مئی 18, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

معاشیات اور سفارتکاری کے میدان ۔۔۔ حیدر جاوید سید

یہ امریکہ کی سال بھر کی محنت سے ہوا، اسرائیل متحدہ عرب امارات معاہدہ امن ان کی انتخابی مہم کا سودوں میں سے ایک سودا ہے۔

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان امن معاہدہ کیا ہوا ہمارے پاکستانی بہن بھائی ”پھڑک پھڑک” جارہے ہیں۔ فلسطینی صدر نے تو صرف اس معاہدہ کو اپنی جدوجہد کی پشت میں چھرا گھوپنا قرار دیا ہے لیکن یہاں سوشل میڈیا مجاہدین اسلام اور اُمہ سے غداری اور نجانے کیا کیا کہہ بول رہے ہیں۔

ہمارے ہاں توریاستی بیانئے کو ایمان کا ساتواں رکن سمجھ کر پوجتی یہ چوتھی نسل ہے۔

ان کے درمیان کسی آزادخیالی سے عبارت رائے سازی کفر سے بڑا جرم ہے۔

پچھلی شب ایک دوست سے عرض کیا ہمارے پُرکھوں کی طرح آج کی نسل بھی تنگ نظر، ہٹ دھرم اور سرابوں کے پیچھے منہ اُٹھائے کیوں بھاگ رہی ہے؟

رسان سے بولے ”شاہ جی! مقصد حیات واضح نہ ہو تو یہی کچھ ہوتا ہے”

اب کوئی پوچھے معاہدہ امن اسرائیل اور متحدہ عرب امارات میں ہوا ہے، سفارتی تعلقات کا دروازہ انہوں نے کھولا ہے، باہمی تعاون وہ بڑھائیں گے، یہ ہمارے یہاں ”چیخم دھاڑ” کیوں؟

زندگی اور تاریخ کی ابدی سچائی یہ ہے کہ اقوام اور ممالک کے درمیان باہمی مفادات پر تعلقات استوار ہوتے ہیں۔ معاشیات افضل ترین حقیقت ہے جس نے اس حقیقت سے منہ موڑا وہ بندگلی سے نہیں نکل پایا۔

ہم بھی چوتھی نسل کیساتھ بند گلی میں جینے کے مرض کو زندگی سمجھ رہے ہیں۔

یہاں حالت یہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی پہلو اور حوالے سے ترقی پسند تعبیرات کو بقا سمجھتے ہیں تو پھر فتوؤں کی چاندماری کیلئے تیار رہیں، عجیب سی تنگ نظری و

تعصبات سے گندھا خبط عظمت ہمارے پرکھوں نے کاشت کیا، فصل ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی۔

ہمیں سمجھنا ہوگا امریکہ کے صدارتی انتخاب اڑھائی دو تین ماہ کی دوری پر ہے، صدر ٹرمپ امریکی رائے دہندگان کو آخر کوئی سودا، کامیابی فروخت کر کے گرویدہ کریں گے۔

یہ امریکہ کی سال بھر کی محنت سے ہوا، اسرائیل متحدہ عرب امارات معاہدہ امن ان کی انتخابی مہم کا سودوں میں سے ایک سودا ہے۔

اچھا کیا پہلے جن مسلم ممالک کیساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات ہیں اُن سے ہم (پاکستان) کٹی کر کے بیٹھ گئے؟

نہیں نا تو پھر اب یہ رونا دھونا کیوں؟

ہم اگر تقسیم برصغیر کے حوالے سے اس فلاسفی کو مان لیں کہ برصغیر مذہب کی بناء پر تقسیم ہوا اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا تو پھر اس حساب سے اسرائیل دین موسویتؑ (یہودیت) کے نام پر معرض وجود میں آیا۔

اسرائیل میں شناخت بنی اسرائیل نہیں یہودیت ہے، سادہ لفظوں میں یہ کہ دنیا میں دو ہی ملک مذہب کے نام پر معرض وجود میں آئے۔ پاکستان اور اسرائیل، اس طور ہمارا جھکاؤ کس طرف ہونا چاہئے؟

سیاسیات عالم اور سفارتی امور سنجیدگی سے غور وفکر کے متقاضی ہیں۔ یہ شور وغل، مرگ بر اسرائیل کے نعرے، یہودی عالم اسلام کے بدترین دشمن ہیں سب فیشنی درشنی نعرے اور کھابے ہیں۔

لاریب فلسطینیوں کی قومی سلامتی کا تحفظ ہونا چاہئے۔ اسرائیل کو توسیع پسند انہ عزائم ترک کرنا ہوں گے، البتہ مشرق وسطیٰ کے جس حصے میں اسرائیل وفلسطین واقع ہیں اس کی قدیم تاریخ کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

یہودیت نے اس سرزمین پر جنم لیا اور یہ تب کی بات ہے جب موجودہ دور یا کچھ ہزاریوں سے موجود سخت گیر جغرافیائی لکیریں موجود نہیں تھیں۔

تینوں بڑے آسمانی مذاہب (چوتھا آسمانی مذہب اب نایاب ہے) کی جنم بھومی یہی خطہ ہے القدس سے مکہ موجودہ سعودی عرب تک،

خود بنی اسرائیل (آج معروف معنوں میں یہودی) باہر سے آکر عربوں کی سرزمین پر قابض نہیں ہوئے۔

حضرت یعقوبؑ(اسرائیل آپ ہی کی کنیت ہے) کی جائے پیدائش کا علاقہ موجودہ مملکت شام کا ایک قدیم شہر ہے۔ بنی اسرائیل شام سے ہی مصر منتقل ہو ئے، پھر مصر سے ہجرت کی اور آج فلسطین کہلانے والے علاقے کے طول وعرض میں آباد ہوئے۔

ہجرتوں، نکالے جانے، قیدی بنا لئے جانے، غلامی اور آزادی کی بھی تاریخ ہے ان کی۔

قومی، مذہبی اور ریاستی طور پر (یہودی اسرائیل) وہ ایک حقیقت ہیں، بائیکاٹ کر کے بیٹھ جانے سے زیادہ بہتر اس کے پڑوسی ممالک کا اس سے تعلقات استوار کرنا ہوگا، تبھی وہ فلسطینی مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے اسرائیل پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں۔

بہت احترام کیساتھ عرض ہے ہمیں اپنے ملکی، معاشی اور سماجی مفادات کو دیکھنا سمجھنا چاہئے۔

اسرائیل سے تعلقات نہیں بنانا چاہتے تو نہ بنائیں لیکن نفرت کے جنون کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں۔

مسجد اقصیٰ، چاروں آسمانی مذاہب کے پیروکاران کیلئے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔

تاریخی اور مذہبی طور پر مسلم دنیا اسرائیل سے مؤثر سفارتکاری کے ذریعے ہی اسے اس بات پر آمادہ کر سکتی ہے کہ بیت المقدس شہر کو آسمانی مذاہب کے تمام پیروکاران کیلئے کھلا شہر قرار دے

اور اس کے عباداتی امور کے حوالے سے عالمی کمیٹی بن جائے

لیکن اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسرائیل کو حرف غلط کی طرح مٹا کر مقاصد حاصل کر لے گا تو یہ غلط سوچ ہے۔

اچھا ایک اور سوال ہے، پاکستان کا اسرائیل سے برارہ راست تنازعہ کیا ہے؟

کوئی بھی ہم تہتر برسوں سے فلسطینیوں کیلئے اسرائیل کے مخالف ہیں۔

نفرت بھری اس سوا سات دہائیوں کی پالیسی سے ہمیں براہ راست کوئی فائدہ ہوا؟

جی نہیں بلکہ اُلٹا اسرائیل بھارت کے قریب ہوا۔

مکرر عرض ہے معاشیات اور سفارتکاری یکسر مختلف معاملات ہیں، دونوں کام مذاہب وعقیدوں کی کوکھ سے جنم لینے والی پالیسیوں سے نہیں بلکہ باہمی تعاون وتعلقات سے سرانجام پاتے ہیں۔

سو اے اہل وطن!

زندگی، تاریخ اور مستقبل کی حقیقتوں کو سمجھنے کی شعوری کوشش کیجئے۔

%d bloggers like this: