دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

Wusat Ullah Khan

چند طالب علمانہ معروضات و سوالات۔۔۔ وسعت اللہ خان

اور آخری سوال۔ کیا اجتہاد کا در آج بھی کھلا ہے؟ اگر ہاں تو کون اجتہاد کرنے کا اہل ہے اور حدود و قیود کیا ہیں؟۔

کچھ عرض کرنے سے پہلے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایک عام سے مسلمان کی طرح میں بھی دین کے بنیادی اصولوں سے واقف ضرور ہوں مگر ان کی باریکیوں اور شرح سے نابلد ہوں۔ چنانچہ اسلامی نظریاتی کونسل کے واجب الاحترام علمائے کرام سے بلا تخصیصِ فرقہ و فقہ رہنمائی کا طلب گار ہوں۔

کیا شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر متعین ہے یا پھر اس بارے میں احکامات ِشرعیہ کا لبِ لباب یہ ہے کہ جسمانی بلوغت کا معلوم ہوتے ساتھ ہی لڑکے لڑکی کا نکاح پڑھا دیا جائے یا پھر مراد یہ ہے کہ شادی کے لیے جسمانی بلوغت کی شرط لازم ہے؟

کیا نکاح کے لیے جسمانی بلوغت کو ہی معیار بنایا گیا ہے یا ذہنی بلوغت کو بھی اس ضمن میں ضروری اہمیت دی گئی ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر جس طرح جسمانی بلوغت کا ایک پیمانہ رکھا گیا ہے کیا ذہنی بلوغت کا بھی کوئی پیمانہ مقرر ہے کہ جس پر پورا اترے بغیر شادی میں جلد بازی نہ کی جائے؟ اور یہ کہ شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی سے کیا مراد ہے؟ کیا یہ رضا مندی بلا دباؤ ہونی چاہیے؟ اگر ہاں تو پھر جبری رضا مندی اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نکاح کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں؟ اور شرعاً ایک لڑکے اور لڑکی کو عمر کے کس دور سے باہوش و حواس عاقلانہ و آزادانہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرنے کے قابل سمجھا جا سکتا ہے لیکن اگر محض جسمانی بلوغت ہی نکاح کا پیمانہ ہے تو ایسے بچے جو روزمرہ ضروریات یا حصولِ تعلیم یا کسی اور سبب والدین یا رشتے داروں کے زیرِ کفالت ہیں ان کی بعد از نکاح کفالت کے تقاضوں کے بارے میں کیا احکامات ہیں؟ کیا جسمانی بلوغت کے فوراً بعد شادی شدہ زندگی کا معاشی بار وہ خود اٹھائیں گے یا اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے تک یہ ذمے داری والدین اور دیگر رشتے داروں پر عائد ہوگی؟

اگر ایک بچی بارہ برس اور بچہ چودہ برس کی عمر تک بالغ ہوجاتا ہے اور ان کی شادی ہوجاتی ہے تو کیا ایک چودہ سالہ لڑکے کے لیے عملاً ممکن ہے کہ وہ دینی و دنیاوی تعلیم جاری رکھ سکے یا پھر اسے سب سے پہلے اپنی اور بیوی کی کفالت کے معاملے پر توجہ دینا چاہیے۔ (دھیان رہے کہ چودہ برس کا جسمانی بالغ بچہ نویں درجے میں اور بارہ سالہ بالغ بچی زیادہ سے زیادہ ساتویں درجے میں پڑھ رہی ہوتی ہے)۔

ان شرعی احکامات کے بارے میں کیا ارشاد ہے جن کے تحت حصولِ علم ہر مسلمان عورت اور مرد پر فرض ہے۔ ایک چودہ سالہ شادی شدہ لڑکا کب روزی کمائے گا، کب علم حاصل کرے گا اور روز بروز بڑھتی ذمے داریوں کے درمیان کہاں تک علم حاصل کر پائے گا؟ اور ایک بارہ سالہ لڑکی ایک برس بعد ممکنہ طور پر ماں بننے کے بعد کی کل وقتی مصروفیات کے نتیجے میں کس قدر تحصیلِ علم کرپائے گی؟ ( لڑکیوں کی تعلیم اس لیے بھی ضروری ہے کہ اور کسی کی ہو نہ ہو ایک مثالی مسلمان معاشرے کو کوالیفائیڈ زنانہ طبی ماہرین اور معلمات کی بوجوہ احکاماتِ حجاب اشد ضرورت ہے)۔

میں یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ ایک چودہ برس کے نویں درجے میں زیرِ تعلیم شادی شدہ کو کن کن شعبوں میں اتنا بہتر روزگار مل سکتا ہے جس سے نہ صرف اس کے گھریلو بلکہ ایک برس بعد ممکنہ طور پر جنم لینے والے بچے کے اخراجات پورے ہوسکیں اور اسے روزمرہ ضروریات کے لیے ہمہ وقت ہما شما کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔

اس وقت جب کہ پاکستان میں نافذ عائلی قوانین کے تحت لڑکی کی شادی کے لیے عمر سولہ اور لڑکے کے لیے اٹھارہ برس مقرر ہے اور پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کا رواج بھی اتنا زیادہ نہیں۔ پھر بھی پاکستان میں پانچ برس تک کی عمر کے ایسے بچوں کی تعداد تیس فیصد ہے جن کی جسمانی نشوونما اور وزن ناکافی غدائیت کا شکار ہے۔ پاکستان کا شمار ان دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں دورانِ زچگی اموات کی تعداد سب سے زیادہ ہے کیونکہ صحت کی سہولیات اور فی کس طبی اخراجات کے لحاظ سے پاکستان ایک سو پچاسویں نمبر پر ہے۔ جب کہ ابتدائی تعلیم میں داخلے کی شرح کے اعتبار سے عالمی فہرست میں ایک سو چوبیسویں نمبر پر ہے۔ جب کہ پینتیس سے چالیس فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گذار رہی ہے اور ہر سال لاکھوں بچے اس ہجومِ غربت کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ بے شک اللہ تعالی رازق ہے مگر اونٹ کا زانو باندھنے کا بھی تو حکم ہے۔

ان حالات میں کیا اسلامی نظریاتی کونسل یہ سفارش بھی کرے گی کہ جسمانی بلوغت ہوتے ہی شادی کرنے والے جوڑوں کے روزگار، صحت اور تعلیم کی ذمے داری ریاست لے۔ ( وہ ریاست جو آبادی کے اعتبار سے عالمی رینکنگ میں چھٹے نمبر پر اور کم ازکم معیارِ زندگی کی عالمی فہرست میں اس وقت ایک سو بیالیسویں نمبر پر ہے )۔

اس وقت صرف چار مسلمان ممالک ایسے ہیں جہاں شادی کے لیے لڑکے و لڑکی کی کوئی طے شدہ عمر نہیں۔ برونائی، سوڈان، سعودی عرب اور یمن۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ اسلامی سربراہ کانفرنس کی تنظیم کے ستاون ارکان میں سے اگر مذکورہ چار ممالک کے سوا باقی تریپن رکن ممالک میں چودہ برس سے اکیس برس کے درمیان شادی کی اوسط عمر قانونی طور پر مقرر ہے تو کیا اسلامی نظریاتی کونسل ان تریپن مسلمان ممالک کے عائلی قوانین کے حرام و حلال یا مکروہ ہونے کے بارے میں کوئی رائے دینا چاہے گی؟

بیرسٹر محمد علی جناح نے انیس سو انتیس میں انڈین لیجسلیٹو کونسل کے رکن کے طور پر شادی کی کم ازکم عمر مقرر کرنے کے قانونی بل کی پرزور حمایت کی۔ اسلامی نظریاتی کونسل جناح صاحب کی اس وکالت کو کس نظر سے دیکھتی ہے؟۔ (خود جناح صاحب کا محترمہ رتن بائی ( مریم ) سے نکاح ہوا تو اس وقت محترمہ رتن کی عمر سولہ برس تھی گویا وہ بالغ تھیں۔ تاہم ان کی رخصتی اٹھارہ برس کی عمر میں ہوئی )۔

اب فقہ کی روشنی میں ایک ذاتی سا سوال۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے کتنے حاضر و سابق واجب الااحترام ارکان نے جسمانی بلوغت کے فوراً بعد شادی کا اصول اپنے اپنے خاندانوں پر لاگو کیا ہے؟ اس کا جواب کروڑوں پاکستانی مسلمانوں کے لیے مشعلِ راہ بن سکتا ہے۔

جہاں تک یہ معاملہ ہے کہ دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت ضروری ہے کہ نہیں۔ تو مجھ جیسا کم علم اس کھکیڑ میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مگر قرآنِ حکیم کی سورہِ نسا میں عورتوں کا ایسا کون سا حق اور فرض ہے کہ جس پر بات نہیں ہوئی۔

’’ اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کر کے تم انصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں میں سے جو تمہیں اچھی لگیں نکاح کر لو۔ دو دو تین تین چار چار سے۔ لیکن اگر تمہیں برابری نہ کرسکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا پھر جس پر تمہارا قبضہ ( لونڈی ) ہو۔ اس طرح زیادہ امکان ہے کہ تم ایک طرف نا جھکو ’’۔ ( نسا۔ آئت تین )

’’ اور تم عورتوں کے درمیان برابری نہ رکھ سکو گے خواہ تم کتنی ہی خواہش کرو۔ مگر پوری طرح ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ کہ اسے لٹکی ہوئی شے کی طرح چھوڑ دو ’’۔ ( نسا۔ آئت ایک سو انتیس )

کیا ہی اچھا ہو کہ فی زمانہ نکاحِ عرفی، مسیار اور متعہ (مخصوص عرصے کے لیے کی جانے والی مشروط شادی ) کے بارے میں بھی اسلامی نظریاتی کونسل کا موقف اور سفارشات سامنے آ سکیں تاکہ ان نکاحیہ اقسام کے بارے میں بہت سے مسلمانوں میں جو ابہام پایا جاتا ہے وہ دور ہوجائے۔ اور یہ بھی کہ آیا نکاح کو دستاویزی شکل دینا اور پھر ریاست کے روبرو رجسٹر کرانا شرعاً ضروری ہے یا نہیں؟

کیا یہ حقیقت ہے کہ بیوی پر حقوقِ زوجیت کی ادائیگی اور بچے کو دودھ پلانے کے علاوہ شرعاً کوئی گھریلو ذمے داری عائد نہیں ہوتی تاوقتیکہ کہ اس کی مرضی شامل نہ ہو اور وہ روزمرہ گھریلو کام کاج کے لیے چاہے تو شوہر سے معاوضہ طلب کرسکتی ہے؟

اگرچہ حق مہر، جائیداد و املاک و ترکے میں عورتوں کے حقوق اور حصے کے بارے میں احکاماتِ خداوندی سورہ ِ نسا میں نہایت واضح ہیں۔ پھر بھی اگر ان پر کوئی عمل نہیں کرتا اور حیلے بہانے اختیار کرتا ہے تو اس بارے میں اسلامی نظریاتی کونسل کی کیا سفارشات تھیں، ہیں یا ہوں گی؟

یہ ٹھیک ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے کے بموجب زنا بالرضا و بالجبر کے ثبوت کے طور پر ڈی این اے رپورٹ کو کلیدی ثبوت کی حیثیت نہیں دی جاسکتی مگر کیا کونسل ایک بار پھر عوام کی آگہی کے لیے دہرائے گی کہ زنا کی گواہی اور گواہوں کا شرعی معیار کیا ہونا چاہیے؟ اور اس وقت اس جرم کی بابت جو خواتین و حضرات قید ہیں کیا ان کے گواہوں کا معیار وہی ہے جو فقیہان ِعظام نے شریعت کی روشنی میں طے کیا۔ اور کیا ایسے مجرموں کی سزا و جزا کا معاملہ ریاست کا حق ہے یا غیر ریاستی قوتیں اور افراد بھی ان کی سزا و جزا کا فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں؟ اگر جواب نہیں میں ہے تو پھر اپنے تئیں سزا و جزا کا فیصلہ کرنے والے گروہوں اور افراد کے بارے میں شرعاً کیا حکم ہے؟

کیا ایسا بھی ہے کہ روزمرہ زندگی کے بارے میں کچھ تو واضح شرعی احکامات ہیں اور کچھ پہلوؤں کے بارے میں بنیادی شرعی اصول طے کردیے گئے ہیں تاکہ زمانی تقاضوں کے مطابق ان اصولوں کی روشنی میں زندگی سہل ہو کر آگے بڑھ سکے۔ اگر ایسا نہیں تو پھر میری تعلیم کیجیے۔

اور آخری سوال۔ کیا اجتہاد کا در آج بھی کھلا ہے؟ اگر ہاں تو کون اجتہاد کرنے کا اہل ہے اور حدود و قیود کیا ہیں؟۔

امید ہے ان گذارشات و استفسارات کو ایک طالب علمانہ تجسس کے طور پر دیکھا اور پرکھا جائے گا۔ کیونکہ ہمیں بچپن سے بتایا جا رہا ہے کہ شرعی مسائل پر جید علما سے کوئی بھی سوال بلا جھجک پوچھ لینا چاہیے اور اس بارے میں از خود فرض کرلینا درست عمل نہیں ہوتا۔

About The Author