مئی 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

کالا باغ کی کٹوی۔۔۔گلزار احمد

پھر بانڈہ داود شاہ کا طوطی بولنے لگا اس کے قریب احمدی بانڈہ بھی گاہک کھینچنے لگا۔ انڈس ہائی وے ابھی نہیں بنی تھی

ڈیرہ اسماعیل خان کے جس گاٶں میرا بچپن گزرا اس زمانے ہمارے گھروں میں ہر قسم کا سالن مٹی سے بنی ہوئی کٹوی میں پکایا جاتا تھا۔ اگرچہ ہمارے گھروں میں پیتل۔جست ۔تانبے کے برتن بھی تھے مگر کٹوی کے پکے ہوۓ سالن میں جو لذت تھی وہ کسی اور برتن میں نہیں تھی یا پھر شاید ہم ایسا محسوس کرتے تھے۔

میری ماں کٹوی مجھ سے منگواتی اور وہ کٹویاں ہمارے دریا سندھ کے کنارے کھڑی کشتیوں سے ملتی تھیں۔ یہ کشتی والے کالا باغ یا مکھڈ سے کشتیوں میں کٹویاں لاد کے دریا کے اندر سو ڈیڑہ سو میل دور جنوب میں ہمارے شھر کٹویاں بیچتے۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ان کو اتنی دور کٹویاں بیچ کے کیا کمائی ہوتی ہوگی۔ کشتی کے اندر پورا ٹبر دو دو ہفتے دریا کے کنارے کشتی کے اندر قیام کرتا۔ پتہ نہیں کیسے لوگ تھے۔

اب ایسی کشتیاں نظر نہیں آتیں۔ جب کئی سال پہلے ہم آئی نائین اسلام آباد رہتے تھے تو اس کی مغربی مین سڑک پر ایک ہوٹل تھا۔ اس ہوٹل میں اکثر ہم کھانا کھاتے تو وہ فرائی گوشت ایک چھوٹی کٹوی میں دیتے تھے جو بڑا مزیدار ہوتا تھا ۔اب پتہ نہیں اسلام آباد والوں کو کٹوی سے کیوں دلچسپی تھی۔ ایک ھیر رانجھا ہوٹل بھی اسلام آباد دیکھا جس کی بلڈنگ کی ڈیکوریشن شاید ھیر کے گھر کی طرح کی گئی تھی۔ یہ ہوٹل والے بھی بڑے دلچسپ ہوتے ہیں ۔

میانوالی سے تلہ گنگ جاتے ہوۓ دندہ بلاول کے قریب ایک مشھور ہوٹل ہے جس پر جھال چکیاں کی دال لکھا ہوتا ہے اور واقعی وہاں کی دال بہت لذیذ پکی ہوتی ہے۔ ایک زمانے جب ہم یونیورسٹی پڑھتے تھے تو ڈیرہ سے پشاور جانا ہوتا تو پیزو کے ہوٹل لذیذ کھانے کیلیے بہت مشھور تھے اور اکثر ہم ان ہوٹلوں پر رکتے اور کھانا ضرور کھاتے۔

پھر بانڈہ داود شاہ کا طوطی بولنے لگا اس کے قریب احمدی بانڈہ بھی گاہک کھینچنے لگا۔ انڈس ہائی وے ابھی نہیں بنی تھی۔ پھر جب نئی ہائی وے بنی تو ڈیرہ سے پشاور جانے کے راستے بہت سے خوبصورت شھر اور ہوٹل ہم سے کٹ گیے۔ سراۓ نورنگ۔بنوں۔دومیل۔نمک کی کانوں والے پہاڑ ۔بہادرخیل سرنگ وغیرہ۔ بنوں کو کراس کرتے ہوۓ ایک سیلابی پانی کا نالہ جسے خوڑ کہتے گزرتا تھا۔اس جگہ ایک نسوار بیچنے والے کا کھوکھا تھا جس کے اوپر بورڈ لکھا تھا۔۔

سرگرداں نسوار ۔۔ہماری جی ٹی ایس کے ڈرائیور وہاں سے نسوار ضرور لیتے تھے۔ اب پتہ نہیں اس نسوار کی کیا خوبی تھی ہم نے تو زندگی میں کبھی نسوار سگریٹ استعمال نہیں کیا جس سے پتہ چلے اس نسوار سے بندہ کتنا سر گردان ہوتا ہے۔بہر حال اب انڈس ہاۓ وے کرک سائڈ پر چلی گئی تو یہاں بھی بڑے صاف ستھرے ماڈرن ہوٹل کھل گیے ہیں جن میں ہر قسم کی سھولتیں میسر ہیں۔

اسی طرح تلہ گنگ سے دس میل جنوب بھی خوبصورت ہوٹل مسافروں کے آرام کے لیے موجود ہیں۔ موٹروے پر جو ہوٹل کھلے ہیں ان میں شوشا تو بہت ہے مگر ہمارے پرانے ہوٹلوں جیسی عوامیت نہیں ہے۔ پشاور صدر کے اندر ایک گلی میں ہوٹل تھا جہاں توے کی پتلی روٹی ملتی تھی اور ہم وہاں بھی خوب انجاۓ کرتے پھر نمک منڈی کا چرچہ ہوا لیکن جلیل کے چپلی کباب برابر چلتے رہے۔ہمارے بچپن کے زمانے ڈیرہ شھر کے توپانانوالہ گیٹ کے اندر ایک چاۓ کا مشھور ہوٹل تھا اس ہوٹل کی خوبی یہ تھی کہ اس کے پاس بڑی تعداد میں پرانی توے نما کالے ریکارڈ تھے جن کے اندر فلمی گانے چلتے ۔

ہم لوگ چاے پینے کے ساتھ ایک فلمی گانے کی فرمائش کرتے تو وہ اسے مشین پر چلا دیتا اور ریکارڈ گھومتا اس کے اوپر ایک سوئی چلتی جس سے آواز پیدا ہوتی۔ وہ مشین His master voice کے نام سے مشھور تھی جس کے اوپر ایک کتے کی تصویر ہوتی تھی۔ جو بگل کو غور سے دیکھ رہا ہوتا۔ اپنی پسند کا گانا سن کر چاۓ پینے کا مزا کچھ اور ہے کبھی آپ ایسی چاۓ پی کر دیکھیں ۔

%d bloggers like this: