نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

سرائیکی وسیب میں عید قربان۔۔۔ ملک سراج احمد

سرائیکی وسیب کے لوگ عید قربان کے فوری بعد اپنی اسطاعت کے مطابق کسی خوبصورت بچھڑے،بکرئے یا بکری کو اللہ پاک کی قربانی کی خاطر مختص کردیتے ہیں

مسلمان سال میں دو عیدیں مناتے ہیں ان میں سے ایک عبد الاضحی ہے۔اس کو عید قربان یا بڑی عید بھی کہا جاتا ہے۔یہ خوشیوں کا ایک ایسا دینی تہوار ہے جس میں تمام مسلمان اللہ تعالی کے حکم کو بجالاتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایک سنت ”سنت اضحیہ“ ادا کرتے ہوئے خوشی مناتے ہیں۔یہ وہ عظیم دن ہے جس دن حضرت ابراہیم اپنے رب کے حکم کی بجا آوری کی خاطر اپنے پیارئے اور چہیتے بیٹے حضرت اسماعیل کو اس کی بارگاہ میں قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے تھے۔حکم کی تکمیل کی خاطر جب ایک نبی نے اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلانے کا ارادہ کیا تو رب کائنات کو اپنے بندئے کی یہ ادا اس قد ر پسند آئی کہ فی الفور جنت سے ایک دنبہ بھیجا گیا اور اس طرح قربانی ایک دنبے کی دی گئی۔یہ پورا ایک واقعہ ہے جس کی تفصیل کم وبیش سب جانتے ہیں۔بہرحال اس امتحان میں عظیم پیغمبر اپنے رب کے سامنے سرخرو ہوئے۔اللہ پاک نے بندگی کے اس عمل کو تاقیامت مسلمانوں کے لیے لازم کردیا کہ ہر صاحب نصا ب سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے ایک بہترین جانور کا انتخاب کرکے اس کو اللہ کی راہ میں قربان کردئے۔

اس عمل پر پیارئے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ”قربا نی صرف جانور ذبح کرنے کا نام نہیں بلکہ اپنے دلی جذبات اور خواہشات کو فنا کردینا ہے اور جانور کے خون سے زیادہ اپنے ارمانوں اور تمناوں کا خون کرنا ہے، اور نفسانی خواہشات کواحکام کی رسّی سے باندھ کراسے راضی کرنے کی کوشش کرنا ہے، گویا یہ عہد کرنا ہے کہ جس طرح آج ایک جانور کو قربان کرکے ہم اللہ تعالی کو راضی کررہے ہیں اسی طرح ہم اپنی خواہشوں کو قربان کرکے اسے راضی کرنگے، گویا عید خوشی و مسرت کے ماحول میں عہدو پیمان کا نام ہے۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تواہل مدینہ کے لیے دودن ایسے تھے جس میں وہ کھیل کود کرتے اور خوشی کیا کرتے تھے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلاشبہ اللہ تعالٰی نے تمہیں اس سے بہتر اوراچھے دن عطاکیے ہیں وہ عید الفطر اورعیدالاضحی ہیں۔اوراللہ تعالٰی نے اہل مدینہ کے دو دن ذکر وشکراورمغفرت درگزر میں بدل دئیے۔عیدالاضحی دس ذی الحجہ کے دن میں آتی ہے اوریہ افضل عیدہے جو کہ حج کے مکمل ہونے کے بعدآتی ہے جب مسلمان حج مکمل کرلیتے ہیں تواللہ تعالٰی انہیں معاف کردیتا ہے۔اس لیے حج کی تکمیل یوم عرفہ میں قوف عرفہ پرہوتی ہے جوکہ حج کاایک عظیم رکن ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ”یوم عرفہ آگ سے آزادی کا دن ہے جس میں اللہ تعالٰی ہر شخص کوآگ سے آزادی دیتے ہیں عرفات میں وقوف کرنے والے اوردوسرے ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی آزادی ملتی ہے۔تواس لیے اس سے اگلے دن سب مسلمان چاہے وہ حاجی یاغیرحاجی سب کے لیے عید ہوتی ہے۔اس دن مسلمان اپنے رب کا قرب حاصل کرنے کے لیے اس کی خوشنودی کی خاطر قربانی کرتے ہیں۔

دس ذی الحجہ کو دنیا کے مختلف خطوں میں آباد مسلمان اللہ پاک کے حکم کے مطابق سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے جانوروں کی قربانی دیتے ہیں اور اپنے رسوم ورواج اور روایات کے مطابق عید کی خوشی مناتے ہیں۔پاکستان میں بھی عید الاضحی ہر سال ایک دینی جوش وجذبے کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ملک بھر کی طرح سرائیکی وسیب میں عید الاضحی کو شایان شان طریقے سے منایا جاتا ہے۔سرائیکی خطے کی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے اور انکا زریعہ معاش کھیتی باڑی اور مال مویشی پالنا ہے۔

سرائیکی وسیب کے لوگ عید قربان کے فوری بعد اپنی اسطاعت کے مطابق کسی خوبصورت بچھڑے،بکرئے یا بکری کو اللہ پاک کی قربانی کی خاطر مختص کردیتے ہیں اور پھر سارا سال اس جانور کی خدمت کی جاتی ہے۔قربانی کے نام کے جانور کو دیگر جانوروں سے الگ باندھا جاتا ہے اس کے لیے چارئے اور خوراک کا الگ سے بندوبست کیا جاتا ہے یہ سب اسلیے ہوتا ہے کہ عید تک یہ جانور پوری طرح صحت منداور خوبصورت نظر آئے۔جبکہ شہری علاقوں میں چونکہ رہائشی گھروں میں جگہ کا مسلۂ ہوتا ہے اسلیے قربانی کے جانور کو عید سے ایک ماہ یا کم وبیش ایک ہفتہ قبل خریدا جاتا ہے۔اس کے لیے شہری علاقوں میں جانوروں کی منڈیاں لگتی ہیں اور شہری اپنے بچوں یا پھراپنے یاردوستوں کے ساتھ منڈیوں کا رخ کرتے ہیں اور مناسب دام میں خوبصورت جانور کی تلاش میں منڈی میں گھومتے اور بیوپاریوں سے بھاو تاو کرتے ہیں۔بعض اوقات تو تلاش کا یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہتا ہے۔منڈی میں بھی جانورں کے بیوپاری اس دینی تہوار کی نسبت سے خاص اہتمام کرکے آتے ہیں اور اپنے جانوروں کو مہندی اور خوبصورت رنگوں سے سجا کر لاتے ہیں۔منڈی میں عید قربان کے لیے مختلف جانور جن میں گائے،بیل کے علاوہ سب سے زیادہ دیسی بکرا،پہاڑی بکرا،پہاڑی دنبہ،ٹیڈی بکرا، چھترابھی شامل ہوتے ہیں کو فروخت کے لیے لایا جاتا ہے اوران جانوروں کے اپنی نسل اور وزن کے اعتبار سے نرخ مقرر ہوتے ہیں۔بالآخر جب جانور خرید کر لایا جاتا ہے تو اس گھر کے بچوں کی تو اسی دن ہی عید ہوجاتی ہے۔پورئے گھر میں ایک خوشی کا سماں ہوتا ہے۔چھوٹے بچے کبھی تو اس جانور کو پانی پلاتے ہیں تو کبھی چارا کھلارہے ہوتے ہیں۔قربانی کے جانورپر مہندی سے نام لکھنا یا پھر چاند ستارئے بنائے جاتے ہیں ان جانوروں پر خوبصورت رنگوں کے کپڑے بھی ڈالے جاتے ہیں۔یہ سب بچوں کی خوشی کے لیے ہوتاہے اور قربانی کے جانور کے لیے منڈی سے جانوروں کے زیورات بھی خریدئے جاتے ہیں۔ان میں جانوروں کے پاوں کی جھانجھریں، مالائیں اور گلے کے خوبصورت منقش پٹے بھی خریدئے جاتے ہیں۔الغرض قربانی کے جانور کو خوبصورت بنانے کے لیے بچے اپنے تمام ارمان پورئے کرتے ہیں اور شام کو اپنے جانور کو ساتھ لے کر بچے اپنی گلی اور محلے میں نکلتے ہیں اورپھر اپنے قربانی کے جانور کا دوستوں کے قربانی کے جانور کے ساتھ خوبصورتی کا مقابلہ ہوتا ہے یہ محلے کا وہ مقابلہ حسن ہوتا ہے جس میں چھوٹے بڑے سب شریک ہوتے ہیں اور اس مقابلہ حسن میں جس کا جانور فاتح ہوتا ہے اس کے مالک کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔جبکہ دیگر اپنے جانوروں کو اپنے گھر لے جاکر مزید محنت کرتے ہیں اور ان کی خوبصورتی کے اہتمام کرتے ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ قربانی کے جانوروں کا یہ مقابلہ حسن روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور ہر بار فاتح کوئی نیا جانور ہوتا ہے۔قربانی کے جانور کو دن میں ایک بار تو نہلانا لازمی ہوتا ہے اور بچے اس کے لیے باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں اور ان قربانی کے جانوروں کو شیمپو اور صابن سے نہلایا جاتا ہے گویا ان دنوں کی بچوں کی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ صرف بچے ہی نہیں ان کی خوشی اور مصروفیات میں اہل خانہ بھی برابر کے شریک ہوتے ہیں۔بالآخر قربانی کا دن آن پہنچتا ہے اور اس دن بچوں کی اکثریت جو کہ قربانی کے جانور کے ساتھ والہانہ محبت کررہی ہوتی ہے ایک تکلیف دہ دن ہوتا ہے۔عید کی نماز کی ادائیگی کے بعد قصائی کی تلاش کی جاتی ہے اور اس دن وقت پرقصائی کا ملنا کسی نعمت کے ملنے سے کم نہیں ہوتا۔جب قربانی کے جانور کو اللہ کی راہ میں قربان کیا جاتا ہے تو چھوٹے بچے قربانی کے جانور کی جدائی میں رودیتے ہیں۔مگر کچھ وقت کے بعد بھول کر نئی عید کی انتظار شروع ہوجاتا ہے۔قربانی کے جانور کی زبح کے بعد اس کے گوشت کے تین حصے بنائے جاتے ہیں جس میں ایک حصہ اپنے گھر میں ایک اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں میں تقسیم ہوتا ہے اور اس گوشت کے تقسیم کار بھی بچے ہی ہوتے ہیں جو کہ گلی میں کبھی ایک گھر تو کبھی دوسرے گھر میں جارہے ہوتے ہیں۔جبکہ ایک حصہ غریب اور نادار لوگوں کے لیے ہوتا ہے۔قربانی کے جانور کے سری پائے بھی استعمال میں لائے جاتے ہیں اور ان سری پایوں کو بھوننے کے لیے ان دنوں میں سڑکوں،گلیوں اور محلوں میں عارضی تندور لگائے جاتے ہیں جہاں پر قربانی کے جانوروں کے سری پایوں کو بھونا جاتا ہے۔

قربانی کے گوشت سے مختلف پکوان تیار کیئے جاتے ہیں جس سے اہل خانہ اورگھروں میں آنے والے مہمان لطف اندوز ہوتے ہیں۔عید کی چھٹیوں میں دوستوں اور رشتہ داروں کی دعوتیں کی جاتی ہیں اور طرح طرح کے کھانے تیار کیئے جاتے ہیں۔

About The Author