نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بھٹو روس میں بھی زندہ ہے ۔۔۔ طیب بلوچ

سویت یونین اور ماؤزے تنگ کی قربت کے علاوہ امریکی استعبداد کے خلاف بھٹو کی پالسیاں اس کے خاندان کی تباہی کا موجب بنیں۔

وطن سے کوسوں دور آوارگی کا شوق لیے روس کی دور افتادہ ریاست بشکورتستان کی سیر کے دوران ایک دلچسپ واقعے نے احساس دلایا کہ بھٹو صرف پاکستان ہی میں نہیں بلکہ روس میں بھی زندہ ہے۔

قیام کے دوران روس میں بجلی کے پیداواری ذرائع سے متعلق گفتگو میں دوستوں نے انکشاف کیا کہ اوفا دریا پر ڈیم بنا کر بجلی پیدا کی جاتی ہے ایک دم خیال آیا کہ کیوں نہ چل کر پانی کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کی روسی مہارت دیکھی جاۓ، روسی دوستوں کے ساتھ مل کر پروگرام بنایا اور ڈیم کی سیر کو نکل پڑے، اوفا سے دو سو تیس کلو میٹر کا  فاصلہ طے کرنے کے بعد ایک گاؤں نوو سلطان گلوو میں کچھ دیر کے لیے قیام کیا، وہاں پر اتفاقیہ میری ملاقات ستتر سالہ نزمت دینوا ریحان سبرینوا نامی خاتون سے ہوئی۔ پاکستان کا نام سنتے ہی اُس  نے مجھے گلے لگایا، میں نے محسوس کیا کہ جیسے وہ رو رہی ہو، ایک دم اُس کی آنکھوں سے آنسو کی جھڑی ٹپ ٹپ گرنے لگی۔ یہ ساری صورت حال میرے لیے غیر متوقع تھی۔ میں ورطہ حیرت کی تصویر بنا اس صورت حال کے بارے سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے مجھے دھکا دیتے ہوئے دُور کیا، میں ایک دم حیرانگی میں مُڑا اور غور سے اسے دیکھنے لگا۔ زمانے کی گردش اور وقت کا تجربہ اس کے جھری دار چہرے کی طمانیت سے عیاں تھا۔ اس نے اپنے سر کو سبز رنگ اور سرخ پھولوں والے سکارف سے ڈھانپ رکھا تھا اور گلابی رنگ کا لانگ کوٹ اس کی پر اطمینان شخصیت کی عکاسی کر رہا تھا۔ بھرائی ہوئی آواز میں رسکی زبان میں وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی “آپ پاکستانی قاتل ہو، بہت ظالم ہو آپ نے دو مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والی نہتی لڑکی کو قتل کر دیا، یہی نہیں آپ پاکستانیوں نے پہلے اس کے باپ کو قتل کیا اور پھر بیٹی کو بھی مار ڈالا”۔

یہ سب کچھ میرے لیے غیر متوقع تھا۔ ایک دم میرے دماغ میں راولپپنڈی کے لیاقت باغ کا المناک منظر، بے نظیر بھٹو ہسپتال سے پنکی کا نکلنا والا تابوت اور گڑھی خدا بخش میں قبرستان شہداء کے مناظر ماضی کے دھندلکوں سے عود کر شعور میں آ گئے۔ میرے پاس اس معمر خاتون کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔ میں صرف اتنا کہہ سکا کہ پاکستانیوں نے قتل نہیں کیا، یہ سب کچھ امریکا نے کیا۔ میرا جواب سن کر اس نے مجھے پھر سے گلے لگایا اور کہا کہ پھر کیوں ایسے ملک میں رہ رہے رہو، جو امریکیوں کا غلام بنا ہوا ہے، اس ملک کو چھوڑ کر یہاں آ جاؤ۔ پیار بھری آواز میں اس  نے کہا کہ مجھے پاکستانیوں سے نفرت نہیں بلکہ ہمدردی ہے، میں خود تاتار مسلمان ہوں اور پاکستان سے میرا اسلام کا رشتہ ہے لیکن امریکا سے نفرت ہے، امریکہ دنیا کی تمام اقوام کے خلاف ہے، اسے پاکستان سے نکال باہر کرو۔

میں سارا راستہ یہی سوچتا رہا اس کا ایک ایک لفظ میرے لیے قیمتی تھا اور یہ کہ روس کے دور دراز علاقے میں رہنے والی یہ عمر رسیدہ خاتون  پاکستان کا کتنا غم رکھتی ہے، اس نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ آپ پاکستانی قاتل ہو، مانا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو ہنری کسنجر نے دھمکی دی تھی کہ تمہارے خاندان کو رہتی دنیا تک نشان عبرت بنا دیں گے، اور ہوا بھی ایسا کہ امریکہ کی مدد سے پاکستان کے فوجی جرنیل ضیاءالحق نے ماشل لاء نافذ کرتے ہوۓ بھٹو کی حکومت کا تخت الٹ دیا اور اسے قید کر کے معمولی سے مقدمے میں جس سے بھٹو کا کوئی تعلق نہیں تھا، پھانسی دے دی گئی۔ دنیا کی تاریخ میں یہ پہلا مقدمہ ہے، جس میں کسی شخص کو محض قتل کی اعانت کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ بعد میں تاریخ نے ثابت کیا کہ یہ ایک عدالتی قتل تھا۔ اس کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے باپ کی میراث سنبھالی اور بھٹو کی پارٹی کو یکجا کیا اور ملک کو آمریت کے شکنجے سے نجات دلانے کے لیے باپ کے نقش قدم پر چل پڑی۔ گیارہ سالہ ضیاء کی آمریت کے خلاف سینہ سپر رہنے والی بھٹو کی پنکی ملک میں جمہوریت لانے میں کامیاب ہوئی لیکن ان کی حکومت زیادہ دیر نہ چل سکی، پھر سے انہیں ملک بدر کر دیا گیا، فوجی آمر پرویز مشرف کی دھمکیوں کے باوجود وہ وطن واپس لوٹی اور راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے دوران انہیں قتل کر دیا گیا۔

بھٹو اور اس کا خاندان ہنری کسنجر کی دھمکی کے نتیجے میں واقعی نشان عبرت بنا، لیکن بھٹو کو پھانسی کا فیصلہ کسی امریکی عدالت نے نہیں بلکہ اسی پاکستانی عوام کے ٹیکس کے پیسوں کے تنخواہ دار ججز نے دیا اور اس کی بیٹی بھی فوجی آمر کی حکومت کے دوران بھرے جلسے میں مار دی گئی۔ اس پر گولیاں امریکیوں نے آ کر نہیں چلائیں بلکہ اس ملک کا نمک کھانے والے ہی استعمال ہوئے۔

سوویت یونین اور ماؤزے تنگ کی قربت کے علاوہ امریکی استعبداد کے خلاف بھٹو کی پالسیاں اس کے خاندان کی تباہی کا موجب بنیں۔ تسری دنیا کے رہنما کے طور پر مشہور ذوالفقار علی بھٹو نے امریکی امپریلزم کو بانگ دہل چیلنج کیا تھا، مسلمان ممالک کو اکٹھا کر کے اسلامی بنک کا تصور دینے والے بھٹو نے اسلامی دنیا کے لیے سویت و چینی سوشلزم کو اسلامی نظریات کا تڑکا لگا کر اسلامک سوشلزم کا ایک نیا تصور دیا۔ عربوں کو بھٹو نے سکھایا کہ وہ کیسے تیل کو مغرب کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں۔ ایسی شخصیت بھلا کیسے زیادہ دیر زندہ رہ سکتی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ بھٹو کو جدید چین کے بانی نے کہا تھا کہ مسٹر بھٹو آپ بہت تیز دوڑ رہے ہو کہیں مارے نہ جاؤ، بھٹو نے برجستہ جواب دیا کہ اس لیے تو تیز دوڑ رہا ہوں کیونکہ وقت کم ہے۔

شاید اسی وجہ سے بھٹو نے چین کے ساتھ ساتھ یو ایس ایس آر سے تعلقات بحال کرنے کی ہر ممکن سعی کی، ملک کے دولخت ہونے کے سانحے کے بعد بھٹو نے مارچ انیس سو بہتر میں  ماسکو کا دورہ کیا اور عرصہ دراز سے منجمند تعلقات میں گرم جوشی پیدا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ بھٹو نے سویت یونین کا اعتماد بحال کرتے ہوئے پاکستان میں سرمایہ کاری پر راضی کیا، کراچی میں پورٹ قاسم بحری بندرگاہ کی ڈویلپمنٹ اور سٹیل مل کا سب سے بڑا کارخانہ بھٹو کی انہیں کاوشوں کے نتیجے میں سویت یونین نے پاکستان میں لگایا۔

بھٹو کے وقت میں پاکستان بہت لبرل اور سیکولر تھا لیکن خطے میں ہونی والی تبدیلیوں کے پیش نظر انکل سام کو انتہا پسند پاکستان کی ضرورت تھی۔ کلر ریولیشن کا پاکستان اس خطے میاں پہلا امریکی شکار بنا، سعودی عرب کی فنڈنگ سے مغرب نے ہمارا تشخص ہی تبدیل کر دیا۔ آج پاکستان انتہا پسندی اور رجعت پسند مذہبی طبقے کی جنت بن چکا ہے اور امریکہ کا سب سے بڑا اتحادی ہونے کے باوجود امریکہ نے کبھی بھی پاکستان میں حقیقی معنوں میں دہشت گردوں اور مذہبی طبقے کی مالی معاونت کے علاوہ عوام کی فلاح کے لیے کوئی ایک بھی پروجیکٹ نہیں کیا۔

امریکی استعمار سے متعلق عمر رسیدہ معمر روسی خاتون نے ٹھیک کہا تھا کہ عالم امن کا دشمن امریکہ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جس نے بھی انکل سام کی سامراجیت کو چیلنج کیا وہ نشان عبرت بنا دیا گیا، اب بھلا میں کیسے اس کو سمجھاتا کہ پچھلے انہتر سالوں سے امریکہ پاکستان میں اتنا سرایت کر چکا ہے کہ اسے نکال باہر کرنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے۔

About The Author