو پاکستان ہم دیکھ رہے ہیں ہم نے جمہوریت اور سیاست کے ساتھ کچھ مثبت نہیں کیا،

ان کا ایک پیغام ہم سب کے لیے بہت ہوتا تھا،

آجکل کے زمانے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ لیڈر کی ایک آواز پر سب یک زباں ہوں،

ہم سب کو سوچنا ہوگا کہ ہم کس راستے پر ہیں اور ہمیں کس پر چلنا ہوگا،

حیات بلوچ کی بات وہ یہاں ضرور کرتے اور ہم ان کا ساتھ دیتے،

ان حالات میں صف اول میں رہنا ہم سب کے لیے ضروری ہے،

ہماری دواؤں کے باوجود ان کا نام روشن رہیگا،

یہ ہم پر ہے کہ ہم اب بھی ان کے سوچ سے کچھ نا کچھ سیکھیں،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سینیٹر عثمان کاکڑ

ان کی تربیت ایسے ماحول میں ہوئی جس میں مظالم کے باوجود کوششوں کو جاری رکھا گیا،

طالب علمی کے زمانے سے ہی حاصل بزنجو جمہوریت کے لیے کوششیں شروع کر چکے تھے،

وہ ایسے رہنماء تھے جو آئین اور قانون کی حکمرانی چاہتے تھے،

غیر جمہوری قوتوں کے پارلمینٹ میں سخت مخالف تھے،

بیماری کے باوجود این ایف سی اور 18ویں ترمیم کے لیے کردار ادا کیا

میر حاصل نے بہت سے مقدمات کا سامنا بھی کیا،

سینیٹ کے الیکشن میں بے وفائی کے باوجود انہوں نے کسی سے گلہ نہیں کیا،

وہ جانتے تھے کہ اپوزیشن میں کس نے ان کو ووٹ نہیں دیا مگر انہوں نے کھلے دل سے سب تسلیم کیا،

انہوں نے بلوچ لاپتہ افراد کے لیے بہت کوششیں کیں،

حیات بلوچ کو شہید کرنے کا صدمہ انہیں کینسر سے زیادہ تھا،

………….

مشاہد حسین سید

حاصل بزنجو نے موت کو مسکراتے ہوئے قبول کیا،

حاصل بزنجو دبنگ بھی تھے اور ملنگ بھی تھے،

ان کے ساتھ چین،ترکی اور انڈونیشیا کا اکٹھے سفر کیا،

جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی کبھی بھلائی نہیں جا سکتی،

ان کی پارٹی لسانی سوچ سے بالاتر تھی اور سی پیک کے لیے ان کا کردار کلیدی تھا،

………….

رضا ربانی

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کل حاصل بزنجو کی موت نہیں ان تمام لوگوں کی موت تھی جو اصولوں کی سیاست پر یقین رکھتے تھے،

میں اور حاصل بزنجو یونیورسٹی میں ایک ساتھ تھے،

میر حاصل بزنجو نے ہمیشہ اصولوں کی سیاست کی ، جمہوری نظام کی سیاست کی،

میر حاصل بزنجو نے بلوچستان کی پسی ہوئی عوام کیلئے اپنی زندگی کو وقف کیا،

ایم آر ڈی کی تحریک تھی یا کوئی بھی تحریک تو حاصل بزنجو کی آواز گونج رہی تھی،

جب حاصل بزنجو ہسپتال میں تھا اس دوران حیات بلوچ کا واقع پیش آیا،

حیات بلوچ کیلئے ہم میں سے کسی نے اس ایوان میں آواز نہیں اٹھائی،

اگر حاصل بزنجو ایوان میں موجود ہوتے تو ایوان میں حیات بلوچ کہ آواز ضرور گونجتی،

اعظم سواتی

یہ عارضی زندگی ہے حاصل بزنجو کے ساتھ نظریات کا اختلاف رہا،

لیکن حاصل بزنجو کے ساتھ باہمی رشتہ کبھی نہیں توڑا،

جنرل ترمزی

میر حاصل کی وفات پورے ملک کے کیے المیہ ہے،

میر حاصل جمہوریت کے لیے بغیر خوف کے کوششیں جاری رکھے ہوئے تھے،

وہ کارکنان کے ساتھ مل بیٹھ کر پارٹی چلاتے تھے،

انہوں نے اس موزی مرض کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور خوش رہتے تھے،

جن لوگوں کو انہوں نے کھڑا کیا انہوں نے ہی اپنے ضمیر کو بیچا،

آج بہت دکھ ہے کہ ایک قابل اعتماد دوست کھو دیا،

……………..

خواجہ محمد آصف

حاصل بزنجو بہت بڑے آدمی تھے

ساری عمر انہوں نے جمہوریت کیلئے جدوجہد کی

حاصل بزنجو بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے

حاصل بزنجو جمہوریت اور انسانی حقوق کی مضبوط آواز تھے

ان کی اس ایوان میں کی گئی تقاریر یادگار ہیں

ایسے بڑے لوگ آہستہ آہستہ اٹھتے جارہے ہیں

جب سیاست کو ایسے لوگوں کی ضرورت ہے تو وہ دنیا سے جارہے ہیں

مسلم لیگ ن کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات تھے

قومی اسمبلی اجلاس ان کی وفات کے احترام میں ملتوی کردیا جائے

۔۔۔۔۔۔

مشاہد اللہ خان

آج بہت کی اداس دن ہے پاکستان کی پارلیمان کی تاریخ کا،

کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جا اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں،

حاصل بزنجو کے والد کا پاکستان کی خدمات میں اہم کردار رہا،

زندہ وہ رہتے ہیں جا اپنے نظریات پر ڈٹے رہتے ہیں،

حاصل بزنجو نے اپنی جدوجہد میں تین صوبوں کی جیلیں بھی کاٹیں،

اس زمانے میں حق بات کرنا بہت مشکل تھا اور سزا بھگتی پڑتی تھی،

دنیا کی تاریخ میں حق پرست زندہ رہا ہے،

مادہ پرست کو دنیا نہیں یاد رکھتی،

اتنے بڑے دل کا اور کسی کے خلاف نفرت کا اظہار نہیں کیا،

اتنے لوگ ملتے ہیں ہم حاصل بزنجو کو کہاں ڈھونڈینگے،

میں دس سال سے اس مسئلے گزر رہا ہوں،

ہمیں حاصل بزنجو کے نام کو زندہ رکھنے کی ضرورت نہیں ان کا نام زندہ رہیگا،

حاصل بزنجو حق کی بات کرتا تھا اور قانون کی بالادستی چاہتا تھا،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسلم بھوتانی

میر حاصل خان بزنجو کی وفات پورے ملک اور بلوچستان کے لیے بڑا نقصان ہے

ان کے جو دل میں آتا کہہ دیتے تھے

بلوچستان پہلے ہی احساس محرومی کا شکار ہے

میر حاصل بزنجو کا شکر گزار ہوں کہ ان کی سپورٹ سے ممبر قومی اسمبلی بنا

بہت دباو کے باوجود میر حاصل خان بزنجو کو سینیٹر بننے کے لیے میں نے ووٹ دیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راجہ پرویزاشرف

میر حاصل بزنجو کمال کے سیاستدان تھے

ان کا لفظوں کا چناو مشکل حالات میں بھی کمال کا تھا

کینسر جیسے مرض کا بھی مقابلہ بڑی جرات سے کیا

کینسر کے باوجود جب اپوزیشن نے انہیں چیئرمین سینٹ کے لئے امیدوار بنایا تو ہمت سے الیکشن لڑے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عبدالشکور شاد تحریک انصاف

میر حاصل بزنجو بڑے باپ کے بڑے بیٹے تھے

میر غوث بخش بزنجو کو بابائے بلوچستان کہا جاتا تھا

جب سانحہ مشرقی پاکستان ہوا تو کچھ علیحدگی پسندوں نے پاکستان سے الگ ہونے کا نعرہ لگایا

یہ میر غوث بخش بزنجو اور نواب اکبر بگٹی ہی تھے جنہوں نے پاکستان نہ توڑنے کی بات کی

حاصل بزنجو کی خدمات کا درست اعتراف یہ ہے کہ چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔

ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چیئرمین کشمیر کمیٹی شہریار آفریدی

میر حاصل بزنجو ایک بہترین سیاستدان تھے

انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی بات کہی ہے

ان کے ساتھ ہندستان کا دورہ کیا

انہوں نے محرومیوں کو ضرور اجاگر کیا مگر پاکستان پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آغا حسن بلوچ

میر حاصل بزنجو بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو کے بیٹے تھے

اس سیاسی خاندان کی خدمات کا اعتراف کیا جاتا ہے

کراچی یونیورسٹی کے ایک طالبعلم حیات بلوچ کے قتل پر تحقیقات کرائی جائیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وفاقی وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری

میر حاصل بزنجو جمہوری سوچ کے بڑے سیاستدان تھے

میر حاصل بزنجو جیسے لوگ جمہوریت کا حسن تھے

حیات بلوچ کے قتل پر اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوگیا ہے

آئی جی ایف سی نے حیات بلوچ کے گھر جاکر ہر صورت انصاف ہونے کا یقین دلایا ہے

یہ بھی پہلی مرتبہ ہوا ہے

فائرنگ کرنے والے ایف سی اہلکار گرفتار کرلئے گئے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مولانا عطاء الرحمان

میر حاصل خان بزنجو کے انتقال

وہ جس پائے کا انسان تھا شاید ہمارے الفاظ اس کے مقابلے میں بہت کم ہوں،

انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی ان کے والد محترم بھی سیاسی میدان کا بہت بڑا نام تھے،

ان کے والد جس طرح اپنے ملک اور سیاسی جدوجہد کے ساتھ جتنے مخلص تھے اللہ نے اسی طرح میر حاصل میں وہ تمام صلاحیتیں رکھیں

میر حاصل نے اپنے والد اور خاندان کے نام کو مزید جلا بخشی،

انہوں نے خود سیاسی سفر میں آگے قدم بڑھائے،

جمہوریت کے ساتھ اپنی سیاسی کمٹمنٹ کے نقوش ہمارے کیے مشعل ہے،

جسطرح کے وہ انسان تھے اللہ ان کی اولاد میں بھی وہی صلاحیتیں پیدا کرے،

آج اس پارلیمنٹ،بلوچ قوم اور صوبے اور پاکستان کے ساتھ تعزیت ہونی چاہیے،

ان کے والد نے اس وقت جمہوری قوتوں کا ساتھ دیا جب وہ جاگیردار،زمیندار نہیں تھے

انہوں نے اپنے والد کے نقش قدم پر سیاست کے کیے جو خدمات سر انجام دیں وہ رہتی دنیا تک یاد رہینگیں،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سرفراز بگٹی

بحیثیت وزیر داخلہ میرا ان کے ساتھ بہت رابطہ رہا،

وہ اپنے عظیم باپ کی طرح خود بھی عظیم انسان تھے،

انہوں نے اپنی زندگی میں شخصی آمریت کے خلاف بھی آواز اٹھائی،

میر حاصل نے بغیر کسی ڈر کے ہمیشہ حق اور سچ کا ساتھ دیا،

سرداری نظام کے خلاف ایک راہنماء سے آج ہم محروم ہوئے،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بیرسٹر سیف

موت پر ماتم کرنا مسلمان کا شیوہ نہیں ہے،

مسلمان اپنے ساتھی کی موت پر ماتم نہیں کرتا اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتا ہے،

حاصل بزنجو کا تعلق جمہوری خاندان سے تھا،

ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم نے ان کی زندگی میں ان کے لیے کچھ کیا،

ان کی زندگی میں ہم نے ان کے آنسو پونچھے

ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم نے ان کی زندگی میں ان کا ساتھ دیا،

آج جو زندہ ہے ہمیں ان ساتھ کھڑے ہونے سے کس نے روکا ہے،

زندہ قومیں اپنے زندہ لیڈروں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں،

آج ہمیں اپنے گریبانوں کو کھول کر اپنا جائزہ لینا ہوگا،

آج بھی بلوچستان میں وہ لوگ موجود ہیں جو عوام کے حقوق چھین رہے ہیں،

جو گزر گئے ان کا معاملہ اب اللہ کے ساتھ ہے ہمیں اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا،

اس دنیا کو ہم نے ان لوگوں کے لیے جنت بنانا ہے جو اپنی سانسیں لینے میں تکلیف میں مبتلاء ہیں،

ساغر صدیقی ٹی بی کے مرض میں مر گیا

مگر اس زندگی میں کوئی اس کو دو روپے بھی نہیں دیتا تھا،

ہمیں زندگی میں انسانوں کی قدر کرنا سیکھنی ہوگی تاکہ ہماری زندگی اور آخرت بھی بھی ٹھیک ہو،

حکومت اور اپوزیشن دونوں کا مطالبہ ہے کہ میر حاصل بزنجو کے احترام میں اجلاس ملتوی کیا جائے,سپیکر اسد قیصر

حکومت اور اپوزیشن کے اتفاق رائے کے بعد قومی اسمبلی اجلاس پیر شام چار بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے, سپیکر اسد قیصر

قومی اسمبلی کا اجلاس سوموار شام 4 بجے تک ملتوی

%d bloggers like this: