جون 2, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

حیات بلوچ اور محنت کش طبقے کا ایسے ہر قتل کا اصل پُرسہ اور بدلہ۔۔۔رؤف لُنڈ

جہاں اس سارے لہو کا بدلہ لینے کا پہلا قدم تاج و تخت کو ٹھوکروں کی زد پہ رکھنا اور جس کی حتمی منزل تسخیرِ کائنات کر کے انسانیت کو سرخرو کرنا ہو

حیات بلوچ کے قتل ہونے پر اس کے جسم سے بہتے اور زمین میں جذب ہوتے گرم لہو کے شرارے ، حیات بلوچ کے گرتے اور گر کر تڑپتے تڑپتے ٹھنڈا ہو جانے والے لاشے کو اٹھا نہ سکنے کی ہمت و سکت سے محروم ، ایک ہاتھ کو پوری شدت سے زمین پر جما کر اپنے نا تواں وجود کو سہارا دینے اور ایک ہاتھ پیشانی پر دھر کر رفیقہ حیات اور والدہِ حیات کا سامنا نہ کر سکنے کے شدید احساس کیساتھ زمین میں گڑی نظروں کی حالت میں اپنے ھی وجود کو بھرے جہاں میں بوجھ سمجھنے والے حیات بلوچ کے والد ، کچھ نہ ہو سکنے کے یقین کیساتھ مگر مامتا کے ہاتھوں مجبور ہو کر حیات بلوچ کی ماں کا آخری آس کے طور پر آنسوؤں سے خشک آنکھوں کیساتھ آسمان کی طرف ہاتھ بلند کر کے تکنے کے منظر سے بڑھ کر انسانیت کی توہین اور کیا ہو سکتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟

یہ کسی غریب پڑھے لکھے کا بہتر مستقبل کے دن میں خواب دیکھنے والے اپنے بوڑھے والدین کا ہاتھ بٹاتے ہوئے کسی ایک بے گناہ نوجوان کے خون کو اس طرح رزقِ خاک ہونے کا یہ درد ناک منظر اور واقعہ نہ تو کوئی پہلا واقعہ اور منظر ھے اور نہ ہی اس نظامِ زر کی ہوس اور خباثت سے معمور طبقاتی سماج میں حکمرانی کرنے، وسائل روزگار و پیداوار اور زندگی پر جبراً قابض طبقے اور اس طبقے کے گماشتوں کے ہاتھوں سرزد ہونے والا کوئی آخری منظر اور واقعہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ھم نظامِ زر کے جس طبقاتی سماج میں رہ رھے ہیں یہ اپنے وجود میں آنے، پنپنے اور آگے بڑھنے کے عمل/میکنزم کی رو سے ھی انسانی سماج کہلائے جانے کا نہ حقدار ھے اور نہ روادار۔۔۔۔۔۔ یہ نظامِ صرف اور صرف انسانی (محنت کش طبقے کا ) لہو پیتا اور جیتا ھے۔۔۔۔۔۔ 

اس نظام پر یقین رکھتے ہوئے، اس نظام سے انسانیت کی فلاح کی شعوری طور پر یا اس نظام کو قائم رکھنے والوں کے دئیے ہوئے شعور کی روشنی میں کسی بھی قسم کی آس اور امید رکھنا حیات / زندگی کو ہر لمحے ایک نئے مرگھٹ کی بھینٹ چڑہانا اور مسلسل چڑہائے جانا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس لہو لہو سماج میں ہر دم و ہر پل لہو بہانے کے اس کھیل کو اگر روکنا ھے اور محنت کشوں کے لہو کے پھوٹتے شراروں سے نظامِ زر کی کھیتی کو بنجر رکھنا ھے تو ہمیں کسی ماتم کرنے کی بجائے عظیم مارکسسٹ اور انقلابی استاد کامریڈ لال خان کے اس قول کی رہنمائی میں یہ عزم کرنا ہوگا کہ "جو سب کو مارنے پر تُلا ہوا ہو اسے سب سے پہلے مارنا چاہئیے "۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آئیے ھم علاقے، ذات، نسل، قوم، وطن اور مسلک کے ہر تعصب اور تقسیم کو مسترد کرتے ہوئے اپنے محنت کش طبقے کے ہر فرد کے ہر دکھ، ہر اذیت، ہر ذلت، ہر زخم اور اس کے لہو کی ہر بوند کا حساب لینے کیلئے خود کو ایک طبقاتی لڑائی میں منظم کریں کہ جس کا معمولی صلہ سرخ سویرا اور سوشسٹ انقلاب ہو ۔ جہاں اس سارے لہو کا بدلہ لینے کا پہلا قدم تاج و تخت کو ٹھوکروں کی زد پہ رکھنا اور جس کی حتمی منزل تسخیرِ کائنات کر کے انسانیت کو سرخرو کرنا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

%d bloggers like this: