مئی 20, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وادیٔ گومل میں پتھر اور کانسی کے زمانے کے آثار قدیمہ

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کا کوئی دوسرا علاقہ اتنا مالا مال نہیں رہا جتنا کہوادیٔ گومل

وادیٔ گومل میں پتھر اور کانسی کے زمانے کے آثار قدیمہ

  حفیظ الحسن

(صوبہ سرحد)

کانسی کے زمانے کے آثار قدیمہ کےحوالے سے،

پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ کا کوئی دوسرا علاقہ اتنا مالا مال نہیں رہا جتنا کہ

وادیٔ گومل اور اسکا میدان۔ اس کی وجہ یہاں کی جغرافیائی اور ماحولیاتی ترتیب ہے جس کے باعث ماضی کے ہزاروں سال یہ خطہ قدرتی وسائل کیساتھ ساتھ پانی کے وافر ذخائر،

زرخیز زمین اور سرسبز چراگاہوں ںسےبھرا رہا۔ گومل کا میدانی علاقہ شمال مشرق میں خیسور اور شیخ بدین کے پہاڑی سلسلے ،

شمال میں بھٹنی پہاڑیوں، مغرب میں وزیرستان اورکوہ سلیمان ، اور مشرق میں دریائے سندھ کی حدود سے جڑا ہوا ہے- زمانۂ قدیم میں میدانی علاقے میں خاطر خواہ بارشوں اور کوہ سلیمان پر برفباری کے باعث یہاں کی آب و ہوا انسانی آبادکاریوں کیلئے موافق رہی۔

چنانچہ یہ قطعی حیرانکن نہ ہوگا اگر یہاں سے پتھر کے زمانے یعنی (Stone Age) اور کانسی کے زمانے (Bronze Age) کے آثار ملیں۔

یعنی چھ سے بارہ ہزار سال پرانے آثار۔

اسی تناظر میں یہاں اْنیسویں صدی کے آخر میں آثارِ قدیمہ کی تلاش کا کام شروع ہوا۔شروعات برطانوی دور کے نئے قائم شدہ محکمے آرکیولاجیکل سروے آف انڈیا کےڈاریکٹر جنرل ایلگزنڈر کونیگھم

نے 1878۔1879 میں کی جس میں اْنہیوں نے آثارِ قدیمہ کی تلاش کیلئے یہاں کا سروے کیا۔

تاہم اْنکا کام زیادہ تر ہندو شاہی سلطنت کے دور کے آثار، مثال کے طور پر کافر کوٹ کے قلعہ جات تک محدود رہا۔

اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے دریافت شدہ آثارِ قدیمہ کے تحفظ کا کام 1927 برطانیہ کے ہیرالڈ ہارگریوز نے کیا۔

اسکے بعد ہونے والی پیش رفت میں 1927 میں آرول سٹیین نے کوہ سلیمان کے دامن میں مختلف آثار قدیمہ کے مقامات دریافت کیے۔

تقسیمِ ہند کے بعد یہاں 1970 میں پشاور یونیورسٹی کے شعبہ آثارقدیمہ کے چیئرمین جناب احمد حسن دانی نے ہتھالہ اور گملہ کے مقام پرمتواتر کھدائیوں کےدوران کانسی کے

دور کے بیش قیمت آثار اور نمونے دریافت کیے۔ اس سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ی پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر فرزند علی درانی

اور ان کے ساتھیوں نے بالترتیب 2000,1998,1997,1991,1988 میں کھدایوں کے دوران مزید آثار دریافت کیے۔

ان تمام کوششوں سے نہ صرف اس علاقے کی پتھر کے زمانے سےدورِ اسلام تک کی تاریخ مرتب ہوئی بلکہ یہاں کی تاریخ میں اندرون و بیرون ملک کے متعدد محققین کی دلچسپی میں بھی اضافہ ہوا۔

2003 میں محکمہ آثار قدیمہ و عجائب گھر ، صوبہ سرحد کی حکومت نے قدرتی آفات اور انسانی غفلت کے باعث اس علاقے میں آثارِ قدیمہ کے مٹ جانے کے خطرات کا اِدراک کرتے ہوئے ،

یہاں کے تمام آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات کو منظم طریقے سے ریکارڈمیں لانےکی مہم شروع کی۔ چنانچہ ڈاکٹر احسان علی کی نگرانی میں اس خطے کا دو ہفتہ کا سروے کیا گیا۔

سروے کے نتیجے ںپتھر کے زمانے سے مغل دور تک کی تقریبا ۵۴ نئی سائٹیں اور مقامات کی نشاندہی کی گئی

جنکی حفاظت ضروری تھی۔ ان مقامات کی درجہ بندی کچھ اس طرح سے ہے۔۱-ںپتھر کا زمانہ( سائٹ تعداد، ۱) ،۲۔ کانسی کا دور(سائٹ تعداد، ۳)، ۳ ہڑپہ کا دور(سائٹ تعداد، ٦)، ۴- تاریخی مقامات(۳۴)، مساجد ع مقبرے(۵،۵)-
ان میں کانسی کے دور کے قابل ذکر مقامات یہ ہیں کوٹ موسیٰ ، مدائی ، درازندا ، گلگئی کوٹ۔I ، عمر دراز ڈھیری-I اور II ، کوری ہوٹ ،

لال ماہڑا ، تکوارہ (ننگ شاہ) اور روہڑی II۔اسکے علاوہ مزید اہم تاریخی ادوار کی جگہیں کنڈیاں II اور لالو کوٹ I ہیں۔ یہاں کانسی کے دور کی سائیٹ گلگئی کوٹ۔I قابلِ ذکر ہے

جو اپنی نوعیت دریافت شدہ۔ تیسری اہم سائیٹ ہے۔ اِس سے پہلے اسی دور کی مزید دو سائیٹس بنوں میں شیری خان ترکائی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں جھنڈی بابر کے مقام پر دریافت ہوئیں۔

%d bloggers like this: