دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وحدت ملی کی تلاش اور”پیغام عمان” ۔۔۔ حیدر جاوید سید

اختلافی معاملات پر چٹخارے دار گفتگو سے تاریخ اور لمحہ موجود کے ساتھ سامنے بیٹھے لوگوں کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی

تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی کشمکش،اقتدار کے لئے جوڑتوڑ اور چند دیگر معاملات کے حوالے سے تاریخ کے مسلم حصے میں جو کچھ درج ہے اس پر مکالمے کی ضرورت ہے۔

مکالمے اورتجزیہ کی دنیائیں الگ ہوتی ہیں؟

ہماری دانست میں عوام الناس کے سامنے ان امور پر بات ہونی چاہیئے جو مشترکات سمجھے جاتے ہیں۔

اختلافی معاملات پر چٹخارے دار گفتگو سے تاریخ اور لمحہ موجود کے ساتھ سامنے بیٹھے لوگوں کی کوئی خدمت نہیں ہوسکتی

اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ ہم سبھی تاریخ کو اپنے عقیدے کی عینک سے دیکھنے کے عادی ہیں۔

یہ عادت کیوں اور کیسے پروان چڑھی یہ راز ہائے درون سینہ ہر گز نہیں۔

مثال کے طور پر اگر طبری اور خطیب بغدادی کی کوئی بات ایک فرد یا طبقے کو پسند ہے تو دوسرا اسے صرف اس لئے مسترد کردیتا ہے کہ

”وہ بات ہمارے مخالف فرقے کو پسند نہیں ہے”۔

ہم آگے بڑھتے ہیں۔

زندگی کے سفر کو اس موڑ پر آئے باسٹھ سال اور آٹھ ماہ ہوگئے ۔کتابیں پڑھتے اساتذہ کی جوتیاں سیدھی کرتے،مکالمے اور بحثوں میں شریک ہوتے نصف صدی ہوگئی

پچھلی نصف صدی کے دوران جو دیکھا سمجھا وہ یہ ہے کہ

”اگر گلاب جامن کھاتے ہوئے منہ میں چھالے پڑتے ہیں تو مناسب بات یہ ہے کہ چھالیہ نہ کھایا کریں”۔

سادہ لفظوں میں یہ کہ انسانی سماج میں رہن سہن،تعلقات اور دوسرے معاملات کو بطور انسان دیکھنا سمجھنا ہوگا۔ضد کج بحثی ،انکار پر اتراتے رہنا فرد یا سماج دونوں کے لئے سود مند نہیں۔

مگر ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ جو اموراہل علم اور علماء کو سر انجام دینے چاہئیں ان پر ہم گلی محلوں کے منہ زوروں سے رہنمائی لیتے ہیں۔

ایک مسئلہ اور ہے وہ ہے دینی مدارس کا نصاب تعلیم اپنے عصر سے کاملاً کٹا ہوا مخصوص فہم کا حامل نصاب تعلیم اپنے اپنے مکتب فکر کی یقیناً کوئی خدمت کرتا ہوگا لیکن اس سے اسلام،مسلمانوں اور اپنے اپنے عہد کو کیا فائدہ ہوا؟۔

یہ بنیادی سوال ہے اور اس کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔

بخار کی صورت میں اگر آپ ڈاکٹر کی بجائے حلوائی سے رجوع نہیں کرتے تو دین میں رہنمائی کے لئے عالم کی بجائے عطائی سے رہنمائی کیوں؟۔

تمہید طویل ہوگئی اور طوالت کی وجہ معروضی حالات ہیں چار اور مچا ادہم کہ کان پڑی آوازسنائی نہیں دیتی۔تعصب،حبس اور عدم برداشت سے پیدا ہوئے مسائل ہر گزرنے والے دن کے ساتھ خوفناک ہوتے چلے جارہے ہیں۔

عجیب ترین بات یہ ہے کہ عیسوی سال نو کے آغاز پر محفلیں سجانے والے ہی ہجری سال نو کے آغاز پر آستینیں اُلٹ لیتے ہیں پیغام محبت کی بجائے دہنوں سے شعلے نکلنے لگتے ہیں

اس ماحول میں تازہ ہوا کا جھونکا اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سجائی ایک مجلس مکالمہ کا اعلامیہ ہے ۔

مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ساتھ چند اہل علم بھی اس مجلس میں شریک تھے جس کے اختتام پر جاری کئے جانے والے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اہل مذہب مناظرے کی بجائے مکالمے کو فروغ دیں۔

علمی مسائل کو عوامی فورمز پر بیان کرنے سے گریز کیا جائے۔

مختلف مکاتب فکر کی مقدس شخصیات اور قائدین کے بارے میں گفتگو،تقاریر اور بیانات میں احتیاط کا دامن نہ چھوڑا جائے۔

فرقہ وارانہ بنیادوں پر قائم تنظیموں میں شدت پسندوں کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے۔

ایک اور بات جو اس مجلس میں ہوئی وہ یہ ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے اور تشدد کے نئے دور کا دروازہ کھولنے کے لئے کچھ بیرونی قوتیں سرگرم عمل ہیں

بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کروں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس معاملے میں ہم خود ہی خود کفیل ہیں بیرونی دشمن اور سرپرست کی ضرورت نہیں۔

جس بات کو اس علمی مجلس کے شرکا نے نظر انداز کیا وہ دینی مدارس کا نصاب اور اس سے بڑھ کر مدارس کاماحول ہے۔

ان دونوں میں بھی تبدیلی لانے کی اشد ضرورت ہے۔

درست ترین بات یہ ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے زیر اہتمام علماء اور اہل علم کی اس سنجیدہ مجلس نے اہل مذہب کو حالات کی سنگینی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے رہنمائی کے جو چند نکات دیئے ہیں ان پر غور وفکر کی ضرورت ہے۔

ہمیں اجتماعی اور انفرادی طور پر ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا ہوگا کہ93فیصد مسلم آبادی والے ملک میں آخر محرم الحرام کے چاند کی آمد سے قبل سے ایسا کیوں لگتا ہے کہ کوئی قیامت ٹو ٹنے والی ہے؟

اورہر شخص اپنی اپنی جگہ پریشان دکھائی دیتا ہے۔

وجہ وہی ہے جب اہل علم کے مکالمے کے موضوعات کو مناظرہ بنا کر سامعین کے سامنے پیش کیا جائے گا تو خیر کا پہلو کیسے برآمد ہوگا۔

بنیادی ضرورت اس بات کی ہے کہ تکفیر کی ہر قیمت پر حوصلہ شکنی کی جائے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ چند برس قبل عمان میں دنیا بھر سے آئے علماء اور اہل علم کی ایک مجلس کے بعد جو

“پیغام عمان” جاری ہوا تھا اس سے رہنمائی لی جائے۔

اسلامی کانفرنس کی تنظیم نے بھی”پیغام عمان” کو ہی مسلمانوں کے باہمی جھگڑوں کا حل قرار دیتے ہوئے اسے اپنانے کا اعلان کیا تھا۔

پیغام عمان میں متفقہ طور پر مسلمانوں کے آٹھ فقہی مذاہب کو اسلام کی تسلیم شدہ قانونی تعبیرات شمار کیا گیا ان میں” حنفی، مالکی، شافی،حنبلی،جعفری،زیدیہ،ظاہری اور اباضی شامل ہیں

اسی طرح اشعری،ماتریدی صوفی اور سلفی کو بھی مسلمانوں کے مستند گروہ قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ جنہیں مسلمان سمجھا گیا ہے ان کی تکفیر نہیں ہوسکتی۔

اسلامی نظریاتی کونسل”پیغام عمان”کا صرف خیر مقدم ہی نہ کرے بلکہ اسے پاکستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کا بیانیہ قرار دے ۔

مزید آگے بڑھ کر کونسل اپنے زیر اہتمام مکالمے کو رواج دے اور حکومت سے سفارش کرے کہ مناظروں اور ملاکھڑوں پر پابندی عائد کی جائے۔

ویسے زیادہ مناسب یہ ہوگا کہ مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء مناظروں کی حوصلہ شکنی کریں۔

یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اگر ایسا ہوجائے تو ہمارے پچاس فیصد مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

About The Author