مارچ 29, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ترقی کا نسخہ کیمیا۔۔۔رضوان ظفر گورمانی

پاکستان میں جگہ جگہ بچوں کا استحصال ہو رہا ہے۔جبری مشقت جسمانی تشدد جنسی ہراسانی اور چائیلڈ لیبر عام سی بات ہے

رحیم آصف ڈیرہ غازیخان کے ہمارے دوست ہیں۔پیشہ زمینداری ہے لیکن تاریخ و ادب سے گہرے شغف کی بنا پہ چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ناروال کے اک ڈی آئی جی تھے انہوں نے ڈی جی خان کے علاقے کوٹ چٹھہ میں اک غریب آدمی کے بیٹے کو بیٹا بنا کر تعلیم دلوائی۔آج وہ بیٹا اعلی منصب پہ کام کر رہا ہے۔ہمارے اردگرد کتنے ہی ایسے بچے ہوں گے کبھی چائے کے ڈھابے پہ کبھی جوس کی دکان پہ کبھی آئس کریم پارلر میں چند سکوں کی خاطر مزدوری کرتے نظر آتے ہیں اگر ان کو تعلیم کی طرف لایا جائے تو کچھ بعید نہیں کہ کل کو وہ بڑے افسر بن کر کسی اور بچے کو تعلیم دلا کر قرض اتار رہے ہوں۔حذیفہ ملتان کا اک ایسا ہی بچہ ہے جس نے میٹرک سائنس میں اک ہزار سے بھی زائد نمبر لیے لیکن غربت کے باعث غلہ منڈی کے ساتھ جوس کی دکان پہ کام کرنے پہ مجبور ہے۔حذیفہ کی روشن آنکھیں اس کے عزم کی گواہی دیتی ہیں۔اس کے لبوں کی مسکراہٹ اس کے پہاڑ جیسے حوصلے کو ظاہر ہے۔

سوشل میڈیا پہ معاملہ اٹھایا احسن گورمانی منیر الحسینی و دیگر دوستوں کی وساطت سے چائیلڈ پروٹیکشن بیورو سے علی سید اور پاکستان بیت المال سے محمد سجاد نامی دوستوں نے نوٹس لیا۔عون عباس بپی جب سے چئیرمین بنے ہیں پاکستان بیت المال کی کارکردگی بہتر ہو گئی۔ضلعی ممبر ہیومن رائیٹس علی عباس قریشی جب عون عباس بپی کی کارکردگی کا بتاتے تو سوچتا شاید پارٹی اور عون عباس بپی سے اپنے دوستانہ مراسم کی وجہ سے علی ایسا کہہ رہے ہیں مگر کل حذیفہ کے معاملے پہ اک گھنٹے سے بھی کم وقت میں نوٹس لیا گیا اور اگلے اک گھنٹے میں پاکستان بیت المال کی ٹیم حذیفہ کے پاس پہنچ چکی تھی۔اب امید کرتے ہیں کہ پاکستان بیت المال حذیفہ کے تعلیمی اخراجات اور اس کے گھر کی کفالت اپنے ذمہ لے کر حذیفہ کے شاندار مستقبل کی ضامن بنے گا۔

تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو شعور کی سیڑھی کے ذریعے ترقی کی منازل طے کرا سکتا ہے۔یہ تعلیم و شعور کی کمی ہی ہے جس سے پاکستانی قوم کا یہ حال ہے۔اک تھانے میں ایس ایچ او صاحب دفتر سے باہر نکلے اور تھانے کے احاطے میں سائلین کا رش دیکھ کر تلملا گئے اور حکم دیا کہ ان سب کو باہر نکالو۔سپاہی نے ڈنڈا اٹھایا چالیس پچاس کے قریب سائلین کو ہانک کر باہر دھکیل دیا جیسے وہ انسان نہیں بلکہ جانوروں کا ریوڑ ہوں اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی اک شخص نے بھی آواس نہیں اٹھائی کہ یہ رویہ غلط ہے۔ہم شہریوں کے حقوق ہیں ایس ایچ او پبلک سرونٹ ہے ہماری نوکری کے لیے بیٹھا ہے۔مہذب ممالک میں آئرلینڈ اور فن لینڈ ایسے ممالک ہیں کہ جن کا نظام تعلیم ساری دنیا میں بہترین مانا جاتا ہے۔وہاں کے سکولوں میں کسی قسم کا نصاب نہیں پڑھایا جاتا بچوں کو بھاری بھرکم بیگز کے بوجھ تلے نہیں دبایا جاتا بلکہ وہاں تعلیم اک تفریحی ہے بچے سکول آتے ہیں مرضی کی ایکٹوٹیز کرتے ہیں کوئی پیانو بجا رہا ہے کوئی کمپیوٹر گیم کھیل رہا ہے کسی نے کھلونے کھولے ہوئے ہیں تو کوئی سائنسی موویز دیکھ رہا ہے۔ہر اک پیریڈ کے بعد ‘ آدھی چھٹی ‘ کا وقفہ ہوتا ہے۔وہاں نصاب نہیں بلکہ بچے طے کرتے ہیں کہ انہوں نے کیا بننا ہے۔یہاں نمبرز گیم ہے تعلیم اک کاروبار ہے۔ہر سال امتحانات کے نتائج آتے ہی سوشل میڈیا پہ طوفان بپا ہو جاتا ہے کہ میرے بچے اک ہزار نمبر لیے میرے بچے نے اک ہزار اک نمبرز لیے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ اتنے نمبرز لینے کے باوجود پاکستان میں کوئی سائنسدان کیوں نہیں بنتا کوئی ایجادات کیوں نہیں ہو رہیں چائنہ اور امریکہ میں ہر روز سینکڑوں کی تعداد میں ایجادات پیٹنٹ ہوتی ہیں۔لیکن اتنے نمبر لینے کے باوجود ہم سوئی تک بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔جب تک تعلیم و شعور نہیں آتا یہ ملک ترقی نہیں کر سکتا اور تب تک تعلیم و شعور ممکن نہیں جب تک ہم نمبرز گیم سے نہیں نکلتے۔نمبرز قابلیت جانچنے کا پیمانہ نہیں ہو سکتے۔ہمارے شہر میں اک ڈاکٹر کی بیٹی نے امیرانہ تکبر کے چلتے اپنے استاد کو تھپڑ جڑدیا تمام اساتذہ کے اجتماعی احتجاج کے باوجود نہ صرف وہ بچی اسی نجی تعلیمی ادارے میں پڑھتی رہی بلکہ پورے دو سال اس نے اساتذہ کو جوتے کی نوک پہ رکھا۔امتحانات میں اس بچی نے اک ہزار سے زائد نمبرز لیے۔اب کیا اس بچی کے نمبرز اس کی قابلیت ثبوت ہو سکتے ہیں؟

یہاں اک میٹرک ایف اے پاس افسر پی ایچ ڈی شہری کو دھتکار رہا ہوتا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟اعجاز گورمانی ایڈووکیٹ اہل علم اور اہل مشاہدہ شخص ہیں درجنوں ممالک میں رہنے کا تجربہ رکھتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ مہذب دنیا میں بچوں کو ابتدا سے ہی ریاست باور کراتی ہے کہ تم سپیرئیر ہو تمہارے آبا فاتح رہے ہیں دنیا بھر میں ہم مہذب گردانے جاتے ہیں تم بڑے ہو کر اس لیگیسی کو آگے بڑھاؤ گے تم دنیا کو لیڈ کرو گے۔تمہارے حقوق ہیں کوئی تمہیں ناجائز تنگ نہیں کر سکتا کوئی تمہیں تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتا حتیٰ کہ تمہارے والدین کو بھی اجازت نہیں کہ وہ تمہارے حقوق سلب کرے۔اس قدر اعتماد لے کر وہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اس کی قابلیت کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ڈاکٹر مجاہد مرزا نے بتایا کہ امریکہ میں اک مائیگریٹ ہونے والی اک فیملی میچ دیکھ رہی تھی اور باہ اپنی چھ سالہ بیٹی کو پیار سے پچکار رہا تھا ویڈیو سامنے آنے پہ باپ کو گرفتار کر لیا گیا بچوں کو ریاست نے اپنی تحویل میں لے لیا باوجود اس کے کہ ہمارے خطے میں یہ پدرانہ محبت کا اظہار تھا مگر امریکہ کو اس میں بچی کو مولیسٹ کرتا اک باپ نظر آیا۔رہاست جب اس قدر انتہا پہ جا کے بچوں کی حفاظت کرے تو بچوں کے اعتماد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں جگہ جگہ بچوں کا استحصال ہو رہا ہے۔جبری مشقت جسمانی تشدد جنسی ہراسانی اور چائیلڈ لیبر عام سی بات ہے۔ دنیا بھر میں پانی فروخت کرنے والی ایک بڑی ملٹی نیشنل  کمپنی کے پاکستان میں واٹر پیوریفکیشن پلانٹ کے چند پائپ ایسے ہیں جہاں اک بڑا شخص داخل نہیں ہو سکتا اس لیے نیسلے نے مقامی طور پہ بچوں کو ان پائیپس میں بھیج کر صفائی کروائی اطلاع ملنے پہ پاکستان میں موجود تمام امریکی اداروں ہر امریکی شخص نے نیسلے کا پانی پینا چھوڑ دیا۔یہ ہوتی ہے تربیت یہاں اسلام آباد میں قانون کی پاسداری کرنے والا ڈرائیور جیسے ہی راولپنڈی پہنچتا ہے قانون کو جوتے کی نوک پہ رکھ دیتا ہے۔

اگر ہم نے ترقی کرنی ہے تو ہمیں اپنا تعلیمی نظام یکسر تبدیل کرنا ہو گا۔بچوں پہ وقت پیسہ اور وسائیل انویسٹ کرنے ہوں گے انفرادی طور پہ تبدیلی لانا ہو گی۔جس دن ہر شخص نے سوچ لیا کہ پچیس کروڑ کی اس آبادی میں 24 کروڑ 99 لاکھ 99 ہزار 9 سو 99 اشخاص جو بھی کرتے رہیں مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں بس مجھے اپنا آپ ٹھیک کرنا ہے اس دن ہمارے پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

%d bloggers like this: