مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

زندہ پیر افسانوی شخصیت یاحقیقی کردار

اونچے پہاڑوں اور بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان مشہور زیارت گاہ درگاہ زندہ پیرہے

عبدالغفار بلوچ


ضلع ڈیرہ غازیخان کوہ سلیمان کی سنگلاخ چٹانوں،اونچے پہاڑوں اور بل کھاتی ہوئی پہاڑیوں کے درمیان مشہور زیارت گاہ درگاہ زندہ پیرہے

شادن لُنڈ سے تقریبابیس کلومیٹرمغربی جانب،ڈی جی سیمنٹ فیکٹری سے تقریبا سترہ کلومیٹر شمال مغربی جانب اور ڈیرہ غازی خان سے پچپن کلومیٹر کے فاصلے پر یہ زیارت گاہ ہے۔

ویسے تو زندہ پیر کے پہاڑ خشک و بے آباد ہیں لیکن معدنیات سے بھرپور ہونے کے باعث کافی اہم ہیں، راستہ میں مختلف مقامات پر برساتی پانی پر گندم کی فصل کاشت کی گئی ہے

اسکے علاوہ کھجور اور بیر کے درخت بھی پائے جاتے ہیں مندرجہ ذیل خصوصیات زندہ پیر کے پہاڑوں کو بنجر ہونے کے باوجود سیاحوں کی توجہ کا مرکز بناتی ہیں جیسا کہ

نام سے ظاہر ہے کہ یہ زیارت گاہ کسی بزرگ سے موسوم ہے اور ان کی عبادت گاہ بھی وادی میں موجود ہے

یہ درگاہ تمن لنڈ اور تمن کھوسہ کی سرحد پر واقع ہے ہرسال مارچ(یعنی چیتر) کے مہینہ میں مختصرسا میلہ بھی لگتا ہے جس میں عقیدتمندوں کی کافی تعداد حاضر ہوتی ہے.

یہاں پہاڑ سے نکلنے والا گرم پانی کا ایک چشمہ بھی ہے،گندھک کی آمیزش کیوجہ سے پانی گرم اور جراثیم کش ہے،

عقیدت مند اور جلدی امراض کے لوگ اس گرم چشمہ کے پانی سے غسل کرنے زندہ پیر آتے ہیں گرم چشمہ کا پانی بہتا بہتا برساتی ندی میں شامل ہو جاتا ہے

اور آگے چل کر بڑے بڑے پتھروں کے درمیان سے نکلتا ہوا، چھوٹی چھوٹی آبشاروں کی صورت اختیار کر لیتا ہے،

اس مقام پر پہاڑوں کے درمیان ہوا کے کٹاؤ کی آواز، پتھروں سے گرتے پانی کا شور، ٹھنڈی ہوا اور تالاب کا نیلگوں پانی ایک مسحور کن ماحول قائم کرتے ہیں،

بنجر پہاڑوں میں یہ دلفریب فطرتی مناظر سیاحوں کو یہاں کھینچ لاتے ہیں.پہلے اس کاراستہ بہت دشوار گذار تھا

مگر اب ملک کی معروف سیاسی شخصیت،کوہ سلیمان کی پہچان، عزت مآب جناب سردارمحمد محسن عطا خان کھوسہ صاحب،

سابق صوبائی پارلیمانی سیکرٹری وموجودہ ایم پی اے کی خصوصی توجہ سے زندہ پیر کی جانب پختہ سڑک پر کام جاری ہے اور نوے فیصد کام مکمل ہوچکاہے۔

زندہ پیر کے متعلق کوئی مستند کہانی ہمیں نہیں مل سکی البتہ جب سے یہ درگاہ محکمہ اوقاف کے کنٹرول میں آیا ہے تو محکمہ اوقاف نے تعارفی کتابچہ شائع کرایا اور اس میں لکھا ہے کہ

یہ زیارت گاہ دراصل حضرت خضرعلیہ السلام کی قیام گاہ ہے جن کی برکت سے یہاں کاپانی وبائی وجلدی امراض کیلئے شفا کاباعث ہے،

ہماری نظر میں یہ بات نہ صرف غیر تحقیقی ہے بلکہ اس میں حقیقی تاریخ سے پیچھا چھڑانا مقصود ہے، مشہور تاریخ نویس و اکسٹرا مہتمم بندوبست ضلع ڈیرہ غازیخان منشی حکم چند نے

جب سن اٹھارہ سو پچھتر(1875ء) میں جب ضلع ڈیرہ غازیخان کاریکارڈ مرتب کیا تو اس نے زندہ پیر کی کہانی بھی لکھی وہ ریکارڈ پہلی بار اٹھارہ سو چھیہتر(1876ء) میں چھپ کر

منظر عام پر آیا منشی حکم چند نے اپنی مشہور کتاب تواریخ ضلع ڈیرہ غازیخان میں زندہ پیر کے متعلق لکھا ہے کہ زندہ پیر سخی سرور علیہ الرحمہ کا ہم عصر ہے

گویا زندہ پیر کا زمانہ بارھویں صدی عیسوی ہے کیونکہ سخی سرور علیہ الرحمہ کی پیدائش سن پا نچ سو چوبیس ہجری(524ھ) بمطابق تین اپریل گیارہ سوتیس(1130ء) میں ہوئی

اور 22رجب المرجب سن پانچ سوستتر (577ھ) بمطابق سن گیارہ سواکیاسی(1181ء) کو ترپن سال کی عمر میں جب آپ کی وفات ہوئی گویا زندہ پیر کازمانہ بھی اسی سے قریب قریب ہے

منشی حکم چند کے بقول زندہ پیر کااصل نام لاکھا لاھڑی اور والد کانام شہباز اولیاء ہے شہباز اولیاء نے کسی عورت پرنظرکیا

تو وہ خود بخود حاملہ ہوگئی زندہ پیر نے اسی خاتون سے جنم لیا زندہ پیر اپنے اصلی مسکن(جس کانام تاریخ میں نہیں ملتا) سے بغرض عبادت وریاضت کوہ سلیمان کے انہی پہاڑوں میں آکر مراقب ہوا

اور اب تک اس کی وفات کی کوئی علامت نہیں ملی لاکھا لاھڑی(زندہ پیر) کاسخی سرور علیہ الرحمہ کے پاس آنا جانا تھا

ایک دن لاکھا لاھڑی نے ایک خیرات کاپروگرام بنایا جس میں بطورمہمان خصوصی سخی سرور علیہ الرحمہ مدعو تھے لاکھالاھڑی کی ایک باندی(کنیز،نوکرانی) نے خیرات کی دیگ چڑھائی

لیکن اس کے پکنے میں غیر ضروری تاخیر ہوگئی تو زندہ پیر نے سخی سرور کو دیر ہوجانے کی وجہ سے اپنی کنیز پر ناراضگی کااظہار کیا

اورغصے میں اس کھولتے ہو ئی دیگ پر لات مار دی وہ دیگ اور باندی دونوں زمین میں غرق ہوگئے اسی مقام سے گرم پانی نکلنے لگا

جو جلدی امراض کیلئے اکسیر کی حیثیت رکھنے لگا پہلے صرف ایک ہی جگہ سے پانی نکلتاتھا پھر رفتہ رفتہ قریب قریب کے آٹھ، دس مقامات سے گرم پانی نکلنے لگا

پانی اس قدر گرم ہے کہ ہاتھ نہیں لگایا جاسکتا اور اس میں سے گندھک کی بوآتی ہے، اور کچھ چکناہٹ و لیس بھی ہے

ایسے محسوس ہوتاھے کہ اس میں کوئی روغن ملاہوا ہو پانی کارنگ بالکل سفید ہے اگر پانی میں میلے کچیلے کپڑے ڈالے جائیں

تو سفید ہوجاتے ہیں اکثر لوگ پھوڑے،پھنسیوں،بادفرنگ،جذام،خارش، وغیرہ کی وجہ سے اس پانی میں غسل کرتے ہیں

اورشفایاب ہوجاتے ہیں۔بقول منشی حکم چند زندہ پیر کے نام پرمختلف مواضعات میں ایک سوساٹھ(160) مکانات ہیں

لیکن ہمیں اب ان مکانوں کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا، گرم چشمے سے متصل جنوب میں ایک غار ہے وہ دور تک چلی جاتی ہے

بعض لوگ کہتے ہیں کہ زندہ پیر اسی غارمیں اب تک قیام پذیرہیں بسبب سخت اندھیرے کے غار کا انتہا نہیں پایاگیا البتہ غار کے اندر کبوتر پائے جاتے ہیں،

نقل مشہور ہے کہ ایک فقیر اسی مقام پر کہیں سے آیا جو کہتا تھا کہ میں کسی راجہ کابیٹا ہوں اس نے زندہ پیر کو گوشۂ گم نامی سے نکالنے کیلئے اپنی جیب سے زندہ پیر کے

نام پر سات قیمتی و عالی شان محلات تعمیر کروائے لیکن گوشہ تنہائی کو پسند کرنے والے زندہ پیر کو اس فقیر کا یہ اقدام پسند نہ آیا

ایسی سخت بارش ہوئی کہ سوری ندی میں طغیانی کاسماں ہوگیا اور ایک بڑاپتھرلڑھکتاہوا پہاڑ کے درے میں آگیا جس کی وجہ سے پانی کااخراج نہیں ہوسکا

اور وہ ساتوں مضبوط محلات ایک ہی آن میں مسمار ہوگئے لیکن قرآن شریف اور ایک چارپائی،اور نقاروں کی ایک جوڑی پہاڑ کی چوٹی پر پڑے ہوئے رہ گئے

محلات کا کوئی نام ونشان نہ رہا البتہ چونے کی ایک دیوار کانشان باقی رہ گیا(یہ نشان بھی منشی حکم چند کے دور میں ملتاہوگا

ہمارے دور میں ایساکوئی نشان نہیں ملتا) بعد میں کوئی اور فقیر آیا اس نے ایک مکان بناکر وہ قرآن شریف،چارپائی،

اور نقارے اسی میں رکھوا دئے لوگ پانی سے غسل کے بعد انہی تبرکات کی زیارت کرتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ وہ سب آثار بھی مٹ گئے

اور بعد میں آج سے کوئی چھے سات برس قبل(یعنی تقریبا 1870ء کے آس پاس)لُنڈ تمن دارسردار فضل علی خان لُنڈنے اسی جگہ ایک خام محل بنواکر سات جلد قرآن پاک،

اور چارپائی اسی محل میں رکھوادئے حسن نامی مجاور چڑھاوے لیتا ہے اور شادن لنڈ کے زمینداران اپنی فصلات میں سے ایک ٹوپہ فی پتھ(پتھ تقریبا بتیس من کو کہاجاتاھے

اور ٹوپہ تقریبا پانچ کلو کا ایک پیمانہ ہے) اس مجاور کودیتے ہیں درگاہ کے دروازے کے سامنے بیری اورپیلو کے درخت بکثرت ہیں۔

چندایک سال قبل میں نے بذات خود غار کے پاس پہاڑ کی چوٹی پر ایک انسانی قدم دیکھا جو پہاڑ پر نقش تھا

اور بالکل اوریجنل تھا نیز گھوڑے کاسم بھی پہاڑ پر نقش تھا اور اونٹنی کے قدم کے نشان بھی تھے

اور ایک تندور اور ندی بھی موجودتھی اور غار کے اندر کاموسم سخت گرمیوں میں بھی دل فریب تھا

ایسے محسوس ہوتا تھا کہ غار میں کسی نے اے سی چلایا ہوا ہو اور غار سے بھینی بھینی خوشبو بھی آرہی تھی۔

%d bloggers like this: