شاہ محمود قریشی، بہاوالحق ذکریا ملتانی رح کے وارث ہیں۔مخدوم حمیدالدین حاکم کے نام ایک سفارشی خط میں سرائیکی کا پہلا ڈوہڑہ ذکریا ملتانی رح نے لکھا تھا۔ملتان کا شیخ رح عام لوگوں کی دستگیری کے لئے مشہور تھا۔جامعہ بہائیہ ، کاروباری گلڈ، اور تجارت کے لئے قرض دینا ان کا معمول تھا۔ملتان کے کاریگروں اور ہنرمندوں کی ترقی اور شناخت میں ان کا تاریخی کردار ہے۔ملتان میں سمرا اقتدار کے خاتمے کے بعد بے روزگار سمرا نوجوانوں کو انھوں نے سمر قند بھیجا اور کاشی گری کی تعلیم دلوائی۔ آٹھ صدیاں گزرنے کے بعد بھی یہ فن سمرا خاندان کے لوگ کرتے ہیں۔ملتان شہر کے محلے ، کنگھی محلہ، حمام محلہ، درکھانہ محلہ، کجھی محلہ اور مضافاتی آبادیاں سوتری وٹ، نیل کوٹ، بستی چم رنگ اور ٹھٹھہ پاولیاں، ذکریا ملتانی کی مالی مدد اور سرپرستی کی کہانیاں کہتے ہیں۔ ذکریا ملتانی رح نے کامیاب ڈپلومیسی سے ایک لاکھ ٹنکہ دے کر کم از کم ایک بار ملتان کو منگولوں کی غارت گری سے بچایا تھا۔ بابا فرید رح کے فیض سے سیراب، خاتونِ اول اور بہاوالحق ذکریا رح کے وارث ، شاہ محمود قریشی کو وسیب کے لوگوں کے لئے شناخت اور سرائیکی صوبے سے وابستہ عام لوگوں کی خوشحالی کے لئے تاریخ نے ایک موقع دیا ہے۔وہ کیا کرتے ہیں اس پر jury is out ۔ ہم نے خاتونِ اول کے بابا فرید رح اور شاہ محمود قریشی کے ذکریا ملتانی رح کے ورثے اور عوامی فلاحی کردار کو آواز دی ہے۔ طعنہ زنی میںطاق غالب یاد آئے:
نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تو غالب
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو!
ملتان اپنی تاریخ کے ساتویں دور سے گزر رہا ہے اور یہ ایک ahistorical عہد ہے ۔ متوازی عوامی تاریخ عوام کے چہروں کی جھریوں میں لکھی ہے اور یہی خطے کی اصل تاریخ ہے جو نصاب میں نہیں لکھی گئی۔ استعماری سوچ مقامی آدمی کی شناخت مٹا کر اور اسے گھٹیا ثابت کرنے سے معتبر ہوتی ہے۔بابا فرید رح اور حق بہاولحق دربار سے منسلک ہونے کے باوجود درباری صوفی نہیں تھے اور نہ وہ تارک الدنیا صوفیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ دونوں انقلابی صوفی تھے کہ انقلاب قلب کی کایا کلپ کرتا ہے اور دل کو انفس کی محبت سے پھیر کر آفاق کی محبت سے بھر دیتا ہے۔غریبوں اور مقامیوں کی زبان اور معاشیات کی بہتری سے بابا فرید رح،گنجِ شکر اور بہاالدین ذکریا رح،بہاوالحق ہوئے تھے۔ہمارے ahistoricalعہد کو نئی شروعات کے لئے تیرھویں صدی کے دو نابغوں کی دانش و دانائی کی ضرورت ہے اور ان کے دو وارث اقتدار محل میں براجمان ہیں اور قدیم ملتان پورے سرائیکی وسیب کی علامت ہے۔ وسیب کا مطالبہ صوبہ ہے اور سول سیکرٹریٹ کے معاملے میں ہم سخن فہم ہیں،کسی کے طرفدار نہیں۔ملتان اپنی تاریخ اور قدامت کی بنیاد پر بہاولپور کا بڑا بھائی ہے۔ لاہور کو تختِ لاہور کا طعنہ اشرافیہ کی ڈولفن صفتی کی وجہ سے سننا پڑتا ہے۔تختِ ملتان کی بات مدینتہ الاولیاء کے ethosکے خلاف ہے۔صدیوں کے سفر میں ملتان کے بیشتر حکمرانوں اور گورنروں نے قبضہ گیری اور لوٹ مار کی تھی، فساد برپا کیا تھا، صوفیوں نے خدمت کی تھی ۔سمرا ، لنگاہ اور قدیمی ملہیوں کے علاوہ تاریخ کے دامن میں نابینا گورنر اور بادشاہ ہیں۔
سیکرٹریٹ کے بارے میں شاہ محمود قریشی کا موقف ملتان کی magnanimityکا آئینہ دار ہے۔چولستان کے کنارے آباد بہاولپور کا جدید اور مرتب شہر 1748میں آباد ہوا۔صدیوں پہلے اساطیری دانش اور آرٹس کی دیوی سرسوتی بہاولپور کو سیراب کرتی تھی۔خواجہ غلام فرید رح نے روہی کی خاک چھانی اور پیلوں کے رنگوں اور پیلوں چننے والی حسیناوں پہ کافیاں لکھیں۔وہ بہاولپور کے اردگرد یار کے درشن کرتے اور گاوڑی لسی پیتے تھے۔خواجہ فریدرح کے روہیلے اور چاچڑاں ، حسین بخش ڈھاڈی، فقیرا بھگت، تابش الوری، دشتِ سوس کی خالق جمیلہ ہاشمی، میر حسان الحیدری ، جہانگیر مخلص اور باسط بھٹی جیسے ناموروں سے بہاولپور روشن ہے۔طارق بشیرچیمہ بہاولپور کے وکیل ہیں۔جوانی میں وہ دیوانے تھے،چی گویرا بننے کی آرزو کرتے تھے آخری عمر میں سمجھدار ہیں اور مسلمان ہو چوہدری برادران سے فیض پاتے ہیں۔وہ اور ان کے بھائی بہاولپور کا مقدمہ لڑتے ہیں اور نئے صوبے کے معاملے میں اسمبلیوں میں اکثریت نہ ہونے کا عذر رکھتے ہیں۔ان سے بہتر کون جانتا ہے کہ اکثریت کی بات ایک عذرِلنگ ہے کہ ملکی مفاد میں ترامیم کے لئے اکثریت نہیں آشیرباد کی ضرورت ہوتی ہے۔جس دن عوام کی خوشی و خوش حالی اور ملکی مفاد کو بابا فرید رح اور ذکریا ملتانی رح کی دانش سے جوڑا گیا نیا صوبہ چشمِ زدن میں بن جائے گا۔ چیمہ صاحب کو وسیب کے نئے اور پرانے زمیں زادوں کو ایک کرنے کا چیلنج درپیش ہے اور ان کے پاس فرہاد کا تیشہ بھی ہے۔ان پر لازم ہے کہ وہ دودھ کی نہر کھودیں۔سول سیکرٹریٹ کو قابلِ قبول اور متوازن بنانے کا چیلنج وسیب کی دانش کو درپیش ہے۔وسیب کی دانش سے غیر رسمی مکالمے کے بعد کالم نگار فیصلہ سازوں سے درج ذیل نکات پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے:1) بہاولپور اور ملتان کو سول سیکرٹریٹ اور متوقع صوبے کے صدر مقام کے لئیجڑواں شہروں کا درجہ دیا جائے۔دونوں خوب صورت شہر twin capitalsکے طور پر نیا جنم لے سکتے ہیں۔2) صوبائی محکموں کے نصف دفاتر بہاولپور اور نصف ملتان میں بنائے جا سکتے ہیں۔3)گورنر، وزیرِاعلی، صوبائی اسمبلی اور ہائی کورٹ سے دونوں شہر مستفید ہو سکتے ہیں۔4) بہاولپور اور ملتان کا فاصلہ صرف 60 میل ہے۔دونوں شہروں کو کشادہ تر شاہراہ سے ملانے سے سفری وقت کو 40 سے 45منٹ ہو جائے گا۔اور یہ سفری وقت لاہور ڈیفنس سے سیکرٹریٹ تک جانے کے وقت سے کم بنتا ہے۔
نیت اور صلاحیت کے کے علاوہ اس معاملے کو دانائی اور محبت سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے:
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انھیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
محبت کے سفیر ، بابا فرید رح کو ایک یاتری نے قینچی لا کر دی تو آپ نے کہا تھا کہ "مجھے قینچی نہیں، سوئی دھاگہ دو کہ میں کاٹنے کا نہیں، سینے کا کام جانتا ہوں ۔”وہ کاگا کو سب تن کھانے اور آنکھیں محفوظ رکھنے کا کہتے کہ وہ محبوبِ حقیقی کا دیدار کر سکیں۔ان کے ہم نام اور سرائیکی شاعری کے امام خواجہ غلام فرید رح رب کو یار پنل کہتے ہیں ۔ محبت کا خدا جو رحم اور رحمت سے زندگی کی نمو کرتا ہے:
ہر جا ذات پنل جی
عاشق جانڑ یقین
مبصرین کرام، ہم نے ملتان اور بہاولپور کی تاریخ کے روشن گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔دونوں شہر زمانوں سے تاریخ اور تہذیب کی شاہراہ پر ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور ایک ہی کلچر کا حصہ ہیں۔ماضی کی کچھ خطائیں بھی ہیں جنھیں بھولنے کی ضرورت ہے ۔جب مسلم لیگ ن دو صوبوں کی بات کرتی ہے تو وسیب کی دانش اس پر اعتراض نہیں شک کرتی ہے کہ ایک صوبے پہ راضی نہ ہونے والی جماعت دو صوبوں کا شوشہ رائے عامہ کو تقسیم کرنے کے لئے چھوڑتی ہے۔یہ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پرانی سامراجی پالیسی ہے۔سول سیکرٹریٹ کے فاصلوں کو بابا فرید رح کی محبت و دانائی سے پاٹنے کی ضرورت ہے۔اس میں خاتونِ اول اپنا کردار ادا کر سکتی ہیں کہ یار پنل کے نام پر بنے پاکستان کو بخیہ گری کی ضرورت ہے.شاہ محمود قریشی کے جد امجد نے کامیاب سفارت کاری سے ملتان کو منگولوں سے بچایا تھا اور شاہ محمود قریشی کو اس وقت ایف اے ٹی ایف سے بڑا چیلنج ملتان اور بہاولپور کی جدلیات سے ہے کہ خطہ ء ملتان یا وسیب کی تاریخ کو قتل کی نہیں، بازیافت (reclamation)کی ضرورت ہے ۔ہم نے تہذیب، تاریخ اور سدا آباد ملتان کو بہاولپور سے جوڑنا ہے، کاٹنا نہیں۔تاریخ کی خطاوں کو بھولنا ہے اور مشترکہ ورثے کو آواز دینی ہے۔علامتی شاعری کے امام ، بادلئیر کی نظم، پیرس سے خطاب، کی آخری لائن جیسے ملتان کے لکھی گئی تھی :” اے بد بخت شہر ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں”!
یہ بھی پڑھیں:ملتان:خاتونِ اول اور شاہ محمود قریشی (1)۔۔۔رانا محبوب اختر
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر