مئی 10, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی ایک زبان ہے پنجابی کا لہجہ نہیں ہے۔۔۔ اشفاق نمیر

بہاول پور ایک آزاد سرائیکی  ریاست تھی جس کا قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ بننے پر پنجاب کے ساتھ ناجائز الحاق کیا گیا.

سرائیکیوں سے اکثر ایک سوال پوچھا جاتا ہے کہ جناب سرائیکی پنجابی کا ایک لہجہ ہے الگ زبان نہیں اور آپ اس بولی کی بنیاد پر ایک الگ الگ صوبہ بنانا چاہتے ہیں کیا آپ کا مقصد پنجاب کے ٹکڑے کرنا ہے؟
میں اس کے سیاسی اور استحصالی پہلوؤں کے بارے بات نہیں کروں گا میں خالص لسانیاتی اور علمی بنیادوں پر کچھ معتبر حوالے پیش کرتا ہوں اس خطے میں سائنسی بنیادوں پر لسانیاتی کام یورپین خصوصا برطانویوں نے کیا

1837 میں Wathen نے ہماری سرائیکی زبان کو پنجابی سے الگ ملتانی یا سرائی زبان قرار دیا اور اس کے الگ حروف تہجی بھی بیان کیے

1849 میں برٹن نے سرائیکی کی ابتدائی گرامر تحریر کی

1870 میں ٹرمپ نے اسے پنجابی سے الگ زبان قرار دیا

1881 میں اوبرائن نے ملتانی ڈکشنری مرتب کی اور اسے واضح طور پر پنجابی سے مختلف زبان قرار دیا

ایک دلچسپ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1814 میں ملتان میں بائبل کا ملتانی زبان میں ترجمہ کیا گیا اور اسے چھاپنے کے لیے لاہور لے جایا گیا تو وہ متن کاتبوں اور چھاپہ خانے والوں کے لیے غیر معروف اور سمجھ سے بالاتر تھا چنانچہ انہوں نے اس ترجمہ کو پنجابی میں ہی چھاپ دیا اور جب وہ چھپ کر ملتان آیا تو وہ ترجمہ ملتانیوں کے لیے ناقابل فہم تھا

1895 میں بمفورڈ نےمغربی پنجاب میں بولی جانے والی زبان کی گرامر لکھی اسے پنجابی سے علیحدہ زبان قرار دیا اور اس زبان کا علاقہ ملتان اور سرگودھا ڈویژن اور ڈیرہ جات کو قرار دیا

1899 میں ولسن نے اس زبان کی گرامر اور لغت تحریر کی

1900 میں جیوکس نے ایک بہت بڑی لغت تحریر کی اور اس زبان کو جٹکی کا نام دیا

1919 میں گریئرسن نے جنوبی لہندا کے علاقے کا مکمل سروے کیا (سکھ گرو بھی اس زبان کو لہندا کہتے تھے) 

گریئرسن ڈیرہ جات میں بولی جانے والی زبان کو سرائیکی کی ڈیرہ وال شاخ لکھتا ہے

1924 میں ٹرنر نے اس زبان پر کام کیا

1936 میں بہل نے ملتانی زبان کی صوتیات پر کام کیا

1970 میں سمرنوف نے لہندی کی گرامر تحریر کی اور اس نے پوٹھوہاری پہاڑی اور ہندکو کو پنجابی سے جدا سرائیکی کے لہجے قرار دیا

1976 میں کرسٹوفر شیکل نے سرائیکی کی مکمل گرامر تحریر کی.

اتنے معتبر ماہرین لسانیات کی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سرائیکی ایک زبان ہے پنجابی کا لہجہ نہیں ہے اور سرائیکی ہمیشہ سے پنجابی سے جدا زبان رہی ہے

1820 میں سکھوں نے ملتان کا پنجاب کے ساتھ الحاق کیا ڈیرہ غازی خان میں تونسہ سے روجھان تک سکھوں کے خلاف شدید مزاحمت ہوئی آخر انگریزوں نے 1845 میں ڈیرہ غازی خان کو پنجاب میں اور بعدازاں ڈیرہ اسمعیل خان کو سرحد میں شامل کر دیا

بہاول پور ایک آزاد سرائیکی  ریاست تھی جس کا قیام پاکستان کے بعد ون یونٹ بننے پر پنجاب کے ساتھ ناجائز الحاق کیا گیا.

اعتراض کرنے والے حضرات کے اعتراضات بے بنیاد اور حقائق کے خلاف ہیں سرائیکی زبان نہ صرف ہمیشہ سے پنجابی سے الگ زبان رہی ہے بلکہ سرائیکی وسیب بھی سکھا شاہی یا سکھ گردی سے پہلے کبھی پنجاب کا حصہ نہیں رہا

%d bloggers like this: