مئی 24, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

مخادیم کی جارحانہ سیاست۔۔۔ جام ایم ڈی گانگا

نئی اسٹیٹس کے قیام میں جعفر آباد اسٹیٹ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے. یاد رکھیں مکافات عمل کو نہ پہلے کوئی روک سکا ہے نہ اب کوئی روک سکتا ہے.

بلاشبہ ضلع رحیم یار خان میں میانوالی قریشیاں ایک اہم ترین سیاسی اسٹیٹ کے درجے پر فائز چلی آ رہی ہے. جمال دین والی بھونگ، رحیم آباد، محسن آباد، شیدانی شریف وغیرہ کا شمار بھی ضلع کی پرانی سیاسی اسٹیٹس میں ہوتا ہے. نئی بڑی پھیلی ہوئی موبائل سیاسی اسٹیٹ کو میرا خیال ہے کہ علیحدہ علیحدہ نام دینے کی بجائے مشترکہ و متحدہ آرائیں یار خان اسٹیٹ کا نام دینا زیادہ بہتر رہے گا.

نئی اسٹیٹس کے قیام میں جعفر آباد اسٹیٹ کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے. یاد رکھیں مکافات عمل کو نہ پہلے کوئی روک سکا ہے نہ اب کوئی روک سکتا ہے.

یہ دنیا اور کائنات تغیر کے ساتھ آگے چل بڑھ رہی ہے. صادق آباد شہر کی سیاست سے جمال دین والی کو اور رحیم یار خان شہر کی سیاست سے میانوالی قریشیاں کے مخادیم کو آٹے سے بال کی طرح نکال باہر پھینکا گیا. جمال دین والی ایک طویل ترین عرصے کے بعد جزوی طور پر صادق آباد کی طرف پلٹ کر پہلی کامیابی اپنے نام کر چکی ہے.

میانوالی قریشیاں کو تو رحیم یار خان کا نام سن کر پسینہ آنا شروع ہو جاتا ہے. لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ ڈرپوک ہیں کچھ نہیں کرنا چاہتے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ میانوالی قریشیاں نے کانٹوں سے ٹکرانے کی بجائے کچے کی طرف سے سراور کانے کاٹنے کا پروگرام ترتیب دیا ہوا ہے. یہ حوصلہ اور جرات میانوالی قریشیاں کو وفاقی وزیر مخدوم خسرو بختیار نے دی ہے.

بلدیاتی اور قومی الیکشن میں خسرو بختیار کے کامیاب ٹرائلز اور تجربے نے مشترکہ پلان کے تحت آنے والوں دنوں میں مزید حارحانہ سیاست کرنے کا فیصلہ کر رکھا ہے.

مخدوم خسرو بختیار نے گذشتہ سے پیوستہ قومی الیکشن میں گڑھی اختیار خان والے حلقے میں الیکشن جیتنے کے بعد یہ سیٹ مخادیم کی باہمی سیاسی جارحانہ انڈر اسٹینڈنگ نہ ہونے کی وجہ سے بھونگ کے سردار رئیس محبوب احمد خان کو ٹھیکے پر دے دی تھی. 2018کے الیکشن میں کزنز نے بلدیاتی باہمی سیاسی فیصلے کو آگے بڑھاتے ہوئے صوبائی و قومی حلقوں میں اپنے سیاسی پھیلاو کی سوچ اور سمجھوتے کے تحت ترتیب دلوانے میں کامیاب رہے. یوں ایک بار پھر میانوالی قریشیاں کے مخادیم ایک قومی اور دو صوبائی حلقوں میں کامیاب ہو گئے.

اس بار مخدوم خسرو بختیار اور ان کے چھوٹے بھائی صوبائی وزیر خزانہ مخدوم ہوشم جواں بخت نے دوسری سیٹ ٹھیکے پر دینے کی بجائے اپنے کزن سابق صوبائی وزیر ماحولیات مخدوم اشفاق احمد ہاشمی کے بیٹے مخدوم فواز احمد ہاشمی کوچالیس ساٹھ کے تناسب سے راہکی جوڑے پر دے کر مستقبل کی سیاسی شراکت داری کی بنیاد رکھی.اس سیاسی جہاز کے پائلٹ مخدوم خسرو بختیار ہی ہیں.

اِدھر والے سارے مخدوم اس جہاز کی سواریاں ہیں. اُدھر والوں کو بوقت ضرورت وِنگار لفٹ دی جا سکتی ہے. اب مخادیم کے مستقبل کے سیاسی جارحانہ پلان کے دو رخ ہیں.ظاہر پیر کے حلقے میں کامیابی اور پنجے گاڑنے کے بعد ایک جانب وہ خانپور کے قومی حلقے میں کچھ ردوبدل کروا کر چک چار کی حمائت سے اس پر مخدوم خسرو بختیار کو الیکشن لڑوانے کا فیصلہ کیے بیٹھے ہیں.چک چار کو بخار کی صورت میں گڑھی شریف والا حلقے میں دوبارہ میانوالی کی انٹری ہوگی.

دوسری جانب حلقہ پی پی 261میں شہر کے قریب والے علاقوں کو کاٹ کر کچے والی سائیڈ سے متبادل علاقے شامل کروانے کا پروگرام ہے.اب دیکھیں کہ پہلے مرحلے میں حلقوں کی تبدیلی اور ردوبدل سے ہی مستقبل کی سیاست اور ہوا کے رخ اور دباؤ کا مزید اندازہ ہو جائے گا. ایک بات تو طے ہو چکی ہے کہ آئندہ میانوالی قریشیاں کے مخادیم دو قومی اسمبلی اور تین صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں الیکشن لڑیں گے. سابق گورنر پنجاب مخدوم احمد محمود کو پیپلز پارٹی کے اندر ٹف ٹائم دینے اور بھگانے کی سکیم بھی ماضی کی طرح پلان میں شامل ہے.

کزنز کے درمیان یہ بھی طے پایا ہوا ہے کہ سابق ایم این اے مخدوم نور محمد ہاشمی کے گھرانے کو کھکھے للے تو کرنا مگر ساتھ لے کر ہرگز نہیں چلنا. یہ اسی فیصلے کا ہی نتیجہ ہے کہ استقامت کے ساتھ پی ٹی آئی میں کھڑے رہنے اور پارٹی کو مختلف مواقع پر بھاری ڈونیشن دینے والے سابق ایم پی اے مخدوم مشرف حسین ہاشمی کے سیاسی ناسمجھ بیٹے مخدوم معاذ محمد پی ٹی آئی کی حکومت اور تنظیم میں کہیں پر بھی دکھائی نہیں دے رہے.میرے مشاہدے کے مطابق اس گھرانے میں میانوالی قریشیاں کے نام پر اپنی سیاست کو قربان کرنے اور بار بار ناکامیوں کو گلے لگانے کی ایک پختہ قسم کی عادت سے ہو گئی ہے.

اس گھرانے کو کب کہاں اور کس کس نے کیسے کیسے استعمال کیا ہے یہ بھی ایک دلچسپ سیاسی داستان ہے. اگر میں اس چیز کو اللہ تعالی کی ناراضگی کہوں تو یہ بات عین حقیقت ہو گی. اس کا ازالہ کیسے ہو سکتا ہے آغاز کہاں سے کیا جائے یہ سب باتیں یہاں نہیں لکھی اور کی جا سکتیں.

سب سے پہلے سچ کو سننا اور برداشت کرنا سیکھنا ہوگا.سابق ایم این اے مخدوم عماد الدین ہاشمی کو بھی اپنے سیاسی مشیر اور منشی موشدی بدلنے پڑیں گے. خاندان و گھرانے کے ایک بڑے کی حیثیت سے دل گردے کے ساتھ بڑے فیصلے کرنے ہوں گے. آپ کو تنکا تنکا اکٹھا کرنا اور جوڑنا پڑے گا. ہٹ دھرمی سے اس گھرانے نے ہمیشہ اپنا ہی نقصان کیا ہے.

اب سمجھوتے کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا. آپ مانیں یا نہ مانیں وقت حالات اور سیاست آپ کی مٹھی سے باہر نکل کر کافی دور جا چکی ہے.آپ اپنے سیاسی بھروسے اور اعتماد کے کلہوٹے، بھڑولے ذرا چیک تو کریں اندرونی پوزیشن کیا ہے.یہ انتہائی کڑوا سچ ہے میں نے اس لیے کہہ دیا ہے کہ مجھے آپ سے ہمدردی ہے.حقیقت میں میانوالی قریشیاں سے میرا دل بیزار ہو چکا ہے.

%d bloggers like this: